Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Akram
  4. Mazhabi Tabqa Aur Establishment Main Doosra Bigaar

Mazhabi Tabqa Aur Establishment Main Doosra Bigaar

مذہبی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ میں دوسرا بگاڑ

پچھلے کالم میں ہم نے سمجھا تھا کہ زمین پہ انسان کی دو ہی طرح کی ضروریات ہیں۔ ایک کا تعلق اسباب یعنی زمینی وسائل سے ہے جس پہ بادشاہی طبقہ قابض ہوجاتا ہے جبکہ دوسری ضرورت کا تعلق براہ راست اس ذات سے ہے جو اسباب کو زمین پہ پیدا کرتا ہے۔

یعنی میں بیمار ہوں گا تو اس ذات سے التجا کروں گا کہ زمین پہ وہ اسباب پیدا کرے جن کے ذریعے میری بیماری دور ہوسکے اسی طرح باقی ضروریات بھی۔ دعا کا مطلب ہے مانگنا، التجا کرنا۔ اور اللہ سے دعا کا مطلب ہے غیب سے مانگنا یا التجا کرنا۔ اصل میں زمین پہ انسان کا اللہ سے رابطہ ہی دعا سے ہوتا ہے۔ اللہ کیوں کہ غیب کے پردے میں ہے اور اگر ظاہر ہوجائے تو پھر تو حق و باطل کا فیصلہ ہی ہوجائے گا۔ جیسے سورہ البقرہ (210) میں ارشاد ہے۔

اس لیے اللہ کو کوئی اپنے حواس کے ساتھ نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے"نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے(الانعام، 103)

اب انسان نے اللہ سے جو بھی رابطہ کرنا ہے وہ غیب سے ہی کرنا ہے اور یہ یقین رکھنا ہے کہ وہ ہستی اتنی طاقت کی مالک ہے۔ کہ میری دل اور زبان کی ساری باتیں سن رہا ہے جو میری ان التجاوں پہ جواب بھی دیتا ہے اور پورا کرنے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔ "بےشک میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے"(ہود، 61)

"تمہارا رب کہتا ہے "مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا"(غافر، 60)

"اور اے نبیﷺ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں"(البقرہ، 186)

دیکھیں اللہ کی زمین نیک لوگوں سے کبھی خالی نہیں رہی حضرت آدم سے لے کر اب تک سلیم الفطرت لوگ رہے ہیں۔ جو اشرافیہ اور عام عوام کو حق کی طرف مسلسل بلاتے رہے۔

یہاں یہ بات جان لیں کہ کسی کے توسل سے دعا منگوانا بالکل دین کے مطابق ہے اس میں دعا مانگنے والا آپ کے سامنے ہوتا ہے اور وہ بھی اللہ سے ہی دعا ہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ اپنے اچھے اعمال اور اللہ کے ناموں کا وسیلہ دے کا دعا کرسکتے ہیں، جبکہ دین کا بنیادی عقیدہ یہی ہے کہ دعا اللہ سے خود ہی کرنی ہے جیسے کہ ارشاد ہے"ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں"(فاتحہ، 5)

اور طریقہ خود ہمارے نبیﷺ نے ہمیں تعلیم فرمادیا ہے"کہ پہلے اللہ کی تعریف کرو خوب حمدوثنا کرو اسکے بعد مجھ پر اور میری آل پہ درود بھیجو یعنی ہمارے لیے دعا مانگو اسکے بعد اپنے لیے مانگو جو چاہو اپنے رب سے۔

اب ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ اچانک سے رب کا انکار کرکے دوسروں کے در پہ جھکنا شروع کردیتے ہیں

جیسے کہ شعر ہے۔ ~وقت کرتا ہے پرورش برسوں

~حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اس لیے جب کسی علاقے میں بادشاہت کا غلبہ ہوجاتا۔ لوگ مادی وسائل کے لیے اس کے محتاج ہوجاتے۔ تو چند نیک لوگوں کی طرف سے پہلے تو مزاحمت ہوتی۔ مگر جب وہ طاقتوروں کا مقابلہ نہ کرپاتے تو اس ظلم کے نظام سے ہٹ کر اپنی انفرادی عبادت میں لگ جاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اشرافیہ کے جب اپنے عقائید بگڑ جاتے۔ جب وہ خود ہی دین پہ عمل نہیں کریں گے جب نظام تعلیم اور وسائل بھی انکے ہاتھ ہوں گے تو معاشرے میں سوائے قلیل لوگوں کے اکثریت ان کی ہی تہذیب میں ہی رنگی جائے گی۔ تو جب عوام دیکھتے کہ دنیا کے وسائل اللہ نے امراء کے ہاتھ دے دیے ہیں اور جب انکے دربار میں اتنی آسانی سے رسائی نہیں ہوسکتی تو آخر ڈائریکٹ اللہ کے دربار میں ہم کیسے کھڑے ہوسکتے ہیں۔ دوسرا انسانوں میں گناہ گار کون نہیں ہوتا کون اپنی پاکی کا دعوی کرسکتا ہے؟ اس لیے عام لوگ سمجھتے کہ کسی نیک انسان سے درخواست کی جائے جو دنیا سے بےغرض اور رب کی رضا کا طالب رہتا ہو اسی وجہ سے وہ رب کے زیادہ نزدیک ہوگا۔ وہ اللہ سے ہمارے غیبی معاملات کے حل کے لیے دعا کرے گا۔ تو اللہ اس کی سن لے گا۔ لوگ اپنے مسائل کے لیے ایسے لوگوں کی طرف رجوع کرتے اور جب انکی وفات ہوجاتی تو لوگ سمجھتے یہ نیک بندہ اللہ کی جنتوں میں زندہ ہی ہے۔ اگر وہ زندہ ہے تو ظاہر ہے پھر ہماری باتیں بھی سنتا ہے بلکہ اب تو اللہ کے دربار میں ہے تو اسکی طاقت اور کئی گناہ بڑھ گئی ہوگی۔ اس لیے ہم ابھی بھی اسی سے کہتےہیں کہ اللہ سے ہمارے مسائل کروا دے۔ اس لیے اب اس کی قبر پہ حاضریاں شروع ہوجاتی۔ کچھ دنیا پرست لوگ تو اپنی زندگی میں ہی انسانوں کی اس عقیدت کو کیش کرکے اپنے دربار چمکا لیتے۔ مگر جو کچھ نیک لوگ ہوتے اپنی زندگی میں تو ایسا نہ کرتے مگر انکی موت کے بعد انکی اولاد یا انکے خلیفے ہی عوام کی اس عقیدت کو کیش کرلیتے۔

اس طرح وہ غیبی ایمان جسکا تعلق صرف اللہ کی ذات سے تھا اس کے راستے میں نام کا ولی اللہ اور اسکا پورا خاندان آکہ بیٹھ جاتا۔ انسان کیونکہ اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے انسان جب شرک کے بوجھ اٹھائے گا غیب پہ ایمان میں صرف اللہ پہ ہی نہیں باقی ولیوں اور دیوتاوں کو بھی شامل کرے گا تو لامحالہ اسے کچھ ایمان کے تقاضوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ جبکہ اسلام کے نزدیک یہ بدترین شرک ہے۔ یعنی جب غیب میں آپ کسی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ تو اس شخص میں یہ خصوصیات فرض کرتے ہیں کہ وہ غیب میں آپکی بات سنتا ہے اور اس پہ آگے عمل بھی کرتا ہے یہی خصوصیات تو اللہ کی ہیں۔ نبیوں اور فوت شدہ لوگوں کو پکارنا یا کسی زندہ کو بغیر کسی معروف اسباب کے ذریعے پکارنا ہی تو شرک ہے۔ اسلام نے اسکا ایک حل دیا ہے جب کسی کو پکارو تو چاہیئے کہ وہ شخص آپکو جواب دے اور فوت شدہ شخص سے آپکو کبھی جواب آہی نہیں سکتا۔ "انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے" (فاطر، 14)

اس طرح آغاز ہوا بت پرستی کا، قبر پرستی کا، مزار پرستی کا۔ اس طرح لوگوں نے خود ہی تسلیم کرلیا کہ ہاں کچھ لوگ، کچھ طبقات ہم سے برتر ہیں اور ہم کم تر ہیں۔ اور شیطان کی چالوں میں آگئے جس کا مقصد ہی روز اول سے لوگوں میں کمتر اور برتر کی تفریق پیدا کرنا تھا اور توحید والا اسلام وقت کے ساتھ اپنی اصلی شکل ہی کھوبیٹھا اور پھر انسانوں نے ہر اس انسان کا بت بنایا جس سے وہ متاثر ہوئے پھر یہی بت چھوٹے چھوٹے خداوں کی شکل اختیار کرگئے۔ ظاہر جب مسلئے سارے انہوں نے حل کروانے ہیں تو یہ بھی اس بڑے خدا کے سامنے چھوٹے چھوٹے خدا ہی ہیں اور جو لوگ ان ہستیوں کے ساتھ جڑے تھے انکےکاروبار چل نکلے۔ اب زمین پہ اللہ کیا چاہتا ہے وہ یہی مذہبی طبقات بتاتے اور لوگوں کو اللہ کی وہی پہچان کرواتے جو ان کے لیے سازگار ہوتی۔ یہ تھابدترین شرک جس میں اجتماعی زندگی کا کنٹرول بادشاہوں کے ہاتھ آگیا جنہوں نے خدا کے نام پہ اپنی من مرضی کے قانون بنائے۔ اور انفرادی زندگی کا کنٹرول اس بت پرست مذہبی طبقے کے ہاتھ میں۔ پھر ان دونوں طبقات نے ملکر عوام کو گمراہ کیا اور خود بھی گمراہ ہوئے۔ اس کا نتیجہ جو نکلا وہ یہ کہ زمین بےانصافی سے بھرنے لگی۔ نبی کریمﷺ کی بعثت کے وقت مشرکین کا عقیدہ بھی یہی تھا۔ "اِن سے پُوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کہو، پھر تم ڈرتے کیوں نہیں"(یونس، 31)۔۔ "اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے"(لقمان، 25)۔۔ "اور اگر تم اِن سے پوچھو کہ اِنہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے، پھر کہاں سے یہ دھوکا کھا رہے ہیں"(الزخرف، 87)۔۔ "یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں"(یونس، 18)۔۔ "ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں"(الزمر، 3)

ان باتوں سے واضح ہوگیا کہ کفار اللہ کا انکار نہیں کرتے تھے بلکہ اختیارات میں شرک کرتے تھے۔ زمین پہ اپنی من مرضی کرنا چاہتے تھے۔ یہی عقائید ہر نبی کی قوم میں رہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ مانتےہو کہ تمہارا خالق اللہ، زمین آسمان کا خالق اللہ، تمہارا رازق اللہ، تمہاری ہر چیز کا مالک اللہ، زندگی موت کا مالک اللہ، ہر تدبیر کا مالک اللہ۔ تو آخر یہ دھوکہ کہاں سے کھا لیا کہ جن کو تم پوجتے ہو، جن کہ بت اور قبریں آباد کررکھیں ہیں یہ میرے پاس تمہارے سفارشی ہیں، آخر تمہیں کہاں سے معلوم ہوگیا کہ یہ مرنے کے بعد سنتے بھی ہیں اگر سنتے ہیں تو تمہاری مرادیں پوری کرانے کی تگ و دو بھی کرتے ہیں کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں تمہارے مسائل حل کرنے میں انکا محتاج ہوں یہ تو مردے ہیں انکو تو یہ تک خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ دوسرا یہ جو بادشاہ بنے بیٹھے ہیں آخر انکو کس نے حق دیا ہے کہ تمہارے مالک بن جائیں یہ آخر کس سند سے زمین پہ اپنی مرضی کے قانون بناتے پھرتے ہیں۔ تم نے کیوں انکی برتری تسلیم کرلی۔ کیوں توحید پہ سمجھوتہ کیا اور زمین پہ انکو اپنی من مانی کرنے دی۔ میں نے تو تم سب کو برابر پیدا کیا تھا اگر کوئی افضل بھی تھا تو وہ تقوی کی بنیاد پہ تھا۔ اور وہ بھی میں نے بتانا تھا کوئی خود سے کیسے متقی بن سکتا ہے یا جسے چند لوگ ولی اللہ کہ دیں تو کیا وہ ولی اللہ بن جائے گا۔ آخر جب ایسی قوموں میں گمراہی اپنی حدوں کو پہنچ گئی تو اللہ نے اسی قوم کے اندر سے ایک سلیم الفطرت شخص کو نبوت کے منصب سے سرفراز کیا اور اسے حکم دیا کہ اٹھ کہ اس قوم کے باطل نظام کو چیلنج کرے۔ تاکہ قیامت کے دن یہ حجت نہ پیش کرسکیں کہ اے اللہ اگر تو کوئی رسول بھیجتا تو ہم اس شرک سے بچ جاتے۔ ""یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے"" (النساء، 165)

اور جب بھی کوئی نبی یا رسول آیا اسکی دعوت بہت سادہ تھی۔۔ "کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو"(نوح 3)

ہر رسول نے آکر یہی پہلی دعوت اپنے قوم کے سامنے پیش کی جو لوگوں کو ہر غلامی سے آزاد کرکے اللہ کا غلام بناتی تھی۔ پھر جب سارے لوگ اللہ ہی کے سامنے اپنے مسائل کے لیے رجوع کریں گے۔ دین کو سمجھیں گے اپنی اولادوں کو بھی ورثے میں دین کا علم دے کر جائیں گے۔ آنکھیں بند کرکے علماء کی تقلید نہیں کریں گے۔ تو مذہبی طبقے کی دکانیں تو بند ہوں گی۔

اس لیے اشرافیہ کے یہ دونوں طبقے نبیوں کی کھلم کھلا مخالفت کے درپے ہوجاتے تھے۔ انکو خطرہ پیدا ہوجاتا تھا کہ یہ جو پورا نظام ہم نے کھڑا کررکھا ہے اگر عوام اس شخص کی طرف متوجہ ہوگئی تو سارا کا سارا دھڑام سے نیچے گر جائے گا۔ جیسے فرعون نے اپنے درباریوں کو حضرت موسیؑ بارے متنبہ کیا تھا۔۔ "مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا، یا ملک میں فساد برپا کرے گا" ۞(غافر 26)

یہ تھا وہ خوف جس کی وجہ سے وہ نبیوں پہ الزامات کی بوچھاڑ کردیتے تھے اور ہر وہ حربہ استعمال کرتے تھے اس دعوت کو ختم کرنے کا۔

لیکن انبیاء مسلسل دعوت دیتے رہتے تھے یہاں تک جب اس قوم کی مہلت ختم ہوجاتی۔ تو جو تو ایمان لے آتے انکو علیحدہ کرکے باقی سب پہ عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا جاتا اور بچنے والوں کو زمین کی خلافت عطا فرمادی جاتی اس کے بعد نہ کوئی مذہبی طبقہ رہتا اور نہ بادشاہی طبقہ بلکہ ان بچے ہوئے توحید پرستوں سے ہی کچھ لوگ اجتماعی نظام کے لیے چنے جاتے جن پہ عوام بھی بھروسہ کرتی تھی اور دنیا کی گاڑی چل پڑتی۔ "لوگو، تم سے پہلے کی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی روش اختیار کی اور اُن کے رسُول اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لا کر ہی نہ دیا اس طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیں ۞ اب ان کے بعد ہم نے تم کو زمین میں ان کی جگہ دی ہے تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو"(یونس13,14)

وہ قوم ایک وقت تو اللہ کے دین اسلام پہ قائم رہتی لیکن عرصہ گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ ان میں بھی یہی گمراہیاں سر اٹھا لیتیں پھر مذہبی اور بادشاہی طبقے پیدا ہوجاتے۔ انبیاء کا یہ سلسلہ چلتا چلتا آخرکار نبی کریمﷺ پہ ختم ہوگیا۔

یہ تھی بادشاہی اور مذہبی طبقےکی اسٹیبلشمنٹ جس میں کبھی بادشاہ مضبوط ہوتے تو مذہبی طبقہ انکی سرپرستی میں آجاتا جیسے خلافت عباسیہ یا خلافت عثمانیہ، اگر مذہبی طبقہ طاقتور ہوتا تو بادشاہ انکے ماتحت آجاتے جسے عیسائیت میں چرچ کی اسٹیبلشمنٹ، یا کہیں بادشاہ ہی مذہبی طبقے کا سربراہ بن جاتا جیسے فرعون۔ جو بھی صورت ہوتی کمتر اور برتر کی تفریق کی وجہ سے حق سے دوری قوم کا مقدر ہی ٹھہرتی۔ انسانی تاریخ میں صرف اسلام ہی اس طاغوتی نظام کا مقابلہ کرتا رہا مگر پندرہوں صدی میں ایک اور آواز نے بادشاہی نظام کو چیلنج کیا۔ وہ آواز کتنی پائیدار تھی اس پہ انشاء اللہ ائیندہ بات کریں گے۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt