Mazhab Science Ka Dushman Hai, Magar Kaise?
مذہب سائنس کا دشمن ہے، مگر کیسے
انسانی تاریخ میں مذہب یعنی علم وحی کبھی سائنس کا دشمن نہیں رہا۔ بشرطیکہ وہ اپنی اصلی حالت میں ہو عیسائیت ایک بگڑا ہوا مذہب تھا۔ سائنس کا دشمن وہ اس لیے تھا کیونکہ سائنس پوپ کی یورپ پہ اجارہ داری ختم کرتی تھی۔ یورپی فلاسفر نے کیونکہ اپنی فکر کی بنیاد عیسائیت کی مخالفت میں رکھی تھی اس لیے وحی کی ہر شکل کو ہی رد کردیا۔
دوسرا جیسے کہ پچھلے کالم "یورپ والو! عقل کو آزاد کرو" میں واضح کرچکا ہوں کہ انکی سائنس کی بنیاد عقل کے بجائے حواس پہ تھی اور عقل حواس کے تابع تھی۔ جبکہ مذہب تو حواس کے دائرے میں آتا ہی نہیں۔ اس لیے اس حواسی سائنس (Sensory Science) کی مذہب سے جنگ ناگزیر تھی، ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ یہی جدید سائنس کی بنیاد ہے۔
اب مسلمان جتنے مرضی دلائل دیں کہ مذہب سائنس کا دشمن نہیں۔ کون سمجھے گا جبکہ حواسی سائنس ہر جگہ اپنی اجارہ داری قائم کرچکی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے، عقلی سائنس (Rational Science) جہاں حواس عقل کے تابع ہوں اور حواسی سائنس (Sensory Science) جہاں عقل حواس کے تابع ہو، میں فرق جاننا انتہائی ضروری ہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ تم غوروفکر کرو۔ سائنس کیا ہے۔ یہ مشاہدات اور تجربات سے حاصل شدہ علم ہے سائنس میں کوئی نظریہ حتمی نہیں ہوتا اس کو دلائل کے ذریعے کوئی بھی جھٹلا سکتا ہے یہ حواس کا اور عقل کا استعمال کرکے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اللہ انسان کو خود باربار غوروفکر کی دعوت دیتا ہے جیسے سورہ روم کی آیت نمبر 8 اور سورہ الجاثیہ کی آیت نمبر 13 سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زمین وآسمان کی سب چیزیں اللہ نے بنائی ہی انسان کے لیے ہیں اس کو چاہیے کہ وہ غوروفکر کرے اور ان آثار سے جو اللہ کی توحید کا پتہ دیتے ہیں شکر ادا کرے۔
جہاں تک قدرتی علوم (Natural Science) کا تعلق ہے جو طبعی دنیا (Physical World) کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حواسی سائنس اور عقلی سائنس دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کیونکہ قدرتی علوم جیسے بیالوجی، کیمسٹری اور فزکس ہیں، یہ حواس اور عقل دونوں کی گرفت میں آتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان شروع دن سے کائنات کے رازوں پہ غوروفکر کررہا ہے اور ایجادات کرتا رہا ہے ایسا نہیں کہ صرف پچھلے دو تین سو سال میں ہی انسان نے ایجادات کیں ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی چین، انڈیا، عرب اور ایران کی تہذیبیں مادی ترقی میں دنیا کی رہنمائی کررہی تھیں۔
لیکن اگر آجکی سائنس کی بات کریں تو اسکی ساری بنیاد مسلمانوں نے رکھی۔ یورپین اپنی چھٹی صدی سے پہلے کی تاریخ پڑھ لیں تو انکو سقراط، افلاطون اور ارسطو کے پاس سوائے فلسفے کے کچھ نہیں ملے گا اگر کوئی سائنسی ذہن پیدا بھی ہوتا تھا تو وہ مذہبی تشدد کی نظر ہوجاتا تھا۔ اس لیے یورپ میں سائنس اس دور میں ترقی نہ کرسکی۔ چھٹی صدی کے بعد تو یورپین ویسے ہی ڈارک ایج میں چلے گئے تھے جبکہ یہی وہ دور تھا جب بغداد کا بیت الحکمت اور اندلس کی یونیورسٹیز میں جدید سائنسی علوم پہ تحقیق ہورہی تھی۔ اسلام نے ہی تو لوگوں کو یہ شعور دیا کہ زمین و آسمان تمہارے لیے بنائے ہیں ان کو مقدس خدا نہ بناو بلکہ ان پہ غوروفکر کرو۔ اس کے لیے مولانا وحید الدین کی "اسلام دور جدید کا خالق" کتاب پڑھ لیں تو ہم حقیقت کو سمجھ سکیں گے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ سولہویں صدی کے بعد یورپین کے ہاتھوں سائنسی ترقی کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی تو اسکی وجہ یہ نہیں کہ انسان نے زیادہ سوچنا کردیا تھا یا مذہب سے جان چھڑوا کر وہ زیادہ عقلیت پسند ہوگیا ہے بلکہ اسکی اور بہت ساری سیاسی اور معاشی وجوہات تھیں جو ہم آگے ذکر کریں گے۔
لیکن افسوس ہے ہمارے لبرل بھائیوں پہ، یورپ کی تیز رفتار ترقی نے انکی آنکھیں ایسی خیرہ کی ہیں وہ سب کچھ بھول کر اسی پہ آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئے ہیں خود کو لبرل تو کہتے ہیں مگر تاریخ کھول کر دیکھنے کے روادار نہیں کہ انکو اصل حقیقت کا پتہ چل سکے۔
اگر کسی مذہبی طبقے نے سائنس کے علوم پہ قدغن لگا رکھی تھی لوگوں کے سوچنے تک پہ پابندی لگا رکھی تھی تو بجائے مذہب کو تختہ مشق بنانے کہ چاہیئے تو یہ تھا کہ وجوہات تلاش کی جاتی اور ان کا منصفانہ حل نکالاجاتا، اگر مسلمانوں میں بھی کسی مذہبی طبقے نے سائنس کے میدان میں طبع آزمائی کی ہے تو کیا دلیل ہے کہ اسی کی بات کو حرف آخر مان لیا جائے۔ اللہ نے خود انسان کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ کائنات کے رازوں پہ غوروفکر کرے۔
اللہ تو اپنے وجود کی بھی دلیلیں دیتا ہے حالنکہ وہ ہر سوچ سے بالاتر ذات ہے۔ زبردستی نہیں بلکہ لاجک سے اپنا آپ منواتا ہے تو وہ کیسے مذہبی طبقے کو اجازت دے سکتا ہے کہ جاؤ زمین پہ جو بھی اپنی مرضی سے سوچے اسے سولی پہ لٹکا دو۔
ابھی تک ہم نے قدرتی علوم بارے سمجھا تھا جس کو مادی دنیا بھی کہہ سکتے ہیں۔
جبکہ سماجی علوم یعنی معاشرتی، معاشی اور سیاسی علوم جن کو Social Sciences بھی کہتے ہیں۔ اردو ادب کی زبان میں آپ اسے تہذیب و تمدن بھی کہہ سکتے ہیں جو مادی دنیا کو اخلاقی شکل دیتے ہیں۔ یہ علوم صرف عقلی سائنس کے ذریعے بجا طور پہ ثابت کیا جاسکتے ہیں۔ حواس کی پہنچ سے یہ علوم باہر ہیں یہیں سے یورپی فلاسفرز نے ٹھوکر کھائی اگر وہ حواسی سائنس کو قدرتی علوم تک محدود رکھتے تو شاید کچھ بچ بچاؤ ہوجاتا۔ لیکن انہوں نے سماجی علوم کو بھی حواس کے دائرے تک محدود کردیا۔ یہیں انسان کا ازلی دشمن شیطان بھی اس کو گمراہ کرنے آگیا اور انسان اسکی چالوں میں پھنس گیا۔
قدرتی علوم یعنی فزکس، کیمسٹری یا بیالوجی تو کسی قوم کے مادی حالات کو بہتر کرسکتے ہیں جبکہ انسان کی اصل تو تہذیب و تمدن ہے اگر تہذیب ہی ٹھیک نہیں ہوگی تو ان مادی وسائل سے بھی فساد ہی پیدا ہوگا۔ ایک ایسی تہذیب پیدا ہوگی جہاں ایک طاقتور گروہ باقی گروہوں کو مغلوب کرکے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دے گا۔
پوری انسانی تاریخ گواہ ہے۔ جب بھی انسانوں نے اپنی مرضی سے سیاسی اور معاشرتی نظام ترتیب دیا کسی نہ کسی کے استحصال پہ ہی کیا آج تک کوئی ایسا نظام نہیں بنا پائے جس میں ہر انسان کا بھلا ہو کوئی کسی کا استحصال نہ کرے۔ اسلیے اللہ کو اپنے انبیاء کرام بھیجنے پڑے تاکہ کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے کوئی حجت نہ پیش کرسکیں۔
عقلی سائنس حواس سے آگے جب پرواز کرتی ہے تو کائنات کے خالق کی تلاش کرتی ہے اور زندگی کے مقصد پہ تحقیق کرتی ہے تو ضرور بالضرور علم وحی کے دروازے پہ دستک دیتی ہے اس لیے اسلام کو عقلی سائنس کے ذریعے بجا طور پہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اسلام ایک ایسی عالمی تحریک ہے جو ایک ایسی تہذیب و تمدن قائم کرنا چاہتا ہے جہاں کوئی کسی کو ذہنی، جسمانی یا معاشی طور پہ غلام نہ بنائے ہر انسان آزاد ہو۔ ان سب کا صرف ایک مالک ہو اللہ۔ سب اسی کے سامنے جھکیں۔
یہاں بھی یہ سمجھ لیں کہ ہر انسان کے خمیر میں ہے۔ وہ اپنی بڑائی چاہتا ہے وہ دنیا میں اپنا رعب دبدبہ چاہتا ہے اور اپنے سے کمزور انسانوں کو مطیع کرلیتا ہے اور وہ انسان اس لیے طاقتور کی غلامی اختیار کرلیتے ہیں کہ انکی معاشی اور معاشرتی ضروریات اس سے جڑ جاتی ہیں۔ اگر کسی شخص کا یقین ہے کہ میرا سب کچھ اللہ ہے۔ میں بھی بادشاہ کی طرح کا انسان ہو ہاں اسکو کچھ اختیارات اللہ نے زیادہ دیے ہیں۔ لیکن ہیں تو ہم سب اسی کے بندے، میں اس کی غلامی کیوں اختیار کروں یہ زیادہ سے زیادہ میرا کیا بگاڑ سکتا ہے، مار ہی سکتا ہے تو مار دے، میں اس دنیا سے نکل کر اپنے رب کی اگلی دنیا میں منتقل ہوجاوں گا بلکہ اس دنیا کے عذاب سے بھی نجات پا جاوں گا بتائیے کیا ایسے عقیدے والوں کو کوئی اپنا غلام بنا سکتا ہے۔
اس لیے اللہ فرماتا جب تم صرف مجھے اپنا آقا مان لوگے تو پھر دنیا میں تم ہر غلامی سے آزاد ہوجاو گے۔ حوالے کے لیے صرف مندرجہ ذیل آیت پڑھ لیں تو سمجھ آجائے گی
"اللہ ایک مثال دیتا ہے، ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں ۞(الزمر 29)"
اس لیے اپنی تہذیب کو اللہ کے احکام کے تابع کرلیا جائے تو پھر جتنا مرضی غوروفکر کرو اسلام مخالفت تو دور تمہاری سپورٹ میں ہر حد تک جائے گا
جی ہاں اسلام ہی واحد آواز ہے جو انسانی غلامی کو کسی شکل میں بھی برداشت نہیں کرسکتا، وہ انسانی حقوق بارے بہت حساس ہے۔
اسلام ہر معاملے میں اپنی حدود پیش کرتا ہے اس میں رہ کر آپ جتنا مرضی غوروفکر کرو ایجاد کرو دریافت کرو۔
اب کیونکہ زمین پہ عصر حاضر میں حواسی سائنس کا غلبہ ہے۔ جہاں جسمانی لذتوں کا پرچار ہے۔ جہاں آنکھوں کی تسکین کے لیے اربوں ڈالرز کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری، پورن انڈسٹری موجود ہے۔ کانوں کی تسکین کے لیے میوزک انڈسٹری موجود ہے۔ پھر فیشن، کاسمیٹکس کی انڈسٹری پھر اسی حواسی سائنس کی کوکھ سے سرمایہ دارنہ نظام جنم لے چکا ہے۔ جس کا مقصد صرف منافع کمانا ہے۔ منافع کمانے کے لیے آپکو مارکیٹ میں زندہ رہنا ہے اور زندہ رہنے کے لیے سرمایہ دار نت نئی ایجادات کرکے اپنی پراڈکٹ کو اپڈیٹ کرتا رہتا ہے۔ جیسے اگر سام سنگ مارکیٹ میں موبائل کا کوئی ایسا فیچر متعارف کروا دیتا ہے جو ایپل موبائل میں نہیں تو ایپل کی کوشش ہوگی کہ میں اس سے بھی بہتر فیچر متعارف کرواؤں ورنہ میں مارکیٹ سے آوٹ ہوجاوں گا۔
اس آگے سے آگے بڑھنے کی دوڑ نے جدید دنیا کی بنیاد رکھ دی ہے۔ جس سے آج ہمارے مسلمان بھی متاثر نظر آتے ہیں اگر سماجیات میں دیکھیں تو رشتے کی بنیاد بھی نفع نقصان پہ ہے، دوستی رشتہ اسی کے ساتھ جس سے کسی نفع کی امید ہو، اسی تعلیم کے پیچھے بھاگم بھاگ ہے جس سے پیسہ کمایا جاسکے، اس لیے حواسی سائنس جانتی ہے۔ اگر عقلی سائنس کو کھلا چھوڑ دیا گیا تو یہ علم وحی کی کمک لے کر آجائے گی اور حواس کی لذتوں پہ پابندیاں لگائے گی۔ یہ فحاشی عریانی کے سارے راستے بند کرے گی۔ یہ سود کے خلاف کھڑی ہوجائے گی۔ عقلی سائنس جب معاشرتی، سیاسی اور معاشی نظام میں حدود نافذ کرے گی تو وہ لوگ جن کے مفادات حواسی سائنس سے جڑے ہیں جن کے اربوں ڈالر کے کاروبار اس سے جڑے ہیں وہ سب تباہ ہوجائیں گے اس لیے وہ ہر ممکن عقلی سائنس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرے گی۔
آج ہمارا پانچواں کالم ختم ہوا، یہاں تک ہم نے سمجھا کیسے یورپ عقیدے اور سائنس دونوں میں ہی عقلیت پسند (Rational) نہیں ہے بلکہ حواس کی حوس پرستی کا شکار ہے۔ مذہب اور بادشاہت کی غلامی سے آزاد تو ہوچکا ہے مگر نفس پرستی کی غلامی میں پھنس چکا ہے اب نفس کی لذتوں کو پورا کرنے کے لیے سرپٹ بھاگ رہا ہے کیونکہ نفس کی تسکین مادی دنیا (Material World) میں ہوتی ہے اس لیے مادی دنیا میں ترقی ہورہی ہے۔ یورپ کے نزدیک وہ ترقی کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے آگے End of Civilizaion ہے۔ جبکہ میں مسلمانوں کو بتانا چاہتا ہوں یورپ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے انکی ساری بنیاد، عقل(Rationality) پہ نہیں بلکہ، پانچ حواس پہ کھڑی ہے انکے امام یہی حواس ہیں۔
مسلمانوں! سوچو اگر یورپ مادی دنیا میں اتنی ترقی کرسکتا ہے تو تم عملی طور پہ حقیقت میں عقل کو امام بنا کر کیا کچھ کرسکتے ہو اسکا دنیا کو ابھی اندازہ نہیں اٹھو! کمر کسو! آؤ! دنیا کو وہ نظام دیں۔ جو نہ صرف مادی دنیا میں اپنے جھںڈے گاڑھے بلکہ تہذیب و تمدن میں بھی نئی روح پھونکے اور دنیا یہ کہنے پہ مجبور ہوجائے کہ اکیسویں صدی تک ہم ڈارک ایج میں تھے ہمیں اسلام نے روشنی کی راہ پہ کھڑا کیا ہے۔