Friday, 01 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Akram
  4. Jab Esaiyat Ko Iqtidar Milla

Jab Esaiyat Ko Iqtidar Milla

جب عیسائیت کو اقتدار ملا

جب دین کے داعی کے ساتھ دولت اور اختیار شامل ہوجاتا ہے تو دین اپنی روح میں اس سے رخصت ہوجاتا ہے۔ معذرت کے ساتھ مولانا طارق جمیل ہو یا طاہر القادری، مولانا فضل الرحمن ہو یا مولانا الیاس قادری یہ دین کے داعی ہیں مگر انکے پاس بہت زیادہ پیسہ بھی ہے۔ پیسہ چاہے حلال ہو، مگر مال ایک ایسا فتنہ ہے جس کے ساتھ دین چل ہی نہیں سکتا۔ نبی کریمﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ میری امت کا فتنہ مال ہے۔ دولت تو ہر دور میں پرکشش رہی ہے مگر دور جدید میں دولت نے جس طرح اپنا رنگ بدلا اور دنیا مادیت کے آگے سجدہ ریز ہوئی ہے حضور کا فرمان حرف بہ حرف سچ ثابت ہوچکا ہے۔ اس لیے دین آپ کو ایسے دولت کی ریل پیل میں چلنے والے علماء سےکبھی سمجھ نہیں آسکتا چاہے یہ آپکو قرآن سنائیں یا حدیث۔

شیطان نے اللہ کے سامنے کہا تھا میں افضل ہوں اور یہ آدم مجھ سے کمتر۔ یہی تفریق انسانوں میں پیدا کرنا اسکا مشن ہے۔ دین اسلام کا قانون سب انسانوں کے لیے ہے لیکن جیسے ہی دولت کا بہاو ایک طرف بہنا شروع ہوتا ہے تو امیر غریب کی تفریق پیدا ہوجاتی ہے۔ امیر دولت سے اختیارات خریدتا ہے اور غریب کا استحصال کرتا ہے۔ عیسائیت کا آغاز بھی اسی طرح تھا۔ حضرت عیسیؑ کے شاگرد پوری دنیا میں آپکا پیغام لے کر پھیل گئے تھے۔ جس میں انکی تبلیغ کا بڑا حصہ اس وقت کی رومن ایمپائر کے مرکزی شہر روم، سکندریہ اور انطاکیہ تھے۔ تین سو سال تک عیسائیت کی تبلیغ رومن ایمپائر میں ہوتی رہی۔ امیروں کے ہاتھوں پسے ہوئے طبقات اس میں شامل ہوتے رہے۔ کیونکہ عیسائیت انسانوں میں آقا اور غلام کی تفریق ختم کرتی تھی۔ یہ اس دور کے غلاموں کے لیے بڑی بات تھی کہ وہ بھی اشرافیہ کے برابر حقوق رکھتے ہیں۔

رومن بادشاہوں کے کیونکہ اپنے خدا تھے جن کی پوجا پاٹ وہ کرتے تھے۔ اس لیے اس نئے مذہب کے پیروکاروں پہ بہت ظلم ڈھائے گئے۔ مگر عیسائیت کے داعی اپنی سچی لگن کے ساتھ باوجود مظالم کے، ڈٹے رہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف رومن بادشاہ کے عیسائی ہونے کے بعد اچانک سے عیسائیت یورپ میں پھیل گئی تھی وہ تاریخ سے ناواقف ہیں۔ رومن بادشاہ Constantine I نے جب عیسائیت قبول کی اس وقت یہ مذہب تین سو سال میں اچھا خاصا رومن ایمپائر میں پھیل چکا تھا اور رومی سلطنت جرمینک قبیلوں کے بار بار حملوں سے کمزور ہوتی جارہی تھی۔

دوسری طرف ایسا بھی نہیں تھا کہ Constantine I کے عیسائی ہونے کے فورا بعد سارے یورپ عیسائی ہوگیا تھا بلکہ اب اس مذہب کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہوگئی تھی۔ اب وہ آزادی سے سرکار کی مدد سے اس مذہب کی اور زیادہ تبلیغ کرسکتے تھے۔ مگر 395 میں رومن ایمائر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک ویسٹ رومن ایمپائر اور دوسری ایسٹ رومن ایمپائر یا جسے بازنطینی ایمپائر بھی کہا جاتا ہے۔

رومی سلطنت کے ٹوٹنے سے پہلے ہی عیسائیت میں بھی فرقے بننا شروع ہوگئے تھے Arianism، Orthodox اور Catholics ان سب کی وجہ تفرقہ حضرت عیسیؑ کی شخصیت تھی، کوئی حضرت عیسیؑ اور خدا کو ایک کہتا، کوئی فرق کرتا اور کوئی اختیارات کی حدیں بتاتا اس طرح حضرت عیسیؑ کو کیا مقام دیا جائے یہ عیسائیوں کے لیے معمہ ہی رہا۔ بازنطینی ایمپائر کیونکہ مضبوط تھی جرمینک قبیلوں کے حملوں سے بھی دور تھی اس کے علاوہ انکے لیے چائینہ انڈیا اور عربوں کے ساتھ تجارتی راستے بھی کھلے تھے۔ اس لیے بادشاہ مضبوط اور مذہبی طبقہ اسکی سرپرستی میں تھا اور دنیا پہ بازنطینی ایپمائر کا سکہ چلتا رہا تاآنکہ مسلمانوں نے آکر دنیا سے اسکی جڑیں اکھاڑ پھینکیں۔

مگر دوسری طرف ویسٹرن ایمپائر جس کا مرکز اٹلی تھا، جرمینک قبیلے جن میں Huns، Visigoths، Lombards، Ostrogoths، Burgandian، Franks اور Alamanni قابل ذکر ہیں، نے پئے درپئے حملے کرنا شروع کردیے اور ویسٹرن رومن ایمپائر 480 میں مکمل طور پہ ختم ہوگئی۔ آٹلی پہ Lombards کا قبضہ ہوگیا، آج جہاں سپین ہے یہاں Visigoth آگئے جن کو بعد میں مسمانوں نے مار بھگایا اور جہاں فرانس ہے یہاں جرمینک قبیلہ Franks آکہ بس گیا۔ یہ قبیلے کیونکہ مختلف دیوتاوں کے ماننے والے تھے اس لیے جب انکا عیسائیت سے تعارف ہوا۔ تو یہ عیسائیت تو قبول کررہے تھے مگر اپنا کلپچر بھی ساتھ رکھے ہوئے تھے جس سے ایک نیا کلچر جنم لینا شروع ہوگیا۔ اب جرمینک کیونکہ مقامی نہیں تھے اس لیے یہاں اپنی حکومت مضبوط کرنے کے لیے کسی مقامی طاقت سے اتحاد کرنا ضروری تھا تاکہ یہاں کہ باشندوں کو اپنی زیر تسلط رکھا جاسکے اور اس وقت چرچ کی عام لوگوں پہ پکڑ مضبوط تھی اس لیے جرمینک بادشاہوں نے چرچ سے بنا کہ رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔

509ء میں ایک بہت بڑے جرمینک قبیلے Franks کے بادشاہ Clovis I نے کیتھولک مذہب اختیار کیا اور چرچ کی مدد سے مغربی یورپ کہ بہت سارے علاقے پہ قابض ہوگیا۔ اس طرح حکومتی معاملات میں پوپ کی اجارہ داری بڑھنے لگی۔ یہاں تک کہ جب آٹھویں صدی میں Franks قبیلے کے Charlimagne نے سپین کے علاوہ باقی سارے مغربی یورپ کو اپنی سلطنت میں مضبوط کرلیا تو اسنے پوپ کو اٹلی میں بہت سارے رقبے کا مالک بنا دیا جسے Papal States کہا جاتا تھا۔

بدلے میں پوپ نے اسے Roman Emperor کا خطاب دیا حالنکہ اس خطاب کے اصل مالک بازنطینی ایمپائر کا بادشاہ ہوسکتا ہے وہ اصل میں رومن تھے Charlimagne تو جرمینک تھا۔ یہ ایمپائر نسل در چلتی رہی اور پوپ اور بادشاہ اپنے دائرے میں چلتے رہے۔ وہی بات مذہبی طبقہ اور بادشاہی ملکر عام عوام کا استحصال کرتے رہے۔ 11ویں صدی میں Franks قبیلے کی بادشاہت صرف فرانس تک محدود ہو کر رہ گئی جب کہ جرمنی اور اٹلی اور ملحقہ علاقوں پہ جرمن بادشاہ آگئے۔ جس کا آغاز Salian Dynasty سے ہوا جس کے بادشاہ ہنری چہارم نے پوپ کے اختیارات پہ قبضہ کرلیا اب پوپ اپنے طریقے اور اختیار سے سلطنت کے علاقوں میں پادری مقرر نہیں کرسکتا تھا۔ بلکہ یہ اختیار اب بادشاہ کے پاس تھا۔

یہاں سے پوپ اور بادشاہوں کا سیاسی جھگڑا شروع ہوتا ہے کہ یورپ میں آخری حکم کس کا مانا جائے گا۔ پوپ کہتا تھا حتمی حکم میرا ہو جبکہ بادشاہ کہتے تھے ہم کو خدا نے بادشاہ بنایا ہے۔ ہمیں تم سے ہر معاملے میں اجازت کی ضرورت نہیں یہاں سے وہ نام "Holy Roman Empire" استعمال ہونا شروع ہوا۔ حالنکہ نہ یہ Holy تھی کیونکہ اس میں مذہبی طبقہ صرف اقتدار کا حوس پرست تھا، نہ یہ Roman تھی کیونکہ بادشاہوں کا تعلق جرمن قبیلوں سے تھا اور نہ یہ کوئی Empire تھی بلکہ فیڈریشن تھی بہت سارے شہزادوں کی وہ جب چاہتے بغاوت کردیتے تھے۔

اقتدار کی یہ کشمکش چلتی رہی یہاں تک جرمنی کے تقریبا 1600 حصے ہوگئے جہاں ہر علاقے کا اپنا شہزادہ تھا جس کی اپنی فوج تھی لیکن پوپ نے کسی بادشاہ کو ٹک کر سلطنت نہ بنانے دی اور نہ صحیح طرح حکومت کرنے دی۔ یہ تو کیتھولک چرچ کا حال تھا مگر دوسری طرف بازنطینی ایمپائر میں آرتھوڈوکس چرچ تھا جس کا بادشاہوں کے ساتھ کوئی پھڈا نہیں تھا۔ ایسا نہیں کہ آرتھوڈوکس بہت نیک تھے، مذہب کو دکان انہوں نے بھی بنا رکھا تھا وہاں بھی دولت مند غریب کا استحصال کر رہا تھا مگر وہ دونوں اپنی اپنی حدود میں کام کرتے تھے۔

بحیرہ روم پہ کیونکہ مسلمانوں کا قبضہ تھا اسے لیے بازنطینی ایمپائر تو پھر بھی سلک روڈ کے راستے تجارت سے کچھ گزارا کررہی تھی۔ مگر Westorn Europe کا بیرونی دنیا سے رابطہ تقریبا ختم تھا اس لیے گزارا زمینی پیداوا سے ہی ہوتا تھا جو کہ محدود تھا۔ اس لیے ان محدود وسائل پہ بادشاہی اشرافیہ اور پوپ کی اشرافیہ کا قبضہ تھا۔ جس میں بادشاہ کے نوبل لارڈز اور انکے نیچے Kinghts or Vassal Lods ہوتے تھے جن کے نیچے پھر Manor اور انکے نیچے Serf یا Peasonts ہوتے تھے۔ دوسری طرف پوپ کی طرف سے آرچ بشپ، پھر بشپ اور پھر پادری ہوتے تھے۔ یہ پورا Feudal System کا ڈھانچہ تھا جس میں Serf اور Peasonts کے پاس کوئی زمین نہیں ہوتی تھی۔

Peasonts تو پھر بھی مرضی کے ساتھ کسی ایک لارڈ کو چھوڑ کر کوئی اور کام کرسکتے تھے کسی اور کی زمین پہ بھی کام کرسکتے تھے۔ مگر Serf بیچارے اپنے لارڈ کے ماتحت ہی ہوتے تھے وہ اپنے لارڈ کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتے تھے۔ اس طرح پیداوار میں محنت انکی ہوتی تھی مگر حصہ انکو اتنا ملتا تھا۔ جس میں یہ مشکل سے ہی اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ یہ یورپ کی آبادی کا 80 فیصد تھے۔ اس طرح عیسائیوں کا مذہبی طبقہ اقتدار کی راہ داریوں میں گم ہوچکا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ پوپ اور پادری یورپ میں فحاشی عریانی اور سود کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔ بلکہ ان اخلاقی اقدار پہ مذہبی طبقے کی بڑی زبردست پکڑ تھی۔ مگر دین کی اصل جو لوگوں آزادی تھی، وہ ختم ہوچکی تھی ایک ہی مذہب کے پیروکاروں میں امیر، غریب کا استحصال کررہا تھا۔

مذہبی طبقہ نہ صرف خاموش تھا بلکہ اس سسٹم کا سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والا بھی تھا۔ پوپ سب کا احتساب کرسکتا تھا مگر پوپ کا کوئی احتساب نہیں کرسکتا تھا۔ احتساب کیا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اگر پوپ اور اس کے حواری مال و دولت سے دور رہتے عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے۔ عام عوام کے حقوق کے لیے بادشاہوں سے لڑتے اور Papal State میں جہاں انکی ہی حکومت تھی وہاں لوگوں کے لیے نمونہ بن کے دکھاتے تو عام لوگ کیوں انکے خلاف ہوتے۔ شروع میں عیسائیت کو اشرافیہ نے نہیں بلکہ عام عوام نے قبول کیا تھا جو بادشاہوں کے زیر اثر غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے، یہی عام عوام ایک ہزار سال تک مذہبی طبقے کی آواز پہ لبیک کہتی رہی، جانیں دیتی رہی۔ بادشاہوں کے پاس تو فوج کی طاقت ہوتی تھی۔ پوپ کے پاس کون سی فوج تھی یہ عوام کا اعتقاد تھا جسے مذہبی طبقہ کیش کرتا رہا۔ عوام کو کہا گیا کہ دنیا میں سکون حاصل کرنا ہے تو خدا کی عبادت گاہوں میں جاو وہاں سکون ملے گا۔ خدا کی یاد میں ہی سکون ملے گا جبکہ خود ساری عیاشیاں کررہے تھے۔

Indulgence کا قانون ایک قانون قدرت ہے جس میں اگر کوئی شخص گناہ کرلیتا ہے تو اگر وہ سچے دل سے توبہ کرلے اور مستقبل میں اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو خدا کے حضور اسکی معافی کی امید کی جاسکتی ہے۔ مگر پوپ نے اس کو بھی خراب کردیا۔ آپ گناہ کرو جو مرضی گند کرو اور آخر میں پوپ کی مقرر کردہ رقم اسکو دو اور معافی نامہ خرید لو آپ کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ معافی کوئی غریب تھوڑی خرید سکتا تھا جسکے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھی۔ یہ اشرافیہ کے لیے راستہ تھا جو دنیا میں بھی عیش میں جیتے تھے اور اگلی دنیا کے لیے بھی جنت خرید رہے تھے اور مذہبی طبقے کا کاروبار بھی بڑھا رہے تھے۔ بیچاری عوام پہ تو اتنی پابندیاں تھیں کہ وہ اپنی مرضی سے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ سائنس کا گلا گھونٹ رکھا تھا۔

فطرت میں ہونے والے کسی بھی واقعے کو خدا کا معجزہ قرار دے دیا جاتا اگر کوئی شخص اس پہ غور کرکے کوئی نتیجہ نکالنےکی کوشش کرتا تو اسے پھانسی چڑھا دیا جاتا۔ کتنے سائنس دان فطرت کے راز جاننے کی تگ و دو میں پوپ کے ہاتھوں جان سے گئے۔ بادشاہ اور شہزادے بھی پوپ کی ان پابندیوں سے جان چھڑانے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔ یہ یورپ کا سیاہ دور تھا جب بادشاہ اپنے اقتدار کے لیے جنگوں پہ جنگیں لڑ رہے تھے اور پوپ مذہب کے نام پر Crusades کروا رہا تھا مقصد دونوں کا اقتدار تھا۔ جرمن، اٹلی، برگنڈی فرانس، انگلیند، سپین، آسٹریا کے بادشاہ آپس میں لڑتے مرتےرہتے تھے۔ ہر بادشاہ کی موت کے بعد تخت کے لیے جنگیں شروع ہوجاتیں۔

آپ اندازہ لگائیں انگلینڈ اور فرانس نے صرف تخت کے وارث کے لیے ایک سو سال تک جنگ لڑی۔ ان جنگوں اور بیماریوں کی تباہ کارویوں سے یورپ کی آدھی آبادی مرگئی۔ یہ سیاہ دور جاری تھا کہ پندرہویں صدی میں بازنطینی ایمپائر میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ اسکے بعد یورپ پوری طرح اپنی جڑوں سے ہی بدل گیا۔ یورپ نے 180 ڈگری پہ دنیا کو گھما کر رکھ دیا یہ واقعہ کیا تھا اور اس واقعے سے کس نئے مذہب نے جنم لیا کیسے یورپ نے جس طرح دل و جان سے عیسائیت کو اپنے ہاں جگہ دی تھی۔ اسی بے دردی سے اسے اٹھا کر پھینک دیا۔ وہ دین، وہ مذہب اب پوری طاقت سے دنیا میں جڑیں پکڑتا جارہا ہے عام عوام اس کے لیے جانیں تک دے رہے ہیں۔ جسکو نہ صرف عیسائی بلکہ مسلمانوں سمیت دنیا کے سارے مذاہب اسے تسلیم کرتے جارہے ہیں۔ ہے نہ عجیب بات، پہلے! لوگ مذہب قبول کرتے تھے مگر آج مذہب، مذہب کو قبول کررہا ہے ان ساری باتوں پہ ہم آئیندہ قسط میں انشاء اللہ بات کریں گے۔

Check Also

Oriental College Mein Aik Aalim Aadmi

By Hafiz Safwan