Thursday, 04 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Akram
  4. Islam Aik Badshahi Nizam Hai?

Islam Aik Badshahi Nizam Hai?

اسلام ایک بادشاہی نظام ہے؟

زمین پہ انسان کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے اجتماعی نظام کی حفاظت کرنا ہے۔ اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھی بادشاہی نظام کو سپورٹ کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی نظام ہو وہ میرے لیے اچھا ہوسکتا ہے۔ مگر کسی اور کے لیے وہ وبال جان بھی ہوسکتا ہے۔ جس میں اس کے لیے اپنی زندگی گزارنی بھی مشکل ہوجائے۔

دیکھیں نظام ایک فکر پہ کھڑا ہوتا ہے اور فکر لوگ پیدا کرتے ہیں۔ جب لوگ ہی اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے لاعلم ہوجائیں تو بتائیے کیا کوئی نظام ٹھیک چل سکتا ہے۔

ہر نظام میں لوگوں کو اپنے انفرادی حقوق کی حفاظت کے لیے ایک اجتماعی نظام ترتیب دینا پڑتا ہے اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ جب یورپ نے پاپائیت کے اجتماعی نظام کو اکھاڑ پھینکا تو انفرادی زندگی کے حامی تھے۔ وہ دوبارہ کوئی اجتماعی نظام نہیں چاہتے تھے۔ جہاں کوئی حکومت عام لوگوں کا استحصال کرے مگر بھی چاروناچار انہیں مرکزی حکومت کا نظام بنانا پڑا۔ کیونک اجتماعی نظام ایک ماحول پیدا کرتا ہے جس میں لوگوں کو اپنی انفردی زندگی اپنے عقیدے کے مطابق گزارنا آسان ہوجاتا ہے۔

دیکھیں میں مثال دیتا ہوں فرض کریں کچھ لوگ اپنے معاشرے کی زندگی سے تنگ آچکے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ جن اصولوں پہ ہم زندگی گزارنا چاہتے ہیں معاشرہ اسکی الٹی سمت میں ہمیں کھینچ رہا ہے اگر ہم نہیں، تو عنقریب ہمارے بچے انکے شکار بن جائیں گے اور ہمارا عقیدہ چاہے جو بھی ہے مگر وہ زمین سے ناپید ہوجائے گا جبکہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اسکا عقیدہ، اسکی ہی فکر دنیا میں پھلے پھولے اور پروان چڑھے۔ کیونکہ ان عقائید کے ساتھ ان لوگوں کے مفادات جڑے ہوتے ہیں۔

ہوتا کیا ہے یہ چند لوگ کسی جگہ اکھٹے ہوکر طے کرتے ہیں کہ ہم اپنا الگ نظام بنائیں گے۔ جو ہمارے متفقہ اصولوں کے مطابق ترتیب دے کر عمل میں لایا جائے گا اور انکی خلاف ورزی پہ جو بھی سزا مقرر ہو وہ دی جائے۔ اور اپنے آپکو باقی معاشرے کے اثرات سے بچایا جائے گا۔ کیونکہ اب یہ ناگزیر ہے معاشرے کے باقی لوگ اس نئی تحریک سے متاثر نہ ہوں۔ اگر اس نوزائیدہ سوسائیٹی نے طے کرلیا ہے کہ وہاں کے لوگ اب فلمیں ڈرامے نہیں دیکھیں گے تو جس بندے کا کاروبار ہی فلمیں بنانا ہے تو آپ کیا سوچتے ہیں وہ آرام سے بیٹھا رہے گا۔

اگر وہ سود کا کام نہیں کریں گے تو جس کا سار کام ہی سود پہ تھا وہ تو مر جائے گا۔ اس نوزائیدہ سوسائیٹی کے اصول جن جن لوگوں کے مفادات پہ ضربیں لگائیں گے وہ طبقات ہر ہتھکنڈہ اپنائیں گے اسے نیست و نابود کرنے کا۔ اب مجھے بتائیں کیا نوزائیدہ سوسائیٹی کے لوگ ان باتوں سے ناواقف ہوں گے؟ بالکل نہیں۔ تو کیا اب یہ سارے اشخاص بندوق اٹھا کہ چوبیس گھنٹے گشت کرتےرہیں گے۔

اگرسارے ہی بندوقیں اٹھا لیں گے تو انکی معاشی زندگی کا کیا بنے انکے کھانے پینے کا انتظام کون کرے گا انکے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کس نے کرنی، بچوں کی تعلیم کا کیا بنے گا۔ اس لیے فطری طور پہ لوگ سوچیں گے کہ ہم مرکزی کمیٹی یا حکومت بنا دیتے ہیں ان لوگوں کی جو ہماری نظر میں اتنے سمجھ دار ہیں کہ وہ اجتماعی نظام اچھا چلاسکتے ہیں۔ اوراس کمیٹی کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہمارے متفقہ اصولوں پہ عمل درآمد کروائے اور باہر سے آنے والے ہر خطرے سے باخبر رہے اور ہماری فکر آگے بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ ہماری طاقت بڑھے۔ اور ہم سارے لوگ اس کمیٹی پہ نظر رکھیں گے کہ آیا یہ ٹھیک کام کر بھی رہے ہیں یا ہمارے پیسوں پہ بجائے ذمہ داری ادا کرنے کے عیاشیاں شروع کردی ہیں۔ اب اگر اس کمیٹی میں کوئی ایک شخص سارے اختیارات اپنے پاس رکھنا شروع کردے۔ ہر فیصلے میں اپنی من مرضی کرنا شروع کردے تو کمیٹی کے باقی لوگ کیا کریں گے۔

ظاہر ہے وہ عوام کو دہائی دیں گے کہ دیکھو یہ شخص تمہاری بنائی ہوئی کمیٹی پہ حاوی ہوگیا ہے۔ اس نے کمیٹی کے ارکان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ طاقت ساری اپنے پاس اکٹھی کرلی ہے۔ آو ہم سب ملکر اس کو کمیٹی سے ہٹائیں اور دوبارہ سے وہ اجتماعی نظام بنائیں جو مشورے کے ساتھ معاملات چلائے۔ دوسری طرف وہ شخص بھی اتنا بے وقوف تو نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اصول جن پہ کمیٹی بنی لوگ اس پہ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ بلکہ بہت سارے اصولوں کو تو وہ خود بھی ٹھیک مانتا ہے۔ جبھی تو سوسائیٹی کا رکن بنا تھا۔

اس لیے سوائے چند ایک باغیوں کے لوگوں کی اکثریت دیکھتی ہے کہ طاقت اس کے پاس ہے اب اسے ہٹانے کے لیے لازمی خون بہانا پڑے گا لڑنا پڑے گا۔ تو اگر ہمارے اصولوں سے انحراف نہیں کر رہا اور خود بھی انہی اصولوں پہ کاربند ہے تو کیا ضرورت ہے خون خرابہ کرنے کی۔ یہ آغاز ہوتا ہے کسی قوم میں بادشاہت کے آغاز کا۔ جب قوم خود ہی اپنے حق سے دستبردار ہوجاتی ہے۔ پہلے حکومتی اسٹیبلشمنٹ کی جو طاقت لوگوں کے پاس تھی اب وہ ایک شخص کے ہاتھوں میں جاچکی ہوتی ہے۔ پہلے وہ کمیٹی سے پوچھ سکتے تھے کہ ہم نے تمہیں پیسے دیے تھے بتاو کہاں خرچ کیے۔ بتاو تم نے فلاں کام کیوں کیا جبکہ وہ ہمارے اصولوں کے خلاف تھا۔ اگر کمیٹی کے باقی ممبران میں سے کوئی غلط کرتا، تو لوگ اسے انصاف کی عدالت میں محاسبہ کرواسکتے تھے۔ اور جرم ثابت ہونے پہ سزا بھی دلوا سکتے تھے۔ مگر اب وہ اس شخص سے یہ مطالبات نہیں کرسکتے۔ اب یہ حکومت اسکی وراثت ہے جو وہ اپنے بچوں کو منتقل کرے گا۔

ہوسکتا ہے اسکا بیٹا کچھ اصولوں کو نہ مانتا ہو تو چاروناچار لوگوں کو اس پہ اکتفا کرنا پڑے گا کہ چلو باقی کچھ اصول تو مانتا ہے کیونکہ طاقت اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس طرح وہ نظام اپنی روح میں ختم ہوجاتا ہے اب اسے وہ فائدے نہیں مل سکتے جو اسکے سارے اصولوں کے ساتھ مل سکتے تھے۔ تاریخ میں اسلام اور جمہوریت دو بڑے نظام فکر تھے۔ ان دونوں نظاموں کے ساتھ اسی طرح ہیرا پھیری کی گئی ہے۔ اسلام بادشاہوں کے ہاتھ کھلونا بنا جبکہ جمہوریت سرمایہ دار کے گھر کی لونڈی بن گئی۔ لوگ کہتے ہیں دنیا میں اسلام کا نظام کہیں بھی نہیں ہے میں کہتا ہوں آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن دنیا میں جمہوریت کا نظام بھی تو کہیں پوری طرح نافذ نہیں۔ جو لوگ جمہوریت اور اسلام کو ملانا چاہتے ہیں وہ حقیقت سے بے خبر ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جمہوریت ایک دین ہے جیسے اسلام ایک دین ہے۔ اسلیے ایک آئے گا تو دوسرے کی رخصتی یقینی بلاشک وشبہ۔

ابھی اس پہ ہم آگے دلائل سے بات کریں گے۔ ابھی تو یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام بادشاہی نظام کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ موضوع کی طرف آتے ہیں تو اسلام میں نظام فکرکے سارے اصول انبیاء کرام کی تعلیمات کی روشنی میں ترتیب پاتے ہیں۔ اصول حکمرانی میں قرآن کا واضح اصول ہے "(مومنین) اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں"(الشوری، 38)۔

اس لیے نبی کریمﷺ کی پرنور ہدایت کی روشنی میں جب اسلام کا نظام ترتیب دیا گیا تو حکومت کے لیے افراد باہمی مشاورت سے منتخب ہوئے تھے۔ جن پہ مسلمانوں کو مکمل اعتماد تھا اور انکا احتساب بھی کیا جاسکتا تھا بلکہ حکومت لوگوں کو خود اس امر کے لیے حوصلہ افزائی کرتی تھی کہ اپنے سیاسی حق بارے جاگتے رہنا اس سے غافل نہ ہونا۔ اس بارے حضرت ابوبکرؓ کا خطبہ ہمارے لیے رہنما ہے جب آپ خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ نے فرمایا "لوگو! میں تمہاراامیرمقررکیاگیاہوں، حالانکہ میں تم سے افضل نہیں ہوں۔ اگرمیں اچھے کام کروں توتم میری مددکرنا، غلطی کروں تواصلاح کرنا۔

سچ امانت ہے، جبکہ جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں سے جوشخص کمزورہے، وہ میرے نزدیک طاقتورہے جب تک میں اسے اس کاحق نہ دلادوں۔ اورتم میں سے جوکوئی طاقتورہے، میرے نزدیک وہ کمزورہے، تاوقتیکہ میں اس سے حقدارکاحق وصول نہ کرلوں۔ تم میری اطاعت کروجب تک میں اللہ اوراس کے رسول ﷺکی اطاعت کروں۔ اور اگرمجھ سے کوئی ایساعمل سرزدہوجس میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کاپہلونکلتاہو، توتم پرمیری اطاعت واجب نہیں ہوگی۔ اللہ تم پررحم فرمائے"۔

لیکن خلیفہ برحق حضرت عثمانؓ کے بعد مولا علیؓ جب خلیفہ منتخب ہوگئے تو اس وقت جو مسلمانوں میں جنگیں ہوئیں۔ افسوس ہے مسلمان یکسوئی کے ساتھ اپنے سیاسی حق کو استعمال نہ کرسکے اور خلیفہ برحق مولا علیؓ کی شہادت ہوگئی اور اسکے بعد حضرت امیر معاویہؓ کی حکومت آگئی۔ تو باوجود اسکے کہ آپ نے اسلام کے اصولوں کو کافی حد تک نافذ کیا اور مسلمانوں کو حکومت کو بھی مضبوط کیا۔

مگر آج تک مسلمانوں نے آپکو خلیفہ تسلیم نہیں کیونکہ آپ مشاورت کے قانون سے نہیں بلکہ طاقت سے اقتدار میں آئے تھے۔ (آپ کی پہچان ایک صحابی رسول کی ہے ہم آپ کے کسی ذاتی فعل بارے بات کرنا انتہائی نامناسب سمجھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے مگر اسلام کے سیاسی نظام کو سمجھنے کے لیے ہم ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے ضرور لب کشائی کریں گے)۔ اسلام کا سیاسی نظام اب آپ کے ہاتھ میں آچکا تھا لوگ اب آزادانہ آپکا احتساب نہیں کرسکتے تھے اس کے بعد جو آپ سے بڑی غلطی ہوئی یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے آپ نے ثابت کیا کہ اسلام کی حکومت آپکی وراثت تھی جو آپ نے اپنے بیٹے کو منتقل کی۔

اگر حضرت امیر معاویہؓ اپنی دوربین نگاہوں سے دیکھ لیتے کہ مسلمانوں کے سیاسی نظام کو وراثت بناکر منتقل کرنے کے کیا تباہ کن اثرات ہوسکتے ہیں۔ تو یقین ہے کہ وہ یہ جانشینی کبھی نہ کرتے مگر ہماری بدقسمتی یزید خلیفہ بن گیا۔ جس کے خلاف حضرت امام حسینؓ کو بغاوت کا علم بلند کرنا پڑا۔ اب کچھ لوگ یہاں حصرت امام حسینؓ کی بغاوت وجہ یہ بتاتے پیں کہ یزید شرابی کبابی تھا اور بھی اخلاقی حدود سے گزرا ہوا تھا اس لیے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے طور پہ قبول نہیں تھا یعنی اگر یزید اچھا انسان ہوتا تو حضرت امام حسینؓ کو قبول ہوتا۔

دوسری طرف آج بھی یزید کے حامی کہتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ کی جنگ ایک شہزادے کی تخت کے لیے جنگ تھی۔ یہ بنو ہاشم کی بنو امیہ سے پرانی دشمنی تھی۔ لیکن یاد رکھیں کوئی بھی نظام کسی ایک برے شخص کے آجانے سے ٹوٹ نہیں جاتا۔ حقیقت یہ تھی کہ نبی کے نواسے کو کسی سے ذاتی بغض نہیں تھا۔ بنوامیہ کی طرف سے تو ذاتی دشمنی ہوسکتی تھی۔ مگر اہلیبیت کی ساری تگ و دو اسلام کی شہادت کے لیے تھی۔ یزید ہو یا کوئی اور وہ کسی سے ذاتی بغض نہیں رکھتےتھے انکی تربیت ہی ایسی نہیں تھی۔

مسلمان چاہئے اپنے سیاسی حق سے دستبرار ہورہے تھے مگر وہ شخص جس کے نانا نبی کریمﷺ ہوں، ماں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جنت کی عورتوں کی سردار ہو اور بابا مولا علیؑ ہو۔ جس نے کائنات کی ان تین عظیم ترین ہستیوں کی گود میں پرورش پائی ہو اسکی دوربین نگاہیں آنے والے طوفان کی تباہی دیکھ رہی تھی وہ دھوکہ نہیں کھا سکتی تھی۔ آپ دیکھ رہے تھے کہ اگر اب خاموشی اختیار کرلی تو پھر لوگوں کو دوبارہ کبھی آزادی کا خواب نہیں آئے لوگ اسی بادشاہی نظام میں جکڑے رہ جائیں گے وہ اسے ہی ٹھیک سمجھیں گے۔ جو آہستہ آہستہ اسلام کے اجتماعی نور کو کھا جائے گا۔ اور آپ دیکھ لیں مسلمانوں میں بادشاہی نظام پھر ایسا آیا کہ دوبارہ کبھی اسلامی نظام اب تک نہیں آسکا۔

دنیا میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہوئیں خوب ترقی بھی ہوئی۔ مگر اسلام کا سیاسی نظام، وہ "امرھم شوری بینھم" کا نظام پھر نہ آسکا۔ یہ اسلام کی تاریخ میں حضرت امام حسین کی بغاوت ہی ہے کہ آج ہم سینہ تان کرکہتے ہیں۔ اسلام بادشاہی نظام کا کتنا مخالف ہے کہ ہمارے نبی کے نواسے نے اپنی جان تک دے دی۔ یہ آج آپکی بغاوت کی برکت کا نور ہے جو ہم تک پہنچا ہے۔ جو آج بھی ہمیں ہر طاغوت کا مقابلہ کرنے کے لیے رہنمائی دیتا ہے۔ اہلیبیت میں بغاوت صرف امام حسینؓ نے نہیں کی بلکہ آپکی اولاد میں سے بھی بغاوت کے علم بلند ہوتے رہے۔

علماء برحق نے بھی اس بادشاہی نظام کو صرف اس لیے قبول کیا کہ اب ظاہر ہے زمین پہ کوئی نظام تو ہونا چاہیئے ورنہ تو انارکی پھیل جائے گی۔ اس لیے باامر مجبوری ایسا نظام چلنا تو چاہیے لیکن ہر اس تحریک کا ساتھ دیا جو واقعی اخلاص کے ساتھ اسلام کا اصل نظام بحال کرنا چاہتی تھی۔ جیسے حضرت امام حسین کے پوتے حضرت زید بن علیؓ نے جب بنوامیہ کے خلاف بغاوت کی تب حضرت امام ابوحنیفہ نے آپ کی حمایت اور مالی مدد کی اور آپکی اس بغاوت کو حضور کے غزوہ بدر سے تشبیہ دی۔ اسی طرح جب حضرت امام حسن کے پڑپوتے حضرت محمد نفس ذکیہؓ نے عباسی خلیفہ المنصور کے خلاف بغاوت کی تب بھی حضرت امام ابوحنیفہ نے کھلم کھلا نفس ذکیہؓ کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ لوگوں میں بھی بغاوت کی تحریک پیدا کی۔

یہ ہے اسلام کی تاریخ اب اگر ہمارے لبرل بھائی دنیا پرست علماء کے افعال سے اسلام کو دیکھیں گے تو پھر تو یہ نری جہالت ہے۔ اسلام کو قرآن و حدیث اور خلفاء راشدین کے تاریخ سے سمجھیں اگر یہ نظام دنیا میں اب نہیں تو بجائے مسلمان ہوتے ہوئے اس پہ طعن و تشنیع کہ اخلاص کے ساتھ اس کے نفاذ کی جدوجہد کریں اور نتیجہ اللہ پہ چھوڑ دیں۔ کیونکہ مسلمان کبھی حق کے راستے میں ناکام نہیں ہوتا، اس کا منتہائے کامیابی یہ دنیا نہیں، بلکہ آخرت کی زندگی ہے۔

Check Also

Makafat e Amal

By Syed Atif Kazmi