Hegel Ka Falsafa Aur Islam
ہیگل کا فلسفہ اور اسلام
یہ میرا "بادشاہت، جمہوریت اور اسلام" کے نام سے سلسلہ وار کالموں میں پہلا کالم ہے۔ اس کو لکھنے کی وجہ ہے مسلمان امت کے تذبذب اور الجھن کا سیاسی حل نکالنے کی پرامید کوشش۔ بدقسمتی سے مسلمان اسلام کے نظام کو اپنے ایمان کا حصہ تو مانتے ہیں مگر زندگی وہ یورپ کے نظام کے تحت چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر موڑ پہ جا کہ اٹک جاتے ہیں۔ کوئی کمزور سے کمزور مسلمان چاہے جتنا بھی لبرل ہو اللہ اور رسول کی گستاخی کی جسارت بھی نہیں کرسکتا مگر جو شک و شبہات دین میں ڈال دیے گئے ہیں۔ جو یورپی تہذیب نے ہمارے پرخچے اڑائے ہیں۔
اس طور پہ اپنی جکڑ میں لے رکھا ہے کہ اب نہ چاہتے ہوئے بھی ہم عملی طور پہ اللہ اور اسکے رسول کی گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام، ہمارا معاشی نظام، ہمارا سیاسی نظام، ہمارا معاشرتی نظام یہاں تک کہ ہمارا مذہبی نظام بھی مکمل طور پہ انکے ہاتھ میں ہے جیسے چاہیں اس کو مروڑیں ہمیں خبر تک نہیں ہوتی پھر اس تروڑ مروڑ کو میڈیا کے ذریعے اس طرح خوشنما کرکے دکھاتے ہیں کہ جیسے ہمارا نقصان نہیں بلکہ ہمارا بھلا ہی کیا ہے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا میرے دوسال کے بیٹے کو اس کے ماموں نے ہلکا سا تھپڑ لگایا۔ اسنے رونے والا منہ بنالیا تو ماموں بولا یہ تو ماموں کا پیار تھا ماموں نے مارا تھوڑی نہ تھا۔ لوجی! اسکے ساتھ ہی میرا بیٹا خوش ہوگیا۔
یہ حال ہے ہمارا وہ مارتے ہیں ہمیں۔ لوٹتے ہیں مال ہمارا، سودی شکنجوں میں ہمیں جکڑتے ہیں، تہذیب و اخلاق ہمارے تباہ کرتے ہیں اور پھر ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ تو ہمارا پیار تھا تم لوگوں سے اور ہم خوش ہوکر پھر انکے پیچھے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ "حقیقت یہ ہے کہ اگلوں (یعنی گزری ہوئی نسل) کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اُس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں" (الشوری، 14)
یعنی ایک رسول جس نے اپنی زندگی میں امت کو ٹھیک راستے کی راہنمائی کردی جیسے طوفان نوح کے بعد حضرت نوحؑ کی قوم، عاد اور ثمود کی تباہی کے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کی قوم اور قریش مکہ کی مغلوبیت کے بعد حضرت محمدﷺ کی امت۔
تو ان امتوں کو کیونکہ نبیوں کی رفاقت نصیب ہوئی تھی اس لیے یہ اپنے عقیدہ میں بڑے صاف تھے کوئی شک و شبہ نہ تھا جسکی وجہ سے یہ دنیا میں ترقی کرتے گئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں نعمتوں کی فراونی کی وجہ سے گمراہی میں پڑ گئے اس دنیا پرستی کی وجہ سے اب ہوگا کیا؟ ایک طرف دنیا کی لذت ہے اور دوسری طرف دین کی حدود تو لامحالہ اب دین کی حدوں کو تھوڑا نرم کیا جائے گا مصلحت پرستی ایسی ہوگی کہ یہ حدیں وقت کے ساتھ ساتھ نرم ہوتی جائیں گی اور ایک وقت آئے گا دین اپنی اصلی شکل میں ہی گم ہوجائے گا اور اب نئی نسل میں کوئی سلیم الفطرت پیدا ہوگا بھی تو اسے وہ راستہ اسے وہ معاشرہ نہیں ملے گا۔ جو سیدھا حق کی منزل تک پہنچاتا ہو جگہ جگہ مذہب کے ٹھیکیدار نظر آئیں گے ہر ایک اپنی منطق کا مذہب بتائے گا نتیجہ وہی ہوگا تذبذب، الجھن اور شبہات کا جوہڑ کہ اب کس کی مانوں اور کس کی نہ مانوں۔
آج کا مسلمان اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس اللہ کے پیارے آخری نبیﷺ کا دین قرآن اور حدیث کی صورت میں محفوظ تو ہے لیکن بات پھر وہی جگہ جگہ مذہب کے ٹھیکیدار بیٹھے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی تشریح کرکے دین کی منطق بتاتا ہے جس کی وجہ سے آج بھی سلیم الفطرت لوگ جب آگے بڑھتے ہیں تو کسی مذہبی طبقے کے کسی گروہ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور پورے حق تک نہیں پہنچ پاتے۔
اللہ پاک انسان کو ہدایت حاصل کرنے کا بڑا خوبصورت اور کارگر طریقہ بتاتا ہے
"جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں" (الزمر، 18)
اسی آیت کو جب میں نے اپنی زندگی میں علم کے حصول کے لیے پیمانہ بنایا تو ہر ایک کی بات کو سنا، چاہے وہ مسلمانوں کے مذہبی گروہ سے ہو یا کافروں کی کسی بھی درجہ بندی میں۔ میں نے سب کو سنا اور پڑھا، جتنا پڑھ سکتا تھا پھر قرآن و حدیث کے ساتھ موازنہ کیا جس کی جو بات قرآن اور صحیح حدیث واضح مفہوم کے ساتھ ملتی تھی اسے لے لیا باقی چھوڑ دیا۔
جسکی وجہ سے اللہ کا شکر ہے کہ میں مسلمانوں کی فرقہ پرستی سے باہر نکل آیا اور صاف معلوم ہوگیا کہ میرا رب مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ اب یہ میرا عمل ہے، جتنا کرلوں۔ عمل میں ابھی کمزور ہوں اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے مولا کریم عمل کی توفیق دے اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے آمین
یہ کالموں کا سلسلہ بالخصوص پاکستان اور بالعموم پوری دنیا کے سیاسی نظام کا ایک جامع تصور پیش کرے گا۔ جس میں بغیر کسی لگی لپٹی کے دلائل کے ساتھ دنیا کے سیاسی نظاموں کا احاطہ کریں گے۔ تاکہ مسلمانوں اور خاص کر پاکستان جو میرا گھر ہے اس کے مسلمانوں کو پتہ تو چلے سیدھی راہ کیا ہے۔ جب راستہ معلوم ہوجائے گا تو ہر کوئی اپنی طاقت کے مطابق بھاگ بھی سکے گا۔
کیونکہ اس وقت دنیا کا علمی، فکری اور طاقت کا امام یورپ ہے تو ہم بات کا آغاز ادھر سے ہی کرتے ہیں۔
روسو نے کہا تھا کہ لوگ آزاد پیدا ہوئے ہیں مگر ہرجگہ وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں جان سکا کہ آخر وہ کیوں غلامی کی بیڑیوں میں جکڑے جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے ان کو آزاد تو ضرور کرنا چاہیئے مگر سوال پھر وہی کہ آخر جکڑے ہی کیوں جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کے ساتھ ایک شیطانی طاقت بھی ہے جو اسکا سب سے بڑا دشمن ہے اس کی بنائی خوشمنا چالوں میں آجاتا ہے اور جب سیدھی راہ سے بھٹکتا ہے تو غلامی کی بےشمار بیڑیوں میں جکڑا جاتا ہے اسلام پھر اسکا حل بھی دیتا ہے قرآن و سنت میں انبیاء کے اسوہ حسنہ کے ذریعے۔
ہیگل جس کے مطابق کائنات میں چیزوں کا وجود کسی خاص روح (spirit) سے پیدا ہوا ہے وہ جب تاریخ کا فلسفہ پیش کرتا ہے تو اس کے مطابق تاریخ گویا ایک زندہ جسمانی نظام کی طرح ہے جس میں انسانی تاریخ کے آغاز سے ایک تہذیب اٹھتی ہے جس کا اپنا معاشی، سیاسی، معاشرتی مکمل ںظام ہوتا ہے اور وہ تہذیب ترقی کرتی جاتی ہے لیکن ایک وقت آتا ہے جب وہ تہذیب اپنی ترقی کی انتہا تک پہچ جاتی ہے تو اس کے اندر سے ہی کچھ لوگ اس کے مخالف نکل آتے ہیں جن کے اپنے نظریات اور اپنی فکر ہوتی ہے اور پھر دونوں میں کشمکش شروع ہوجاتی ہے آخر پھر اس نئے اور پرانے افکار کے امتزاج سے ایک نئی تہذیب جنم لیتی ہے پھر اس کے عروج کی انتہا آتی ہے تو پھر وہی قدیم جدید کا جھگڑا شروع ہوجاتا ہے پھر کچھ قدیم نظریات اور کچھ جدید نظریات کا مرکب بنتا ہے اور دنیا کا نظام چل پڑتا ہے اس طرح دنیا ترقی کی طرف بڑھتی جارہی ہے اس عمل ارتقا کو وہ dialectic process کہتا ہے یعنی ہر دعوی(thesis)کا ایک جواب دعوی (anti thesis) ہوتا ہے جس سے پھر مرکب (synthesis) پیدا ہوتا ہے
لیکن یہ نہیں جان سکا کہ آخر دعوی کے مقابلے میں جواب دعوی آتا ہی کیوں ہے
جواب پھر وہی کہ جب خدا کا صحیح تعارف ہی نہیں، جب آخرت میں حساب کا علم ہی نہیں جب شیطان کی چالوں کو مذہبی دنیا کا وہم سمجھا جائے گا تو ایسے ہی نظریات کا پرچار ہوگا۔
دوسرا ہیگل کا فلسفہ اگر کوئی مسلمان مان لے تو اس کے مطابق تو حضور کے زمانے میں جو قدیم اور جدید کی کشمکش شروع ہوئی تھی اور اس سے جو نیا نظام جاری ہوا تھا اس نے ایک ہزار سال تک توخوب ترقی کی مگر اب وہ اپنی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ اب وہ پرانا ہوگیا ہے اب اس پرانے نظام کا جواب دعوی(Anti Thesis) آگیا ہے اور اب نئے اور پرانےنظام میں کشمکش ہوگی پھر اسکا مرکب نظام بنے گا جو اگے چلے گا تو بتائیں وہ مسلمانوں کو دقیانوس کہیں گے کہ نہیں کہیں گے۔ جو اسی پرانے نظام سے چمٹے ہوئے ہیں جو وہی نظام لانا چاہتے ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے مدینہ میں قائم ہوا تھا جو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مبارک نظام تھا۔ جدت پسندوں کے مطابق حضور کوئی نیا نظام لائے تھے۔ جو اب ختم ہوچکا اب اس سے کچھ کام کی باتیں تو لی جاسکتی ہیں مگر کلی طور پہ قبول کرنا فضول ہے۔
جبکہ قرآن کے مطابق حضرت آدم سے لے کر حضور تک دین اسلام صرف ایک ہی ہے وہ نہ کبھی پرانا ہوا اور نہ کبھی نیا۔ اسکے اصول اٹل ہیں وہ آج بھی اسی طرح جدید ہیں جس طرح آج سے لاکھوں سال پہلے تھے۔ انسان سمجھتا ہے جیسے انسان مادیت میں آگے سے آگے بڑھ رہا ہے اسی طرح تہذیب میں بھی بڑھنا چاہیے۔ مجھے بتائیے کیا سودی نظام سے کبھی خیر نکل سکتی ہے چاہے لاکھوں سال بعد ہی کیوں نہ جاری ہو۔ کیا لاکھوں سال بعد بھی زنا سے کوئی خیر نکل سکتی ہے۔ اس لیے مادیت میں قدرتی علوم ترقی ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہیئے مگر سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کے اصول نہیں بدل سکتے۔
اللہ پاک فرماتا ہے۔
اِنَّ الدِّيۡنَ عِنۡدَ اللہِ الۡاِسۡلَامُ ۗ وَمَا اخۡتَلَفَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡيًا ۢ بَيۡنَهُمۡؕ وَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِاٰيٰتِ اللہِ فَاِنَّ اللہَ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ ۞
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے ۞(العمران 19)
اگلے کالم میں انشاء اللہ ہم کارل مارکس پہ تبصرہ کریں گے۔