Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Akram
  4. Europe Walo, Aqal Ko Azaad Karo

Europe Walo, Aqal Ko Azaad Karo

یورپ والو، عقل کو آزاد کرو

ہر انسان کو زندگی گزارنے کے لیے تین سوالوں کا جواب ضرور ڈھونڈنا چاہیئے۔ پہلا سوال کہ وہ زمین پہ آیا کہاں سے ہے۔ کیا وہ خود بخود پیدا ہوگیا ہے یا کسی نے اسے زمین پہ بھیجا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں جو بھی انسان پیدا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت دنیا سے غائب ہوجاتا ہے یعنی مرجاتا ہے۔ تو دوسرا سوال کہ کیا وہ مر کے مٹی ہوجاتا ہے یا کوئی اور بھی دنیا ہے جہاں انسان بھیج دیا جاتا ہے۔ جیسے اس دنیا میں مرضی کے بغیر بھیجا اور واپس بلا لیا گیا تھا۔

جب انسان ان دو سوالوں کے جواب ڈھونڈ لے گا تو تیسرے سوال، زندگی گزاری کیسے جائے، کا جواب خود بخود مل جائے گا۔

اب ان تین سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے ذرائع بھی صرف تین ہیں۔

پہلا ہے حواس کے ذریعے علم حاصل کرنا۔ یہ حواس پانچ ہیں آنکھ سے دیکھنا، کان سے سننا، ناک سے سونگھنا، زبان سے چکھنا اور ہاتھ سے کسی چیز کو چھونا۔ اسکی بھی ایک حد ہے اسکے بعد حواس کو عقل کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے کسی نامحرم عورت سے تعلق بنانے سے پہلے عقل آپکو اسکے فائدے اور نقصان دونوں بتائے گی۔ لیکن حواس صرف فائدہ دیکھتے ہیں۔ آنکھوں کی، کانوں کی اور ہاتھ سے چھونے کی لذت کو کسی منطق یا دلیل کی ضرورت نہیں ان حواس کو لگام صرف عقل ڈالتی ہے۔

یہی علم کا دوسرا ذریعہ ہے۔ حواس عقل کے محتاج ہیں اور عقل اپنے جواز اور لاجک کو ثابت کرنے کے لیے علم وحی کی محتاج ہے۔ لیکن کوئی کسی پہ مسلط نہیں ہوتا بلکہ یہ تینوں ذرائع ایک دوسرے کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔

اس لیے ہمیشہ علم وحی نے دنیا پہ سرداری کی ہے۔ جب بھی علم وحی میں بگاڑ آیا۔ تبھی سلیم الفطرت عقل نے ایسے فرسودہ علم وحی کو اٹھا کر پھینک دیا اور پھر خالص علم وحی کو تلاش کیا۔ جو انبیاء کی صورت ملتا رہا اور دنیا کا نظام چلتا رہا جیسے بنی اسرائیل کے دور جب علم وحی بگڑا تو نبی کریمﷺ نور لے کر جلوہ گر ہوگئے اور عقل سلیم کے پروانے انکے گرد جمع ہوگئے۔

اب انہی تین سوالوں کی طرف آتے ہیں۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں ایک شخص انفرادی زندگی میں مذہب، قوم پرستی یا کسی بھی نظریے سے بالاتر ہوکر حق کا متلاشی ہے جو عقل کو امام بناتا ہے۔ تو عقل جب تحقیق شروع کرتی ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھ کر وہ سمجھ جاتا ہے کہ کوئی بھی چیز اپنی مرضی سے نہیں بلکہ کسی نہ کسی سبب سے وجود میں آرہی ہے۔ حتی کہ زمین پہ گھاس پھوس بھی بارش کی محتاج ہے۔ جانور اپنی بقا اور وجود کے لیے سبز چارے کے محتاج ہیں۔ زمین، آسمان، چاند، سورج، دن اور رات سے مزین یہ ڈیزائن کوئی تو ہے جو اس نظام کو چلا رہا ہے۔ کون ہے وہ، وہ جو بھی ہے مجھے بھی وہی زمین پہ بھیجنے والا ہے دیکھیں یہاں عقل نے حواس کی دسترس میں آنے والی چیزوں کو انکھیں بند کرکے مانا نہیں بلکہ غوروفکر کیا ہے اور اب عقل تقاضا کررہی ہے کہ وہ کون ہے۔

پھر جب دوسرے سوال پہ غور کرتا ہے کہ ہم مرنے کے بعد جاتے کدھر ہیں۔ کیا مٹی ہوجاتے ہیں اگر مٹی ہوجاتے ہیں تو جو لوگ ساری زندگی دوسروں پہ ظلم کرتے ہیں اور بغیر کوئی سزا بھگتے مرجاتے ہیں تو وہ تو پھر زیادہ فائدے میں رہے۔ دوسری طرف مظلوم ہے جس پہ ہر طرح کا ظلم ہوا اسکی محنت کی کمائی دوسرے چھین لے گئے اس کو دنیا میں انصاف نہ مل سکا۔ تو اس کو اب انصاف کیسے ملے گا۔ جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس کائنات کو کسی نے بنایا ہے۔ تو کیا وہ کائنات میں ہونے والی اس ناانصافی پہ اتنا لاعلم ہے۔ کیا کوئی مالک اپنی بنائی ہوئی چیز سے لاتعلق ہوسکتا ہے۔ اتنی شاندار کائنات بنانے والے نے کوئی نہ کوئی تو ایسا طریقہ رکھا ہوگا جہاں سب کو انصاف مل سکے۔ عقل اب یہاں پھر تقاضا کررہی ہے۔۔ علم کا یہ ذریعہ ہے نہ اپنے آپ میں کمال۔ اس کے ذریعے آپ لاجک پیدا کرتے ہیں سوچتے ہیں۔

مشاہدات کا تجزیہ کرتے ہیں زمین پہ انسان نے جتنی بھی ترقی کی ہے یہ سب اسی عقل کا کمال ہی تو ہے۔ انسان میں اتنا پوٹینشل ہے کہ وہ حواس اور عقل سے حق تک پہنچ سکتا ہے۔ مگر اس وقت جب ان کے ساتھ دوسرے آلودہ نظریات الگ کردیے جائیں۔ مگر اکثر ہوتا ہے جب وہ غوروفکر کرہا ہوتا ہے۔ تو اردگرد کے نظریات جن سے وہ متاثر ہوتا ہے وہ بھی ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ جیسے قومی عصبیت، بگڑے ہوئے مذہب کی ہتھکڑیاں، کسی کی نفرت اور کسی کو سچا ثابت کرنے کی دلیلیں، جن سے اسکو ذاتی فائدہ ہورہا ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ ایسی کمپرومائز حالت میں غوروفکر کا جہان کھولتا ہے تو ضرور گڑبڑ کر دیتاہے۔

انسانی تاریخ میں خدا کا عقیدہ اور موت کے بعد زندگی ہونے یا نہ ہونے کا عقیدہ متواتر موجود رہا ہے قرآن پاک میں بھی کسی قوم کو خدا سے انکار نہیں تھا بلکہ رسولوں پہ اعتراض تھا موت کے بعد حساب کو وہ نہیں مانتے تھے۔ اب اگر کوئی شخص واقعی حق راہ تک پہنچنا چاہتا ہے تو مجھے بتائیے کیا کسی عقلیت پسند (Rational) انسان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ان سب عقائید کو ہر عصبیت سے بالاتر ہوکر پڑھے کیا کارل مارکس نے جب یہ کہا کہ "مذہب عوام کی افیون ہے" تو کیا اس نےاسلام کی تاریخ کو عقلیت پسندی (Rationality) کے ذریعے ہر عصبیت سے بالاتر ہوکر سمجھ لیا تھا۔ جبکہ اس کے اجداد کا تعلق ایک یہودی خاندان سے تھا۔ تو کم ازکم حضرت موسیؑ کی تاریخ بارے ہی چھان بین کرلیتا۔ تو اس کو معلوم ہوجاتا کس طرح وہ ظالم کے شر سے مظلوم قوم کو بچانے میں پوری ریاست سے بھڑ گئے۔ کیسے مصر جیسی سپر پاور کے گھر میں ایک عوامی تحریک برپا کردی۔

کیا کارل مارکس یا یورپ کے باقی فلاسفر نے حضرت نوحؑ، حضرت صالحؑ اور حضرت ہودؑ کی تاریخ پڑھی تھی۔ انبیاء جن کا مشن ہی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے چھڑانا تھا۔ کیا ان انبیا کی سیرت پڑھ کر آپ کہہ سکتے ہیں یہ لوگ افیون بیچتے تھے، کہ مظلوم کو کہتے ظالم کے ظلم پہ صبر کرتے رہو بس یہ دنیا ظالم کی ہے اور آخرت تمہاری۔

میں کارل مارکس کا نام اس لیے لیتا ہوں کہ وہ ملحدوں کا ایک بڑا مفکر تھا۔ اگر اس کی تاریخ کا علم اتنا تھوڑا تھا تو باقیوں کے بارے میں کیا کہا جائے کہ صرف ایک مذہبی طبقے کے غلط عقائید پہ ہی قیاسات کی عمارت کھڑی کر لی۔ تو بتائیے کیا کارل مارکس نے اپنی عقل کا صحیح استعمال کیا؟

ایسے ہی لوگوں کے بارے اللہ پاک نے تقریبا پچاس بار قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنی عقل کا صحیح استعمال نہیں کرتے صرف حوالے کے لیے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 164 پڑھ لیں تو آئیڈیا ہوجائے گا۔

اسلیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو عقل سلیم کےساتھ حق کی تلاش میں ہیں اور دوسرے وہ لوگ جن کی عقل میں گردوغبار ہے اور وہ غلط راستوں پہ نکلے ہوئے ہیں۔ سب کے سامنے خالص علم وحی کو واضح کیا جائے۔ اللہ پاک انبیاء کرام مبعوث کرتا ہے تو وہ ان تین سوالوں کے بڑے مدلل جواب دیتے ہیں کہ جس ہستی کی تلاش میں تم ہو وہ صرف اور صرف اللہ ہے۔ اسی نے تم کو زمین پہ بھیجا ہے تمہارے لیے حق اور باطل کے راستے واضح کردیے ہیں وہ تم کو آزمانا چاہتا ہے کہ کون اپنے شعور کے ساتھ توحید کی راہ پہ چلتا ہے، اسی کی طرف تم کو لوٹ کرجانا ہے وہاں وہ تمہاری زندگی کے اعمال کا حساب کرے گا۔ پھر اسی کے مطابق تم کو جزا بھی دے گا۔

یہ عقیدہ آخرت جتنا کمزور ہوگا انسان زمین پہ اتنا فساد پھیلائے گا۔ اب جس انسان کا عقیدہ ہے کہ مر کہ مٹی ہوجائے گا۔ تو اسکی تو کوشش ہوگی کہ اسی دنیا میں جیسے بھی ہو عیش کرنے ہیں۔ مگر جواب دہی کے احساس والے زندگی کو ایک امانت کی طرح گزارتے ہیں۔ یہ تو انفرادی معاملات میں تلقین ہوتی ہے جبکہ اجتماعی معاملات میں بھی واضح اصول بیان کردیے جاتے ہیں کہ لوگو تمہاری تہذیب و تمدن کے توحید پہ مبنی کچھ اصول ہیں جن پہ سمجھوتہ نہ کرنا۔ ورنہ دنیا میں تم کبھی انصاف کا نظام قائم نہیں کرپاو گے اگر تم میں کچھ شعور آبھی گیا تو تم خود تو غلامی سے نکل آو گے لیکن جو قومیں دنیاوی علوم میں تم سے کم تر ہوں گی تم ضرو انکو اپنا غلام بناو گے اس طرح دنیا مجموعی طور پہ آقا غلام کے چکر میں ہی پھنسی رہے گی۔ اس طرح دنیا کے ساتھ آخرت بھی انسانوں کی برباد کربیٹھو گے۔ ان توحید پہ مبنی اصولوں کو انصاف کے ساتھ عقل کے پیمانے پہ پرکھ کر دیکھ لو تم کو کہیں کجی نظر نہیں آئے گی۔

پندرہویں صدی میں یورپ میں جب علم وحی اپنی انتہائی بگڑی ہوئی شکل میں نافذ تھا تو وہاں کے سکالر اس بگڑے ہوئے علم وحی کی اجارہ داری توڑ کہ عقل کو سپریم بناناچاہتے تھے وہ کہتے تھےہم ہر بات پہ غوروفکر کریں گے۔ ہر بات کی وجہ جانیں گے اسکی تہہ تک جائیں گے۔ ہم اندھا دھند علم وحی کی پیروی نہیں کریں گے۔ یورپین سکالرز کا یہ طریقہ بالکل ٹھیک تھا بلکہ یہی تو انبیاء کا طریقہ ہوتا ہے۔ کہ عقل کو حواس کا امام بنا کر تحقیق کی جائے۔

حقیقت میں یورپین سکالرز نے عقل کو نہیں بلکہ حواس خمسہ کو بنیاد اور امام بنایا اور عقل کو حواس کے تابع کردیا تھا جس سے ہوا کیا، کہ عقل کا دائرہ اور محدود ہوگیا اب عقل وہاں تک ہی سوچ سکتی تھی جہاں تک حواس ساتھ دیتے تھے۔ اس طرح انسان باقی جانوروں کی طرح ایک جانور کی سطح پہ اتر آیا فرق بس اتنا تھا کہ انسان عقل کے ذریعے زیادہ بہتر قوت فیصلہ رکھتا تھا اس لیے جانوروں سے اعلی جانور قرار پایا۔ حالانکہ یہ اس سے بھی اعلی رتبے کا مالک تھا۔ اگر وہ عقل کو امام بنا کر غوروفکر کرتا تو اسے پتا چلتا کہ زمین وآسمان اور اس میں سب کچھ تو بنایا ہی اس کے لیے گیا تھا۔ لیکن یورپین نے اسی کو انہوں نے Age of Reason کہا۔ اسی کو انہوں نے اپنے تئیں Rationality کہا۔ مگر عقل کی حدود پہ حواس کے تالے لگ چکے تھے۔ اس پہ متزاد یورپین کو زمین پہ سیاسی اقتدار نصیب ہوگیا۔ تو یہی عقیدے انکی بنیاد بن گئے۔

شروع شروع میں تو انہوں نے کہا کہ ہم بس علم وحی کو سیاسی اور حکومتی معاملات سے بےدخل کررہے ہیں۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ عقیدہ جب آتا ہے تو وہ زندگی کے ہرشعبے میں آتا ہے۔ اسلیےمذہب اب کیسے انفرادی زندگی رہ سکتا تھا۔ علم وحی تو حواس کے دائرے میں آ ہی نہیں سکتا۔ اب نہ آپ اللہ کو دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، نہ چھو سکتے ہیں، تو خدا کا وجود کیسے سمجھ میں آئے گا۔ یہ تو ساری عقل کی پرواز تھی اور عقل پہ حواس کا پہرہ تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈھڑا دھڑ دنیا نے خدا کا انکار شروع کردیا۔ جب خدا ہی ختم ہوگیا تو قیامت اور حساب کا دن کیا خاک سمجھ آنا تھا۔ جب حساب کا تصور ہی نہیں تو زندگی گزارنے کے وہ سارے اخلاقی اصول بھی بے معنی ہوگئے۔

اب دنیا کے نظام کو ثابت کرنے کے لیے بےڈھنگے طریقے ڈھونڈے گئے۔ جیسے ڈارون کا نظریہ ارتقاء۔ میں ملحدوں سے، لبرل اور جدت پسندوں سے درخواست کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو دقیانوسی کے طعنے نہ دو۔ ہم تم سے زیادہ Rational ہیں ہمارا دین عقل کو حواس کا امام بناتا ہے اللہ پاک نے بار بار قرآن میں غوروفکر کرنے اور اپنی عقل کا صحیح استعمال کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم پہ مسلمان نما کفار مسلط ہیں کچھ مذہبی لوگوں کی کمزوریاں ضرور ہیں۔ مگر ہمارا دین اس بارے بالکل واضح ہے۔ عملی طور پہ ہم توحید سے ہٹ چکے ہیں۔ لیکن قرآن یعنی علم وحی پوری طرح محفوظ ہے۔

اگر تمہارا Rationality کا دعوی ہے تو اپنے دعوے کو انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ عقل کی ہتھکڑیاں کھولو اسے آزاد کرو۔ جب عقل آزاد ہوگی تو خود وہ تم کو کھینچ کر توحید کے راستے پہ کھڑا کر دے گی۔ "بادشاہت، جمہوریت اور اسلام" کے عنوان سے سلسلہ وار کالموں میں چوتھے کالم کا اختتام ہوا۔

Check Also

Riwayat Aur Ijtehad

By Muhammad Irfan Nadeem