Aik Naye Deen Ki Ejad (2)
ایک نئے دین کی ایجاد (2)
چودہویں صدی آنے تک یورپین عیسائیت اور بادشاہت کے اجتماعی نظام سے پوری طرح تنگ آچکے تھے۔ یہ ایسا اجتماعی نظامِ جبر تھا کہ انسان کی اپنی کوئی انفرادی زندگی ہی نہ تھی۔ انسان غور و فکر بھی پوپ کہ اجازت سے ہی کرسکتا تھا۔ جیسے پچھلے کالم میں بیان کرچکا ہوں کہ جب Constantinople کی شکست کے بعد مشرقی یورپ کے سکالر مغربی یورپ آئے تو عوام میں بیداری کی لہر شدت اختیار کرگئی جسے Renaissanceکہا جاتا ہے۔
یہ تحریک اجتماعی نظام کی ضد میں دوسری انتہاء پہ جاکھڑی ہوئی۔ جسے انفرادی نظام Individualism کہا گیا۔ جس کے مطابق ہر انسان آزاد ہے وہ کسی کا غلام نہیں ہے۔ ہر انسان اپنے مال و دولت کا خود مالک ہے وہ جہاں چاہے خرچ کرے۔ کوئی اسے روک نہیں سکتا اسی کو Humanism کہا گیا۔ جبکہ اسلام بادشاہت کے کلی طور پہ اجتماعی نظام اور Humanism کے کلی طور پہ انفرادی نظام کے درمیان ایک اعتدال کی راہ تعلیم فرماتا ہے۔ لوگوں کے انفرادی حقوق کے ساتھ ایک مضبوط اجتماعی سیاسی نظام کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔
اب اس نئی بیداری کے بعد سوال پیدا ہوا کہ انسان کی جان اور مال کی آزادی اور انکے حقوق کی حفاظت کیسے کی جائے۔ جبکہ اقتدار کے حوس پرست دنیا میں تو موجود ہیں جو انسان کی جان اور مال کی آزادی ہڑپ کرسکتے ہیں تو دانشوروں نے فیصلہ دیا کہ ہر ملک کے لوگ آپس میں ایک سماجی معاہدہ Social Contract کریں۔ یعنی سارے لوگ اپنی رائے سے کچھ لوگوں کو منتخب کریں۔ جو ہمارے ان حقوق کی حفاظت کریں اور ہمیں اندرونی، بیرونی حملہ آروں سے بچائیں۔ اس کو جمہوریت کہا گیا۔
وہ یہ گورنمنٹ بنانا نہیں چاہتے تھے ان کی نظر میں یہ بہت بڑی بے وقوفی تھی کہ سارے لوگ ملکر اقتدار کی طاقت پھر کچھ ہاتھوں میں دے دیں مگر انہوں نے کہا یہ ایک مجبوری ہے ورنہ نظام چل نہیں پائے گا وہ کہتے تھے کہ گورنمنٹ اپنی انتہائی اچھی حالت میں بھی ایک Necessary Evil ہے۔ بہت سارے لوگ تو اسکے حق میں بھی نہیں تھے جنہیں Anarchist کہا گیا۔ یعنی کوئی حکومت ہونی ہی نہیں چاہئیے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ Humanism کے پیروکار اجتماعی نظام کے کس قدر مخالف ہیں۔
اب اس ساری فکرکے دو یقینی نتائج نکلنے تھے اور نکلے ہیں اور جہاں بھی یہ نظام جائے گا یہی نتائج نکلیں گے۔
پہلا جمہوری سیاسی نظام کیونکہ مکمل طور پہ بادشاہی نظام کی ضد ہے اس لیے یہ کسی انسانی بادشاہ کا حکم اپنے فیصلوں میں شامل نہیں کرسکتا۔ بلکہ عوام کے منتخب لوگ باہمی مشاوت سے ہی فیصلہ کرتے ہیں تو مذہب جو اُس بادشاہ احکام کے لے کر آتا ہے۔ جو زمین پہ موجود ہی نہیں تو ایسے بادشاہ کے احکام کیونکر قبول کیے جائیں۔ تو اس نئے دین میں علم وحی کی شمولیت کی ایک فیصد بھی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ رہے گا۔ اجتماعی فیصلوں میں اسکی کوئی وقت نہیں ہے یعنی سیکولرازم۔
اب جب مذہب گھر کے اندر چند رسموں کا مجموعہ بن جائے گا۔ جس سے انسان کی زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ نہ نفع اور نہ کوئی نقصان جبکہ Humanismکے افکار سے لوگوں کی زندگیاں واقعتا بدل رہی ہوں گی۔ کیونکہ اقتدار اور طاقت ان افکار کو حاصل ہے تو مجھے بتائیں ایسے مذہب سے کوئی کب تک بندھا رہے گا۔ اس لیےاسکی انتہاء Atheism یعنی الحاد پیدا ہونا سو فیصد یقینی ہے۔ بلا شک و شبہ۔ چاہے یہ واقعہ سو سال یا پانچ سو سال بعد ہی کیوں نہ وقوع پذیر ہو۔
دوسرا معاشرے میں ہمیشہ دو طرح کے طبقات ہوتے ہیں ایک مالدار طبقہ جس کا وسائل کی پیداوار پہ قبضہ ہوتا ہے جب دوسرا عام عوام کا طبقہ۔ جو اپنی ضرورتوں کے لیے اِسی مالدار اشرافیہ کی طرف دیکھتا ہے۔ جب لوگوں کو مال کا حق ملکیت اور خرچ کرنے کا کھلا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔ تو اس بےمہار آزادی سے یہ نظام کنزیومرازم کی اشاعت کا سبب بن گیا۔ جہاں سے پھر سرمایہ دار نظام کی جڑیں نکلیں۔ وہ کیسے دیکھیں مذہب کے مطابق انسان کو سکون صرف اللہ کی یاد میں ملتا ہے باقی چیزوں کو ضرورت کے مطابق استعمال کرناہے حدود کے اندر رہتے ہوئے۔ مگر Humanismکا عقیدہ کہتا ہے تم ہر وہ کام کرو جہاں سے سکون مل سکتا ہو۔ جیسے میرے پاس اگر بہت سارے پیسے ہیں اور کوئی اخلاقی اور جتماعی نظام کی حدود بھی میرے اوپر لاگو نہیں تو میں سہولیات خریدوں گا۔ مالدار طبقے کو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ آگئی۔ انہوں ہر وہ چیز بنانی شروع کردی جو انسان کی نفسانی خواہشات کی تسکین کرتی تھی۔
پھر میڈیا کے ذریعے ہر وقت اسکی تشہیر کی تاکہ لوگوں میں اسکی طلب کم نہ ہو بلکہ بڑھتی ہی جائے۔ پھر مارکیٹ میں ایسی پراڈکٹس بھی لانچ ہوگئیں جن کا عام انسان کو بھی علم نہیں تھا کہ یہاں سے بھی تسکین مل سکتی ہے۔ پھر ان پراڈکٹس کو مالدار طبقے نے ایک فیشن کے طور پہ متعارف کروایا جیسے کوکا کولا، پیپسی، گاڑیوں، موبائلوں، گارمنٹس۔
کاسمیٹکس، کھانوں کے جیسے میکڈونلڈ، کے ایف سی کے ایک سے ایک بڑھ کر برانڈز، پھر فلموں ڈراموں کے ذریعے سرمایہ داری نظام کی تشہیر بھی اور اربوں ڈالر کی کمائی بھی۔ پھر ایک غریب آدمی کی دسترس میں ہر چیز کر دی ایک ہزار روپے سے ایک لاکھ کی پراڈکٹ گھر لے جاؤ باقی پیسے قسطوں میں سود کے ساتھ دیتے رہنا۔ غرض سرمایہ داروں نے عام لوگوں کو ایک ہیجانی کیفیت میں ڈال دیا ہے کہ وہ بس زیادہ سے زیادہ consume کریں۔ انکو ہر وقت اپنے پاس کسی نہ کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی رہے۔ کیونکہ جتنا لوگ زیادہ Consumer ہوں گے۔ سرمایہ دار کا کاروبار اتنا ہی پھلے پھولے گا۔
ان سارے کاروباروں پہ لگے ٹیکسز، سود، پراڈکٹس کی تشہیر کے خرچے سب کے سب عوام ہی دیتی ہے اور سرمایہ دار اپنا منافع لے کر نکل جاتا ہے۔
انسانوں کی اخلاقیات بھی یہ سرمایہ دار ہی طے کرتے ہیں۔ صرف ایک مثال لے لیتے ہیں۔ ٹریلین ڈالر کی پورن اور Prostitution کی انڈسٹری جو چلاتے ہیں۔ انکا سب سے بڑا گاہک غیر شادی شدہ نوجوان ہوتے ہیں اگر نوجوان شادی کریں گے۔ فیملی لائف گزاریں گے تو انکا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ اس لیے نوجوانوں کی پورن فلموں تک پہنچ انٹرنیٹ کے صرف کلک پہ میسر ہے۔ پھر جذبات کی پیاس بجھانے کو طوائفوں تک رسائی آسان کی گئی ہے۔ طوائف کو Sex Worker کے طور پہ ایک پیشہ نامزد کیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں اسکو عزت کی نگاہ سے جگہ ملے۔ 18 سال تک شادی ویسے ہی بین ہے۔ 18 سال تک بچے انکا شکار ہوتے ہیں اس کے بعد وہ اس نشے کے ایسے عادی ہوتے ہیں کہ انکو شادی ہی ایک بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔ پورے یورپ کا فیملی سسٹم اس وقت تباہ ہوچکا مگر سرمایہ دار کا بزنس بڑھ رہا ہے۔
سرمایہ دار پہ کوئی عوام کی منتخب شدہ حکومت ٹیکسز اور دوسری پابندیاں نہ لگائے۔ اسلیے دولت کے بل پہ سیاسی پارٹیاں کھڑی کرتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے لیے رائے عامہ ہموار کی اور پھر حکومت میں آکر اپنی مرضی کی پالیسیاں بنواتے ہیں۔ اس لیے جمہوری سیاسی نظام اپنے آغاز سے ہی دولت مند طبقے کی بڑی بڑی کارپوریشنز کے ہاتھوں یرغمال ہوگیا اور آج تک ہے۔ اس لیے سرمایہ داروں کے لیے ایسے ملکوں میں جہاں عوام کی اکثریت سیکولر ہو بادشاہی نظام قابل قبول نہیں کیونکہ بادشاہ تو سیاسی نظام اپنے کنٹرول میں رکھے گا، اپنی بادشاہت کو مضبوط کرنے کے لیے۔ جبکہ سرمایہ دار کو تو کھلی آزادی چاہیئے۔
ہاں مگر ایک کٹر مذہبی معاشرے میں وہ کبھی جمہوریت نہیں آنے دیں گے۔ بلکہ ایک سیکولر بادشاہ کے اقتدار کی راہ ہموار کریں گے تاکہ وہ اجتماعی نظام پہ قابض ہوکر لوگوں کی انفرادی زندگی کو آہستہ آہستہ آزاد خیال بنائے۔ وہاں اس کے ذریعے اپنے کاروبار چمکائیں گے۔ جب عوام میں مغربی جدیدیت اور دین سے بیزاری کے جراثیم دیکھیں گے۔ تو اس سیکولر بادشاہ کے خلاف بھی بغاوت کروا کر اپنی لونڈی جمہوریت لانے کی کوشش کریں گے۔ جبکہ ایک سیکولر معاشرے میں تو وہ کبھی بادشاہت آنے ہی نہیں دیں گے۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی انکی شکار گاہ ہے۔
اب مجھے یہ تو بتانے کی ضروت نہیں ہونی چاہیئے کہ اسلامی نظام میں سرمایہ داروں کی اس منہ زور آزدی کا کیا حشر ہوگا۔ آج سارے مذاہب جب اس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ اسلام ہی اس طاغوت کو ٹکر دے کر اسکے ٹکڑے کرسکتا ہے اور یہ بات سرمایہ دار بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے اسلام کی تھوڑی سی روشنی بھی انکے کان کھڑے کر دیتی ہے۔
اب آتے ہیں سرمایہ دار کی لونڈی جمہوریت کی طرف۔ بادشاہی نظام فرد واحد یا ایک گروہ کا دین ہوتا ہے۔ اس لیے تمام انبیاء کی جنگ اسی گروہ کے ساتھ رہی جو لوگوں پہ قبضہ کرکے انکی معاشی اور جسمانی آزادی چھین لیتا تھا۔ اس لیے اسلام عام لوگوں کا دین ہے جو اپنے معاملات کو امرھم شورہی بینہم کے ساتھ طے کرنے پہ زور دیتا ہے اور ساتھ میں فکر اسلام پہ چلنے پر فی الدنیا حسنہ و فی الاخرہ حسنہ کی گارنٹی بھی دیتا ہے۔
چودہویں صدی میں ایجاد ہونے والے دین بھی اقتدار کسی فرد واحد یا گروہ کو نہیں بلکہ عام لوگوں کو دینے کی بات کرتا ہے اور اپنے معاملات کو امرھم شوری بینہم کے ساتھ حل کرنے پہ زور دیتا ہے۔ یہیں سے علماء اسلام نے دھوکہ کھایا کہ اسلام بھی جمہوری طریقے سے آسکتا ہے اور نافذ بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ وہ یہ نہیں سمجھے کہ اسکی فکر میں By Default پوری طرح صرف فی الدنیا حسنہ کا عقیدہ پیوست ہے آخرت کا تو کہیں سے کوئی رشتہ ہی نہیں اسکے ساتھ۔ اس کی پشت پہ انسان کی کلی آزادی اور مال کی کلی آزادی کے عقیدے کھڑے ہیں جہاں سے دین سے نفرت اور سرمایہ داری کی پیدائش یقینی ہے۔ آپ کیسے اس میں اسلام کے انجکشن لگا کر اسکو اسلامی بنا سکتے ہیں۔
ہمارا مسلئہ ہے ہم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں فرق نہیں سمجھ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ طاقت کے ذریعے کسی حدود پہ قبضہ بناتی اور قائم رکھتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اُن حدود میں پھر کچھ اصول طے کردیے جاتے ہیں جن سے کوئی شخص آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اب لوگوں کے اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے عدلیہ، قانون سازی کا ادارہ اور حکومت ہوتے ہیں جو ان اصولوں کی روشنی میں کام کرتے ہیں۔ ان اصولوں کی پاسداری اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے جو فرد واحد بھی ہوسکتا ہے یا کوئی گروہ۔ اسلام ہو یا جمہوریت یہ اسٹیبلشمنٹ کا کرادر چاہتے ہیں نہ کہ حکومت کا۔ اسلام کی اسٹیبلشمنٹ یعنی خلافت دنیا میں قائم ہوسکتی ہے یہ انبیاء کرام ثابت کرچکے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی اسٹیبلشمنٹ قائم نہیں ہوسکتی یہ دولت مند طبقے کےہاتھوں یرغمال ہی رہے گی اس لیے دنیا پرستوں کو فی الدنیا حسنہ بھی نہیں ملے گا۔
جمہوریت کیوں کہ سرمایہ دار کے ہاتھوں یرغمال ہے اسلیے بڑی بڑی بلین ڈالر کی کارپوریشنز ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہیں۔ حکومتیں ان کی فنڈ سے چلتی ہیں حکومتی اداروں میں انکے کارندے بیٹھے ہوتے ہیں جس وجہ سے حکومتیں چاہے عوامی طریقے سے ہی آتی ہیں۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کے آگے سجدہ ریز رہتی ہیں عوام کا عتاب بھی جب ٹوٹتا ہے تو انپر ہی ٹوٹتا ہے اسٹیبلشمنٹ صفائی کے ساتھ اپنا دامن بچا لیتی ہے۔ اس لیے آج تک زمین پہ خالص جمہوری نظام ایک دن کے لیے نہیں آیا اور نہ آہی آسکتا ہے جو صرف عوام کے مفاد کے لیے کام کرے۔
خالص جمہوری حکومت کو اپنا نظام چلانے کے لیے پیسے چاہیں۔ پیسے کون دے گا عوام۔ عوام کیسے دی گی جب وہ خود پیسے کمائے گی۔ عوام خود پیسے کیسے کمائے گی جبکہ کاروباری طبقہ اپنا کاروبار بند کرکے کسی اور ملک چلا جائے گا جہاں اسکو زیادہ مواقع نظر آئیں گے۔ پیسہ اور جدید تعلیم تو اسی مالدار طبقے کے پاس ہوتی ہے۔ جسکو یہاں سے کئی گناہ بہتر کاروبار کے مواقع مل رہے تو وہ کیوں یہاں اپنا آپ برباد کریں گے۔ یا تو حکومت ان سرمایہ داروں کے آگے گھٹنے ٹیکے گی اور عوام کا سودا کرے گی یا غریب کسانوں پہ ظالمانہ ٹیکس لگائے گی اور خود ہی اسٹیبلشمنٹ بن کر مسلط ہوجائے گی جس سے جان چھڑانے کو عوام پھر ہاتھ پاوں مارے گی۔
اس جہوریت کو آپ اسلام کے آپ جتنے مرضی انجکشن لگا لو اسلام کبھی نہیں آسکتا۔ جماعت اسلامی کی مثال لے لیتے ہیں۔ یہ جماعت جمہوری طریقے سے پاکستان میں اسلام لانا چاہتی ہے۔ پہلی صورت یہ ہوسکتی ہے یہ جماعت پاکستان کے سارے اداروں کو، پاکستان میں مذہبی فرقوں کو، کاروباری طبقے کو یہ یقین دہانی کروائے کہ انکے مفادات پہ کوئی آنچ نہیں آئے گی باقی سیاسی پارٹیوں کو بھی سیاست کے پورے مواقع ہوں گے۔ اب اتنے سمجھوتے جب وہ کرکے حکومت ہاتھ میں لیں گے تو کیا وہ اسلامی نظام قائم کرپائیں گے۔ بالکل نہیں!
دوسری صورت آئیڈیل ہے کہ صاف شفاف انتخابات ہوجائیں اور عوام کی اکثریت جماعت کو ووٹ ڈالے تو جماعت کی حکومت آسکتی ہے۔ تو سوال پھر وہی کہ جماعت جمہوریت پسند ہے ظاہر ہے ساری عوام جماعت کے اصولوں سے متفق نہیں ہوسکتی تو جو لوگ آزاد خیال ہوں گے وہ اپنے افکار کی تبلیغ کریں گے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی اسلام کے اصولوم سے متفق نہیں ہیں جن کے مفادات پہ آپ ضربیں لگائیں گے تو وہ بھی آپکو گرانے کی پوری لابنگ کریں گے تو کہاں تک مقابلہ کریں گے جب وہ روشن خیالی کی تشہیر کریں گے اور آپ کے اپنے ملک کی عوام کے لوگ انکے افکار پھیلائیں گے۔ جب آپ لوگوں کو سادگی کے درس دیں گے اور جبکہ اسی ملک میں مالدار طبقہ عیاشی کرے گا۔ اگر سرمایہ داروں پہ پابندیاں لگائیں گے تو وہ بوریا بستر گول کرکے کسی اور ملک نکل جائیں گے پیچھے غریب عوام یورپ کی ترقی کی راہ دیکھ دیکھ کر ترسے گی۔
ان سب معاملات کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت آپکو اپنے ہاتھ لینی پڑے گی۔ جب آپ طاقت کا استعمال کریں گے تو آپ جمہوری نہیں رہیں گے۔ ظاہر آپکو بہت سارے لوگوں کی آزادی اسلام کے خلاف لگے گی جسے طاقت کے ساتھ ہی دبایا جاسکتا ہے۔ تو جمہوریت تو گئی تیل لینے۔ آپ پہلے جمہوریت کا لولی پاپ دے کر کیوں اقتدار میں آئے تھے یہ تو منافقت ہوگی اور منافق اللہ کے نزدیک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ آپ کے خلاف بغاوت ہوگی جو نہ صرف آپکا اقتدار چھینے گی بلکہ اسلام کےنظام پہ بھی ایک داغ چھوڑے گی۔
مجھے بتائیں کیا کوئی اور صورت ہے جمہوری طریقے سے اسلام لانے کی۔ دو دین ایک جگہ پرامن طریقے سے رہ ہی نہیں سکتے۔ ایک آئے گا تو دوسرا جائے گا۔ دنیا میں ہمیشہ نیا نظام طاقت کے بل پہ ہی قائم ہوا ہے۔ سرمایہ داروں کی جمہوریت نےبھی جنگیں لڑی ہیں اپنی بقا کے لیے تو اسلام کا نظام بھی طاقت کے ذریعے ہی نافذ ہوگا۔ جو جماعت طاقت کے ذریعے اقتدار پہ قابض ہوگی۔ وہ کیسی ہوگی، کس طرح اقتدار حاصل کرے گی اور ملک کا نظام بدلے گی اس پہ آئیندہ کالم میں بات کروں گا انشاء اللہ۔