Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Professor FD Arif Ki Satvi Barsi Aur Unki Naat Goi

Professor FD Arif Ki Satvi Barsi Aur Unki Naat Goi

پروفیسر ایف ڈی عارف کی ساتویں برسی اور انکی نعت گوئی

جب بھی ابو جی پر کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو ماضی کے شاندار دور میں چلا جاتا ہوں جب ابو جی کے ساتھ گزرے خوشگوار لمحات قلب و ذہن کو جکڑ لیتے ہیں اور میرا سہارا بنتے ہیں۔ ابو جی کی یادوں، اُن کی گفتگو اور اُن کی نصحتیوں کو سات سال سے سینے سے لگا کر رکھا ہوا ہے جو تاحیات میرے ساتھ چلیں گی۔ والدِ گرامی پروفیسر فضلداد عارف المعروف بابو جی (پیدائش: جولائی 1949 وفات: 01 مئی 2018) اردو اور ہندکو کے نظم گو، غزل گو، نعت گو شاعر اور تحقیق دان اور مقبول ماہرِ تعلیم تھے۔

آپ کا تعلق ہریپور کے نواحی گاؤں سرائے گدائی، کوٹ نجیب اللہ سے تھا۔ آپ کی پیدائش ہریپور کے نواحی گاؤں پنڈوری کوکلیاں کے زمیندار قطب شاہی اعوان گھرانے میں ہوئی۔ پروفیسر صاحب اعلیٰ ثانوی تعلیم کی تحصیل میں ایم اے سیاسیات، ایم اے انگریزی کیا۔ آپ کو اردو، فارسی، عربی اور پشتو زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ پروفیسر صاحب قرآن، حدیث اور سیرت کا وسیع مطالعہ کرتے تھے اور یہ اُن کی شاعری میں اور خاص کر نعتوں میں نظر آتا ہے۔

آپ کی عملی زندگی کا آغاز بحیثیت کمشنڈ آفیسر پاک آرمی (ایجوکیشن کور) سے ہوا، بعد ازاں مانسہرہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے اور پھر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ہریپور سے بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے۔ آپ زبان و بیان پر قدرت رکھتے تھے جس کا حوالہ نعتیہ شاعری و ادب ہے۔ ایف ڈی عارف گفتگو اور موضوع کا بھرپورادراک رکھنےکے ساتھ نثر اور شاعری کے اسلوب کے ماہر تھے۔

آپ کا اسلوبِ بیان بھی معیاری ہوتا اور مزاح میں بھی اعلیٰ سنجیدگی کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ شاعری میں آپ کو عبور اس حد تک تھا کہ وہ جس بات کو جس انداز سے کہنا چاہتے کہہ سکتے تھے۔ آپ پرانی کلاسیکی مزاج کی شاعری کرتے تھے۔ لیکن اپنے انداز نگارش سے بات میں ندرت کے پہلو پیدا کردیتے تھے جو سامع کو سرور دیتی۔ پروفیسر صاحب نے اپنے علمی چراغ سے ہزاروں طالبانِ علم و ادب کی سوچوں کو منورکیا۔

والدِ گرامی نے شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا اور پھر اپنے قصیدہِ حیات کو اصل و حقیقی شاعری "نعتیاں کلام" کی طرف لے آئے اور ادب کے اس میدان میں بہترین نقوش چھوڑ گئے۔ آپ کی نعتوں میں استغاثہ، فریاد، مدینہ و گنبد خضریٰ کے ساتھ تعلق جابجا نظر آتا ہے۔ آپ نعتوں میں والہانہ محبت کے ساتھ کمال احتیاط اور اعلی محاسن مدنظر رکھتے ہوئے شاعری کرتے۔

آپ کی نعتوں میں سرور کونین کی ذاتِ اقدس کے پہلوں، آقا کی حیات طیبہ کے مستند گوشوں، آقا کے اقوال و افکار، اوصافِ حمیدہ، کردار طیبہ، پیغام ابدی اور تعلیماتِ سرمدی کے مناصب کو اجاگر کیا۔ سیرت نبوی کے مطالعہ کے بعد اسے قرطاس کی زینت بنانا بھی آپ کا ادبی فن ہے جس کا استعمال پروفیسر صاحب خوب جانتے تھے۔ اپنی ایک نعت میں آقا سے نسبت بارے یوں بیان کرتے ہیں۔

فکرِ عقبیٰ ہے نہ محشر کا کوئی خوف انہیں
جن کو سرکارِ مدینہ سے وفائیں ہوں گی

جو میرے آقا کی اُلفت میں فنا ہوں عارف
منتظر اُن کی جنت کی فضائیں ہوں گی

آقائے دوجہاں، وجہِ تخلیقِ کائنات کی مدحت اور اپنے جذبات کو پروفیسر صاحب اپنی ایک اور نعت میں یوں بیان کرتے ہیں۔

ہوتی ہے جہاں مدحتِ سرکار مسلسل
رہتی ہے وہاں بارشِ انوار مسلسل

پھولوں کی یہ خوشبو، یہ عطر بیز فضائیں
آقا کے پسینے کی ہے مہکار مسلسل

المدد ختمِ رسل، مولائے کل، فاتحِ خیبر
امت پہ ستم کوش ہیں اغیار مسلسل

آقا کے غلاموں کی بڑی شان ہے عارف
بنتے ہوئے دیکھے ہیں جہاں دار مسلسل

پروفیسر صاحب نے آقا کی تعریف و توصیف مادری زبان ہندکو میں بھی کی۔ اُن کی ایک ہندکو نعت سے کچھ اشعار قلم بند کر رہاہوں جو ماہانامہ آغوش ایبٹ آباد میں شائع ہوئی۔

میرے سوہنڑیں دا روضہ مدینے دے وچ
جس دی چاہت بسی میرے سینے دے وچ

سدرۃ المنتہیٰ قاب قوسین تک
پہنچیا اوہ رجب دے مہینے دے وچ

ساوے گنبد دی عظمت دی گل کے کراں
عرشاں آلے بھی چہکدے مدینے دے وچ

کر ادب احترام ہوش کر عارفا
رکھ محبت ادب دے قرینے دے وچ

پروفیسر ایف ڈی عارف کی نعتیہ شاعری سے اُن کی آقا دوجہاں سے نہ صرف والہانہ محبت و عقیدت ملتی ہے بلکہ سیرتِ نبوی کے نمایاں پہلو بھی واضح ہوتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پرفیسر صاحب عشقِ رسول کے جذبے سے سرشار تھے جو اُن کی زندگی میں بھی عملی طور پر نظر آتا تھا۔ آپ کے کلام سے محبتِ رسول اور جذبات دلکش انداز میں نظر آتے ہیں۔ میں ہمیشہ والدِ گرامی کی محبتوں کا مقروض رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ ابو جان کو غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam