Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Prof. FD Arif Ka Jazba e Farogh e Ilm Aur Sadqa e Jaria

Prof. FD Arif Ka Jazba e Farogh e Ilm Aur Sadqa e Jaria

پروفیسر ایف ڈی عارف (مرحوم) کا جذبہِ فروغِ علم اور صدقہِ جاریہ

اسلامی سال کی مناسبت سے ابو جان کی وفات 14 شعبان المعظم کو ہوئی اس لحاظ سے 14 شعبان المعظم 1446ھ والدِ گرامی پروفیسر حاجی فضلداد عارف مرحوم و مغفور کی ساتویں برسی ہے۔ جب بھی والدِ گرامی کی برسی آتی ہے تو دل افسردہ ہو جاتا ہے اور ابو جان کے ساتھ گزرے زندگی کے بہترین لمحات یاد آتے ہیں۔ انسان جب ایسی قیمتی اور نایاب ہستیوں دور ہو جاتا ہے تو یہ عقیدہ اور بھی زیادہ پختہ ہو جاتا ہے کہ بیشک یہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب عارضی ہے۔ جب باپ جیسی عظیم ہستی اس عارضی دنیا سے رخصت ہو جاتی تو پھر انسان سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تنہا رہ جاتا ہے۔ عارضی دنیا کی بے ثباتی کھل کر سامنے آتی ہے کہ دیکھو کتنے حسین اور پاک رشتے بھی انسان سے بچھڑ جاتے ہیں۔ بقولِ شاعر:

یہ خیال سارے ہیں عارضی، یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلِ آرزو کی جوباس تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

ایک مسلمان کی حقیقی زندگی تو مرنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے جسے حضرتِ انسان نے فرانوش کیا ہوا ہے مگر بحثیتِ مسلمان ہمیں اُس نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے ایسے تیاری کرنی چاہیے جیسا کہ ربِ کائنات عزوجل اور آقائے دو جہاں محمدِ عربی ﷺ نے ہمیں بتلایا ہے۔ اُس زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اِس دنیا میں گزرے وقت، ہمارے اعمال، ہمارے طور طریقوں اور رب کے بندوں کے ساتھ معاملات کے مطابق ہوگا۔ پس اے اولادِ آدم تو خوب سمجھ جا کہ یہ دنیا جہاں تمہیں بھیجا گیا مستقل ٹھکانا نہیں ہے۔

دنیا کی مثال تو ایسی کھیتی کی مانند ہے جس میں جو کاشت کرو گے وہی کاٹنا پڑے گا۔ اگر تم اپنے کھیت کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کرو گے تو تمہیں اس سے نفع بھی اچھا ہی ملے گا۔ اگر تم اپنے کھیت کو ویران چھوڑ دو گے تو اُس میں بےوقعت چیزیں ہی اُگیں گی۔ یہ تمثیل حضرتِ انسان کو سمجھانے کے لئے دی گئی اور دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا۔ رب کے بعض بندے اپنی اس عارضی دنیا میں فکرِ آخرت کرتے ہوئے کم عرصے میں ہی اس کھیت کی اعلی طریق پر دیکھ بھال کرتے ہیں جو کہ مابعد الموت ان کے لئے نفع بخش ہوتا ہے۔ اسلام نے ہمیں دوسروں کے لئے راحت و سکون اور فائدہ مند کام کرنےکو صدقہِ جاریہ کہا ہے کیونکہ ان اچھے کاموں کا اجر جب تک دینا کا نظام قائم ہے تب تک بندے کو ملتا رہتا ہےاور معاشرہ بھی پُرامن رہتا ہے۔

والدِ گرامی پروفیسر حاجی فضلداد عارف مرحوم و مغفور بھی اس فانی دینا کو چھوڑ گئے۔ کچھ عرصے سے آپ گردوں کی بیماری میں مبتلا رہے اور بالآخر 14 شعبان المعظم 1439ھ کو صبح وصال فرما گئے۔ اُسی دن آپ کا جنازہ شام 6 بجے مقرر ہوا جو کہ میرے نانا جان حاجی عبدالقدوس دامت برکاتہم نے پڑھایا اور تدفین مغرب تک ہوئی جو کہ شبِ برأت کی 15ویں مبارک شب بنی جو والدِ گرامی کی قبر میں پہلی رات تھی۔ اس مبارک رات کی نسبت امید کرتا ہوں کہ والدِ گرامی پر اللہ تعالی عزوجل کا خصوصی کرم ہوا ہوگا۔

جب والد گرامی کی گزری زندگی کو دیکھتا ہوں تو میں فخر محسوس کرتا ہوں کیونکہ والدِ گرامی نے اس عارضی دنیا کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی۔ آپ ہمیشہ فکرِ آخرت میں ہی اپنے شب و روز بسر کرتے اور اپنے حلقہِ ارباب کو بھی فکرِ آخرت کا درس دیتے تھے۔ آج جس پہلو پہ لکھنے لگا ہوں اس کا تعلق صدقہِ جاریہ سے ہے جو کہ ابو جان اس دنیا میں بغیر کسی لالچ اور دنیاوی فائدے یا تعریفی اسناد کے کر گئے۔ میرے والدِ گرامی نے آج سے 29 سال پہلے (1993) گاؤں میں بچوں اور بچیوں کے پرائمری اسکول کے لئے اپنے حصہ کی آراضی سے 2 کنال جگہ محمکہ تعلیم صوبہ سرحد (جو کہ اب خیبرپختونخوا ہوگیا ہے) کو وقف کر دی۔ اُن کے اس فیصلے سے گاؤں میں بچوں کی تعلیم کا بندوست ہوگیا کیونکہ گاؤں کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں دور کے اسکول میں جاکر تعلیم حاصل کرتے تھے جو کہ پروفیسر صاحب کو ناگوار گزرتا۔

والدِ گرامی نے یہ اچھا کام بغیر کسی دنیاوی لالچ یا مقام حاصل کرنے کے لئے کیا مگر اس نیک کام میں کافی رخنے ڈالے گئے اور والدِ گرامی کو پریشان کیا گیا۔ مگر پروفیسر صاحب شروع سے ہی عزم و ہمت والی شخصیت تھے، اپنی ساری زندگی میں کبھی بھی ہمت نہیں ہاری، ہر رکاوٹ کو عبور کرکےاپنے مقاصد کو حاصل کیا۔ آپ ہمیشہ اپنے شاگردوں اور حلقہِ ارباب کو بلند ہمتی، محنت، دیانت اور سچائی کا درس دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک آپ کے شاگرد آپ کی مثالیں دیتے ہیں اور آپ کو بہترین لفظوں میں یاد رکھتے ہیں۔

پروفیسر صاحب نے زمین وقف کرنے کے بعد محکمہ تعلیم سے جلد اسکول کی عمارت کا کام کرنے شروع کرنے پر زور دیتے رہے۔ اس حوالے سے وہ محکمہ تعلیم اور دیگر اداروں سے خط و کتابت بھی کرتے تھے تاکہ یہ کام جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔ پروفیسر صاحب کی دن رات کی کوششوں سے بالآخر ڈیڑھ سال کی مدت پرائمری اسکول سخی آباد(کَنیَٹ) بن گیا جس میں نہ صرف کَنیَٹ و سخی آباد بلکہ ملحقہ آبادیوں کے بچے بھی پڑھائی کے لئے آتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کو پڑھنے پڑھانے سے بہت گہرا تعلق تھا اور وہ فی سبیل اللہ بچوں کو تعلیم بھی دیتے کیونکہ وہ اکثر کہتے کہ "میں تعلیم نہیں بیچوں گا"۔ اسی لئے وہ ٹیویوشن نہ پڑھاتے اور اگر لوگوں کے مجبور کرنے پر پڑھاتے بھی تو پیسے نہ لیتے جبکہ علاقے کے لوگ ان کو کہتے رہتے کہ آپ معاوضہ لیا کریں۔

والدِ گرامی نے جو علم کی شمع جلائی وہ ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان آج بھی علم کی ہریالی سے آباد ہے اور تاقیامت یہ فصل اگتی چلی جائے گی اور اہلِ علاقے کے کو باہم فائدہ پہنچاتی رہے گی۔ والدِ گرامی کو باخوبی علم تھا کہ جب وہ دنیا چھوڑ جائیں گے اِس صدقہِ جاریہ کی وجہ سے اُن کا نام ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔ یہی وہ صدقہِ جاریہ ہے جس کا اجر و ثواب والدِ گرامی کو پہنچتا رہے گا اور آنے والی نسلیں والدِ گرامی کے لئے عزت، احترام اور عقیدت سے دعا گو رہیں گیں۔

والدِ گرامی کا یہ نیک کام نہ صرف ان کے لئے بلکہ ہمارے لئے بھی لامتناہی اجر و ثواب کا ذریعہ بن رہا ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بنا کسی دنیوی لالچ کے دوسرے انسانوں اور علاقے کی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ربِ کریم سے دعا ہے وہ آقائے دو جہاں، صحابہ و اہلبیت کے وسیلے سے میرے والدِ گرامی کی بے حساب مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند سے بلند تر ہوتے رہیں آمین ثم آمین۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari