Pakistan Mein Garmi Ki Shiddat, Maholiyati Tabdeeliyan Aur Sadd e Baab
پاکستان میں گرمی کی شدت، ماحولیاتی تبدیلیاں اور سدِباب

پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات جن میں درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشیئرز کا پگھلنا، بے وقت شدید بارشیں، خشک سالی اور سیلاب وغیرہ کا ملکی معیشت، خوراک کی پیداور، پانی کے ذخائر، زیرزمین پانی کی طح میں کمی اور عوامی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مئی 2025 کا مہینہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور انہی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک بھر میں درجہ حرارت معمول سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق سال 2025 کا مئی تاریخ کے گرم ترین مہینوں میں شامل ہو چکا ہے، جس نے ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ صاحبِ اقتدار حلقوں کو اب ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے سنجیدگی سے ان تبدیلیوں کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتِ وقت کو اس بارے قانون سازی اور قوانین پر عملداری کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہر سطح پر آگاہی مہم چلا کر عوام کو بھی ماحول کی بہتری کے لئے عملی اقدامات کرنے کی تاکید کی ضرورت ہے۔ ہر خاص و عام کو ان تمام عوامل کو روکنا پڑے گا جو ماحول پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
پنجاب کے بڑے شہروں سے لے کر سندھ کے صحراؤں اور خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں تک عوام جھلسا دینے والی گرمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ لاہور، ملتان اور جیکب آباد جیسے شہروں میں دن کے اوقات میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے، جبکہ بعض مقامات پر یہ 48 ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔ اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں میں نمی کی زیادتی نے صورتِ حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے، جس سے صحت کے مسائل اور روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔
ملک بھر کے اسپتالوں میں گرمی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ہیٹ اسٹروک اور پانی کی کمی کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر بچے، بزرگ اور باہر کام کرنے والے مزدور ہو رہے ہیں۔
محکمہ موسمیات اور وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 کے بعد شدید گرمی بڑھتی جا رہی ہے اور ماہِ مئی کا اوسط درجہ حرارت 2.2 ڈگری سنٹی گریڈ بڑھا ہے جس کی وجہ سے ہونے گرمی سے ہونے والے واقعات بھی دگنے ہو گئے ہیں۔ ماحولیاتی محقیقین کے مطابق یہ صرف موسمی اتار چڑھاؤ نہیں ہے، یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو ہر سال مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ پاکستان کی زرعی معیشت پر اس موسمی بحران کے سنگین اثرات پڑ رہے ہیں۔
پانی کی دستیابی جو 2009 میں 1500 مکعب میٹرتھی وہ اب کم ہو کر 900 مکعب میٹر تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ فصلوں اور خاص کر گندم کی پیداوار بھی 15% کم ہوئی ہے۔ پانی کی اس کمی کی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ماہِ مئی کے بدلتے حالات کے پیشِ نظر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ہیٹ ویو الرٹس جاری کیے ہیں اور شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت دی ہیں۔ حکومت اور عوام کی طرف سے کچھ شہروں میں پانی کی تقسیم اور ٹھنڈے مقامات قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ موسم کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ پاکستان اُن 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم جرمن واچ کی جانب سے جاری کردہ کلائمٹ رسک انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستان ان ممالک میں پہلے نمبر پر رہا جو 2022 میں شدید موسمی واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہ درجہ بندی 2022 کے تباہ کن سیلابوں کی بنیاد پر کی گئی جن سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ معیشت کو 30 ارب امریکی ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا اور وسیع پیمانے پر انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک تشویشناک اشارہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اب خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔
دوسری جانب، کلائمٹ چینج پرفارمنس انڈیکس (CCPI) 2025 میں پاکستان کو دنیا بھر میں 31ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور توانائی کے استعمال میں نسبتاً بہتر کارکردگی دکھائی۔ تاہم، قومی ماحولیاتی پالیسی اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں کارکردگی انتہائی کمزور رہی۔ پاکستان نے 2030 تک اپنی توانائی کا 60% قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اور بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
یہ درجہ بندیاں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک میں شامل ہے اور اب وقت آ چکا ہے کہ قومی سطح ماحولیاتی تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کی اہمیت ناگزیر ہو چکی ہے۔ اب حکومت اور پالیسی سازوں کو شہری منصوبہ بندی، جنگلات کی بحالی، پانی کی بچت، زمینوں کے لئے جدید آبپاشی کا نظام (ڈرپ ایریگیشن)، شجرکاری، پانی کو محفوظ کرنے کے لئےنئے ڈیم، پرانے ڈیموں کی صفائی اور قابلِ تجدید توانائی (شمسی و ہوائی منصوبے) کی سرمایہ کاری جیسے اقدامات پاکستان کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ عوامی شعور کے لئے اسکولوں، کالجوں اور مساجد میں ماحولیاتی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک مالی و تکنیکی معاونت کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کے تحت چلنے والے ماحولیاتی پروگراموں کا حصہ بننا چاہئیے۔
ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے جسے نظر انداز کرنا نہ صرف کم عقلی بلکہ خودکشی کے مترادف ہے۔ حکومت کو نہ صرف اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی بلکہ ایک جامع، مربوط اور دیرپا حکمت عملی کے تحت حکومتی اداروں، سول سوسائٹی اور عوام الناس کو ایک مقصد کے لئے کام کرنا ہوگا۔ فی الحال، عوام آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالی سے رحمت و کرم کی بارش کے لئے دعا کر رہے ہیں۔

