Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Pak Bharat Kasheedgi, Aman Ki Mout Par Matam

Pak Bharat Kasheedgi, Aman Ki Mout Par Matam

پاک بھارت کشیدگی، امن کی موت پر ماتم

قیامِ پاکستان 14 اگست 1947ء کو ہوا اور اسی لمحے سے جنوبی ایشیا میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ دنیا کے نقشے پر دو ملک پاکستان اور بھارت بن گئے جس کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ انگریز تسلط کے بعد اب برصغیر پاک و ہند میں امن و خوشحالی کا دور ہوگا۔ لیکن یہ عہد امن، ترقی اور بھائی چارے کا نہیں بلکہ بداعتمادی، تنازعات اور محاذ آرائی کا عہد بن گیا۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ابتدا ہی سے کشیدہ رہے ہیں اور آج 75 سال بعد بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا نظر آتے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے وقت ہی مسئلہ کشمیر نے دونوں ممالک کے درمیان پہلی محاذ آرائی کی بنیاد رکھ دی۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت سے الحاق کے فیصلے نے پاکستان کو مشتعل کیا اور 1947-48 میں دونوں ممالک کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔ اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بند تو ہوئی، لیکن کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ آج تک مسئلہِ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان وجہِ جنگ ہوتا ہے اور طبل جنگ یہیں سے بجتا ہے۔ انگریز نے شاید ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے حل نہں کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار رہے اور اس کا تسلط برصغیر چھوڑنے کے بعد بھی قائم رہے۔

1965 میں ایک بار پھر کشمیر ہی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان مکمل جنگ چھڑ گئی۔ آپریشن جبرالٹر اور اس کے بعد لاہور، سیالکوٹ اور کشمیر کے محاذوں پر شدید لڑائی ہوئی۔ 6 ستمبر 1965 کو بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کرکے لاہور پر حملہ کر دیا۔ یہی دن پاکستان میں یومِ دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کی افواج نے لاہور، سیالکوٹ اور دیگر محاذوں پر بھارت کو سخت مزاحمت دی۔

سیالکوٹ کے قریب چونڈہ کا میدان، ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائیوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان کی فوج نے بھارت کے جدید ٹینکوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس معرکے نے پاک فوج کے حوصلے اور عزم کی نئی مثال قائم کی۔ 22 ستمبر 1965 کو اقوام متحدہ اور خاص طور پر سوویت یونین کی کوششوں سے جنگ بندی عمل میں آئی۔ بعد ازاں جنوری 1966 میں وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور صدر ایوب خان نے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ تاشقند معاہدہ کیا مگر دیرپا امن قائم نہ ہو سکا۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا سب سے بڑا دھچکہ 1971 میں لگا، جب بھارت نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں عملی مداخلت کی۔ اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اس واقعے نے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کو کئی گنا بڑھا دیا۔

1998 میں دونوں ممالک نے جوہری دھماکے کیے اور ایٹمی طاقت بنے۔ دنیا کو خدشہ ہوا کہ یہ دشمنی اب ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ 1999 میں کارگل کی جنگ نے اس خدشے کو مزید تقویت دی۔ یہ ایک محدود جنگ تھی، لیکن عالمی سطح پر شدید تشویش کا باعث بنی۔

گزرتے وقت کے ساتھ بھارت نے جنگ چھیڑنے کی غرض سے فالس آپریشن کئے اور اُن کے الزامات پاکستان پر لگا دئیے۔ 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا۔ اس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات بدترین سطح پر چلے گئے۔ دونوں ممالک نے کئی مرتبہ جنگ کے دہانے پر پہنچنے کے بعد خود کو روکا۔ 2016 میں بھارت نے "سرجیکل اسٹرائیک" کا دعویٰ کیا، جبکہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بالاکوٹ پر فضائی حملے کا۔ پاکستان نے جوابی کارروائی میں بھارتی مِگ 21 کے پائلٹ گروپ کپٹن ابی نندن وردھمان کو 27 فروری 2019 کو گرفتار کر لیا، جسے بعد ازاں پاکستان نے خیرسگالی کے طور پر رہا کر دیا گیا۔ اس خیرسگالی کو مقصد تھا کہ بھارت اس چیز کا ادراک کرے کہ پاکستان کوئی تر نوالہ نہیں اور اس محاذ آرائی کو ختم کرے۔ مگر اسی سال بھارت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے کشمیر کی خودمختاری ختم کر دی، جس پر پاکستان نے شدید ردعمل دیا۔

22 اپریل 2025 کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک دہشت گرد حملے میں 26 ہندو سیاح ہلاک اور 17 زخمی ہوئے۔ حملہ آوروں نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں اور انہوں نے سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان میں قائم عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ پر عائد کیا، جس کی پاکستان نے تردید کی۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ بھارت نے پاکستانی سفارتکاروں کو ملک بدر کیا، انڈس واٹر ٹریٹی معطل کی اور سرحدی راستے بند کر دیے۔

جواباً پاکستان نے شملہ معاہدہ معطل کیا، تجارتی روابط منقطع کیے اور فضائی حدود بند کر دی۔ بزدل بھارت نے 6 اور 7 مئی کی رات کو "آپریشن سندور" کے تحت پاکستان پر فضائی حملے کیے، جن میں 31 معصوم افراد شہید ہوئے۔ پاکستان نے فوراً جواب دینے کی بجائے تحمل و بردباری سے کام لیتے ہوئے نے "آپریشن بنیان مرصوص" کے تحت بھرپور جوابی کارروائی کی، جس میں میزائل حملے اور ڈرونز کا استعمال کیا گیا جس سے بھارت کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔ ان تابوڑ توڑ حملوں کے بعد بھارت کے ہوش ٹھکانے آئے، امریکی صدر کی ثالثی میں جنگ بندی معاہدہ ہوا جو شام 4 بجے سے نافذ العمل ہوا۔ امریکی صحافی نک رابرٹسن نے بتایا کہ پاکستان کے میزائل حملوں کے بعد پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا اور پھر مذاکرات کی میز پر آیا۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے سعودیہ اور ترکی کے وزرائے خارجہ کی مدد سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کر دی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ جنگ بندی دیر پا ثابت ہوگی یا پھر بھارت فالس آپریشن کرکے خطے کو جنگ کی طرف دیکھلے گا جیسا کہ گزشتہ ادوار میں دیکھا گیا ہے۔ بھارت نے اپنے نقصانات کو تسلیم کر رہا اور سفارتی طور پر خود کو مظلوم دکھانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ اس جنگ سے پاکستان نے اپنی طاقت، جرات و بہادری اور مہارت سے دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ بھارت ان جنگوں سے سبق سیکھے تاکہ مستقبل کو امن، ترقی اور بھائی چارے کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari