Nemat e Khudawandi Aur Shukr Guzari
نعمتِ خداوندی اور شکرگزاری

شکر ادا کرنا ایک کفیت، سوچ، اظہار اور سکونِ قلبی کا نام ہے اُن نعمتوں پر جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو عطا کی ہیں۔ شکر ادا کرنا نعمتوں کی حفاظت، بقا اور اُن میں اضافے کا ذریعہ ہے۔ شکر ادا کرتے رہنے سے انسان اللہ تعالی کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاتا ہے جو کہ نہ صرف باعثِ نجات بلکہ ذریعہِ اجر و ثواب ہے۔ شکرگزاری درحقیقت ملنے والی نعمتوں کی قدر و منزلت کا نام ہے۔ جب انسان کو نعمت کی قدر ہوتی ہے تو اُس کے اظہار کا طریقہ دل، زبان، آنکھ حتیٰ کہ سارے جسمانی اعضاء شروع کر دیتے ہیں۔ شکر گزار بندے اللہ تعالی کو انتہائی پسند ہیں اور اللہ تعالی خود شکرگزاری کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے "اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرواگر تم اُس کی عبادت کرتے ہو (البقرہ، 172)"۔
اگر انسان صرف اپنے اعضاء پر ہی غور و حوض کرے تو ہمیشگی شکرگزاری کی کیفیت میں ہی رہے۔ اللہ تعالی بھی انسان کو اس کی سماعت، عقل و بصارت اور جسمانی اعضاء پر شکر ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے" اور اس نے تمھاری کان، آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکرگزار بنو (النحل 78)"۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنا نہ صرف اعترافِ بندگی ہے بلکہ نعمتوں میں اضافے کا ذریعہ بھی ہے۔ شکر ادا کرنے والے کے لئے ایک لفظ "شاکر"ہے اور دوسرا لفظ "شکور" ہے۔ "شاکر" وہ ہے جو نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور "شکور" وہ ہے جو مصیبتوں، تکلیفوں اور آزمائشوں پر بھی شکر ادا کرتا ہے۔ مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے جس بارے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںؒ فرماتے ہیں:
رزقِ خدا کھایا کِیا، فرمانِ حق ٹالا کِیا
شکرِ کرم ترسِ سزا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
بزرگانِ دین سے بھی ہمیں شکرگزاری کے مختلف انداز و افعال ملتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنی زندگیوں میں اظہارِ شکر کیا۔ حضرت سیِّدُنا امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا داؤدؑ نے عرض کی: "اے میرے رب! اگر میرے ہر بال کی دو زبانیں ہوں اور وہ دن رات تیری پاکی بیان کریں تب بھی میں تیری کسی ایک نعمت کا کماحقہ شکر ادا نہ کر سکوں گا"۔ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے ہیں: "اللہ کی نعمتوں کو شکرکے ذریعے محفوظ کر لو"- حضرت سیدنا مطرف بن عبداللہؒ فرماتے ہیں: "عافیت پر شکر کرنا مجھے مصیبت پر صبر کرنے سے زیادہ محبوب ہے"- حضرت سیدنا ابو حازمؒ نے فرمایا: "جب تم دیکھو کہ تمہاری نافرمانی کے باوجود اللہ تمہیں مسلسل نعمتیں عطافرما رہا ہے تو اس سے ڈرو"- حضرت سینا امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ "نعمت کا بکثرت ذکر کیا کرو کیوں کہ اس کا ذکر اس کا شکر ہے"-
شکرگزاری کے مختلف درجات ہیں جن میں پہلا اور اہم درجہ نعمتوں کا شعور و احساس پیدا ہونا ہے کہ ہم پر ہر لمحہ نعمت و رحمتِ خداوندی کا نزول ہو رہا ہے۔ دوسرا درجہ دل میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا اور اس بات کو دل سے ماننا کہ جتنی بھی نعمتیں انسان کو ملی ہیں وہ سبِ فضلِ ربی ہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے اظہار کرے اُن نعمتوں کا جو اُس کے رب نے اُسے عطا کی ہیں جیسے "جزاک اللہ"، "الحمد اللہ" وغیرہ کہنا۔ چوتھا درجہ اپنے اعمال و عبادات کے ذریعے اظہارِ شکرگزاری کرے اور کبھی بھی ناشکری کے الفاظ زبان پر نہ لائے، ہر حال میں اطاعتِ ربی میں مصروف رہے، رب کے بندوں کی مدد کرے اور اُن کے لئے آسانیاں تقسیم کرے یعنی اپنے آپ کو رب کے سامنے جھکا دے، Surrender کر دے۔
پانچواں درجہ کہ ہر ملنے والی نعمت پر صدقہ ادا کرنا ہے۔ اس صدقہ بارے حضرت ابو ذرؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم صبح کرتے ہو تو تم پر ایک ایک جوڑ کے بدلے) بطور شکر (صدقہ ادا کرنا واجب ہے اور دیکھو، سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے۔ الحمد للہ کہنا صدقہ ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔ اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔ برائی سے منع کرنا صدقہ ہے اور اگر کوئی شخص اس دن میں چاشت کی دو رکعت ادا کر لے تو اس نے اس دن کے ہر جوڑ کا شکر ادا کردیا"۔ شکر کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ انسان گناہوں سے کنارا کشی اختیار کر لیتا ہے اور انہیں چھوڑ دیتا ہے۔
بلاشبہ نعمتوں کے ملنے پر شکر ادا کرنا اُن جذبات کا اظہار ہے جو رب اور بندے کے درمیان ہیں اور یہ اظہار اس تعلق کو اور مضبوط کر دیتا ہے۔ جب بندہ شکر ادا کرتا ہے تو رب بھی خوش ہوتا ہے اور انسان پر اپنے فضل و کرم اور عطاؤں کی بارش برسا دیتا ہے۔ فرمانِ ربی ہے "اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا (ابراھیم، 7)"۔

