Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (5)

Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (5)

میں ہوں پاکستان، سنو میری کہانی (5)

جب ہم تحریکِ پاکستان کے عوامل اور تحریکِ آزادیِ ہند کے دور کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ مارچ کا مہینہ ہماری قومی زندگی اور تاریخ میں بہت ہی منفرد حثیت رکھتا ہے۔ اس مہینے میں بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جن کا تحریک و تشکیلِ پاکستان میں اہم کردار رہا ہے۔ اس مہینے میں سب سے بڑا اور اہم واقعہ جو رونما ہوا اُسے تاریخ میں"قراردادِ لاہور" اور بعد میں قراردادِ مقاصد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کچھ واقعات قیامِ پاکستان سے قبل کے ہیں اور کچھ قیامِ پاکستان کے بعد تاریخ کا حصہ بن کرآنے والی نسلوں کے لئے مقصود منزل بنے۔

قرارداد لاہور 23 مارچ 1940 کو پیش کی گئی اور اُسے 24 مارچ 1940 کو منظور کیا گیا۔ قرارداد کی منظوری کے بعد قائدِاعظمؒ نے ایک اخبارکو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد میں ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد کو لکھنے اور مسودے کی تیاری کے لئے زیرک رہنماؤں سے استفادہ کیا گیا جہنوں نے بڑی مستعدی اور حاضر دماغی سے یہ مسودہ لکھا۔ مسودے کی تیاری اور تحریر کو کئی بار لکھا اور پرکھا گیا۔ حکومتِ برطانیہ نے اپنے طور پر بھرپور کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح قائدِ اعظمؒ کو قرارداد پیش کرنے سے دستبردار کیا جائے مگر قائدِ اعظمؒ کسی دباؤ میں نہ آئے اور وہ آزاد مملکت کے مطالبے سے کبھی بھی دستبردار نہ ہوئے اور اجلاس ملتوی کرنے پر بھی کسی طور رضامند نہیں ہوئے۔

قرارداد کے مسودے کی تیاری کے دوران اس میں کئی بار ترامیم کی گئیں۔ اس مقصد کے لئے مسلم لیگ کی ایک ورکنگ کمیٹی بنائی گئی جس کا اجلاس 21 مارچ 1940 کو لاہور میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں قرارداد کی ڈرافٹنگ کے لئے تحریک پاکستان کے سرکدہ رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی۔ اس کیمٹی میں بانی پاکستان قائدِاعظمؒ محمد علی جناح، سرسکندر حیات، ملک برکت علی اور نواب اسماعیل خان شامل تھے۔ بنیادی ڈرافٹ سرسکندر حیات نے تیار کیا جسے قائدِ اعظمؒ نے منظورکر لیا۔

22 مارچ 1940 کو رات 8 بجے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا، قرارداد کوٹائپ کیا گیا، اس دوران قائدِاعظمؒ نے اراکینِ کمیٹی کے ساتھ دو قومی نظریے پر طویل اور پُرمغز گفتگو کی جس میں اُنھوں نے قیامِ پاکستان اور مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے مطالبے کے بارے میں کھل کر اپنا موقف بیان کیا۔ قرارداد کے مسودے کو سر لیاقت علی خان نے پڑھ کر کمیٹی کو سنایا جبکہ مولانا ظفر علی خان نے اُس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ اراکین نے مشاورت کیلئے مزید وقت مانگتے ہوئے اگلے دن 11 بجے تک ملتوی کر دیا۔ اگلے دن مسودے میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور منظور کر لیا گیا۔

قرارداد کی حتمی منظوری کے لیے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا، یہ جلسہ 23 مارچ 1940 کو ہوا۔ جلسے کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک اور نعت شریف پڑھ کر کیا گیا اور اُس کے بعد قرارداد پیش کی گئی۔ سب سے پہلے چودھری خلیق الزمان نے قرارداد کی تائید کی، اُن کے بعد مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگزیب اور عبداللہ ہارون نے اس کی حمایت کی۔ تاخیر ہونے کی وجہ سے اجلاس کو عشاء کی نماز کے بعد اگلے دن تک ملتوی کر دیا گیا۔ اگلے دن 24 مارچ 1940 کو قرارداد کے حق میں تقاریر ہوئیں۔ اجلاس میں اراکین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ اجلاس میں متفقہ طور پر قرارداد کو منظور کر لیا گیا جس سے مسلمانوں کے لئے ایک نئی صبج کا آغاز ہوا، منزل کا تعین واضح ہوگیا اور8 سال کے مختصر عرصے میں پاکستان دینا کے نقشے پر ایک اسلامی ملک کی حثیت سے ابھرا۔

مارچ کے مہینے کا دوسرا اہم واقعہ قراردادِ مقاصد کی منظوری تھی جسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 21 مارچ 1949 کو منظور کیا۔ اس قرارداد کا بنیادی اور عام فہم مفہوم یہ تھا کہ "حاکمیت اعلی اللہ تعالی کی ہے اور پاکستان میں قرآن و سنت کے برخلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا"۔ قرارداد میں اس عبارت کے پیچھے قائدِاعظمؒ کا سرحد کا وہ دورہ شامل ہے جس میں آپ نے وہاں پیر آف مانکی شریف کے ساتھ ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوان پیر صاحب نے قائداعظمؒ کو واضح طور پر بتا دیا کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہ بنایا جائے۔

تیسرا اہم واقع جو مارچ کے مہینے میں ہوا وہ پاکستان کے پہلے دستور کا نفاذ تھا جو 23 مارچ 1956کو ہوا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک کا پہلا دستور9 سال کی تاخیر سے بنایا گیا جس سے بہت ساری خرابیاں وقوع پذیر ہوئیں مگر پھر بھی یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اس دستور میں پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ پاکستان" قرار دیا گیا۔ مگر یہ بھی ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ دستور کو 1958 میں مارشل لاء لگا کر منسوخ کر دیا گیا اور آئین پامال کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی جس کے اثرات پاکستان آج تک بھگت رہا ہے اور ایک حصہ ہم سے جدا ہوگیا۔ اگر آئین شکنی نہ ہوتی توسارے صوبے اکھٹے ہوتے اور پاکستان کا ڈھانچہ اس آئین کی روسے مضبوط ہوتا۔ مارچ کا مہینہ اور قراردادِ لاہور کی منظوری نے پاکستان کے قیام کی راہیں واضح کر دیں اور مسلمانوں کو الگ وطن کے حصول کی منزل مل گئی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari