Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (4)

Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (4)

میں ہوں پاکستان، سنو میری کہانی (4)

تعلیمی اہمیت اور سرگرمیوں کے بعد اب سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کاہندوستان کی سیاست میں حصہ لینا تھا کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کی کانگرس کی حمایت صرف ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور مسلمانوں کے مسائل کے ساتھ اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سر سلیم اللہ خان نے تجویزدی کہ دسمبر 1906 کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرس کے بعد مسلمان رہنماوؤں کا اجلاس بلایا جائے اور آل انڈیا مسلم کنفیڈریشن کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی جائے۔ اُس اجلاس کی صدارت نواب وقارالملک نے کی اور صدارتی خطبے میں قرارداد پیش کی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلم سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لایا جائیگا۔

مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائی گئی جماعت کا آئین 1908 میں وضع کیا گیا۔ سر سلطان محمد آغا خان (سوم) کو صدر، نواب محسن الملک اور نواب وقارالملک کو مشترکہ جوائنٹ سیکڑی مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد قائداعظمؒ کی شمولیت کی وجہ سے جماعت کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان تعاون کا مختصر دور شروع ہوا جسکا نتیجہ 1916 میں میثاقِ لکھنو کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس معاہدہ کے نتیجے میں اگلے پانچ سال تک ایک عارضی مگر اہم دور شروع ہوا۔ مسلمانوں کو اس معاہدہ سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ کانگرس نے مسلم لیگ کا جداگانہ طرزِ انتخاب کا اصول بغیر کسی شرط کے تسلیم کر لیا۔ یہ اتحاد تحریکِ خلافت کے اختتام تک جاری رہا۔

28 جولائی 1914 میں پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی جس میں ترکی نے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ ترکی کے اس فیصلے سے ہندوستان کے مسلمانوں کو انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے برطانیہ نے اعلان کیا کہ جنگ کرنے کا فیصلہ برطانیہ نے نہی بلکہ ترکی نے خود کیا ہے۔ جنگ میں کامیابی کی صورت میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کا تحفظ کیا جائے گا اور سلطنتِ عثمانیہ کی سالمیت کو نقصان نہی پہنچایا جائے گا اور خلافت برقرار رکھی جائے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں نے برطانیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ برطانیہ کو فتح ہوئی مگر جنگ کے اختتام پر برطانیہ اپنے وعدوں سے مکر گیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکرے ٹکرے کر دیے جس کا مسلمانوں کو بہت دکھ ہوا۔

مسلمانوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے تحفظ اور خلیفہ کے اختیارات اور احترام کو بحال کرانے کیلئے "تحریکِ خلافت" کے نام سے تحریک شروع کی اور 22 مئی 1919 کو آل انڈیا خلافت کمیٹی کی بنیاد رکھی اور اگلے دن دہلی میں خلافت کانفرس منعقد کی۔ کانفرس کی صدارت مولوی فضل الحق نے کی اور گاندھی جی نے بھی کانگرس کی طرف سے تعاون کا فیصلہ کیا۔ جنوری 1920 میں مسلمانوں کے ایک وفد نے وائسرائے سے ملاقات کی اور خلافت کے مسئلے پر مطالبات سے آگاہ کیا۔

مارچ 1920 میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد نے یورپ کا دورہ کیا اور برطانوی وزیرِاعظم دیوڈلائیڈ جارج سے ملاقات کی مگر بدقسمتی سے اس دورے کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ گاندھی جی نے تحریکِ عدم اعتماد شروع کی اور مولانا محمد علی جوہر سے مل کر سارے ہندوستان کا دورہ کیا جس میں لوگوں کو تحریکِ خلافت اور تحریکِ عدم اعتماد سے تعاون اور اس میں حصہ لینے کی تلقین کی۔ رہنماوؤں کی اس کال پر لوگوں نے بھرپور حصہ لیا، ہندوستانیوں نے اپنے خطبات حکومتِ برطانیہ کو واپس کر دیے اور برطانیہ کے جشنِ فتح کا بائیکاٹ کیا۔

تحریکِ خلافت اور تحریکِ عدم تعاون زوروشور سے جاری تھی تو اسی دوران یوپی میں کچھ لوگوں نے پولیس والوں کو تھانے میں بند کرکے آگ لگا دی اور گاندھی جی نے یہ کہہ کر تحریک ختم کردی کہ اب اس تحریک میں تشددکا پہلو آ گیا ہے۔ تحریکِ عدم تعاون کے خاتمے کے بعد تحریکِ خلافت کچھ عرصہ جاری رہی مگر اس کا زور بھی کافی حد تک ٹوٹ گیا۔ اس دوران ترکی میں کمال اتاترک کی قیادت میں ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی نے خلافت کے خاتمہ کا اعلان کر دیا جسکے بعد تحریکِ خلافت کو جاری رکھنے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔ تحریکِ خلافت سے مسلمانوں کو بظاہر کوئی خاص کامیابی تو نہ ہوئی مگر مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر عوامی تحریک کو منظم کرنے اور تحریک کو چلانے کا تجربہ ہوگیا جس نے مستقبل میں تحریکِ پاکستان کی مہم میں اہم کردار ادا کیا۔

گورنمنٹ انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت فروری مارچ 1937 میں صوبائی اسمبیلوں کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ کی کارکردگی مایوس کن رہی جبکہ کانگرس نے 11 میں سے 8 ہندو اکثریتی صوبوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے بعد ہندوؤں نے اپنی حکومت بنائی اور مسلمانوں کے لئے طرح طرح کی مشکلات کا باعث بنے۔ یکم ستمبر 1939 میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا، کانگرس نے برطانیہ کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھایا، اپنے مطالبات پیش کئے مگر برطانیہ نے تمام مطالبات کو مسترد کر دیا جس کے ردعمل کے طور پر اکتوبر 1939 میں کانگرس نے وازارتوں سے استعفی دے دیا۔ قائداعظمؒ نے مسلمانوں کو 22 دسمبر 1939 کو یومِ نجات کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ ہندوؤں کے غیر منصفانہ رویوں کے نتیجے میں مسلم رہنماوؤں نے الگ مسلم ریاست کا مطالبہ کر دیا اور باقاعدہ اعلان 23 مارچ 1940 کو بنگال کے وزیرِ اعلی مولوی فضل الحق نے تاریخی اجلاس جسے "قراردادِ لاہور" کا نام دیا گیا میں کیا اور 24 مارچ 1940 کو منظوری دے دی گئی۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران حکومتِ برطانیہ کو ہندوستان کے لوگوں اور سیاسی جماعتوں کے تعاون کی اشد ضرورت تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے 23 مارچ 1946 میں سر سٹیفورڈ کرپس کو چند تجاویز کے ساتھ ہندوستان بھیجا گیا۔ کرپس مشن کا مقصد ہندوستان کی عوام اور سیاسی جماعتوں کی خوشنودی کا حصول اور جنگ میں برطانیہ کے ساتھ تعاون پر آمادہ کرنا تھا۔ کانگرس نے مشن کی تجاویز مسترد کر دیں کیونکہ پیش کردہ تجاویز میں پاکستان بننے کی راہیں ہموار ہو رہی تھیں جو کانگرس کو کسی طور پر بھی منظور نہی ہو سکتاتھا۔

دوسری طرف مسلم لیگ نے ان تجاویز کو اس لئے مسترد کر دیا کہ اس میں واضح طور پر پاکستان کے قیام کی ضمانت نہیں دی گئی۔ دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے تجاویز مسترد ہونے سے کرپس مشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مشن کی ناکامی کے بعد قائدِاعظمؒ اور گاندھی کے درمیان ملاقاتوں اور خطوط کا تبادلہ شروع ہوا جسے تاریخ میں"گاندھی جناح مذاکرات" کے نام سے جانا جاتاہے۔ مگر ان مذاکرات کا بھی کوئی معنی خیز نتیجہ نہ نکل سکا۔ وائسرائے لارڈ ویول نے 1945 میں شملہ میں ہندوستان کے رہنماوؤں کی کانفرس بلائی۔ پانچ مسلم اراکین پر مشتمل وفد اس کانفرس میں شامل ہوا اور یہ واضح کر دیا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائدہ جماعت ہے۔ تاہم یہ کانفرس بھی کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ہی ختم ہوگئی۔

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر وائسرائے لارڈ ویول نے مرکزی و صوبائی مجالس قانون ساز کیلئے انتخابات کا اعلان کیا۔ دسمبر 1945 میں مرکزی اسمبلی اور فروری 1946 میں صوبائی اسبمیلوں کے انتخابات ہوئے۔ مسلم لیگ کا منشور مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا قیام تھا، مسلم لیگ نے مرکزی مجلسِ قانون ساز میں مخصوص نشتیں جیت لیں اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی واضح اکثریت حاصل کر لی۔ 24 مارچ 1946 میں آئینی مسئلے کے حل کے لئے برطانیہ نے تین اراکین پر مشتمل وفددہلی پہنچا۔ کابینہ مشن کے ارکان نے مئی 1946 میں شملہ کے مقام پر کانگرس اور مسلم لیگ کے رہنماوؤں کی کانفرس بلائی جو بے نتیجہ رہی اور 21 مئی 1946 کو کانفرس کی ناکامی کا اعلان کر دیا گیا۔ کابینہ مشن نے شملہ کانفرس کی ناکامی کے بعد 16مئی 1946 کو اپنی نئی تجاویز پیش کیں جنہیں مسلم لیگ اور کانگرس نے اصولی طور پر منظور کر لیا جبکہ عبوری حکومت کے مطلق شرط کو کانگرس نے مسترد کر دیا کیونکہ اصولی طور پر مسلم لیگ عبوری حکوطت بنانے جا رہی تھی۔

اس چال کے بعد وائسرائے نے عبوری حکومت کا قیام مؤخر کر دیا اور کانگرس سے گٹھ جوڑ کرکے 12 اگست 1949 وپنڈت جوال لال نہروکو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ مسلم لیگ نے اس فیصلہ پر بھر پور احتجاج کیا اور منصوبے کی منظوری کا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ نے 16 اگست1947 کو "راست اقدام" کا دن منانے کا اعلان کردیا، اس پر کانگرس نے مطالبہ کیا کہ مسلم لیگ کو حکومت سے علیحدہ کردیا جائے اور دھمکی دی کہ ایسے نہ کرنے کی صورت میں کانگرسی اراکین استعفی دے دیں گے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali