Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (3)

Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (3)

میں ہوں پاکستان، سنو میری کہانی (3)

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد اور اشاعتِ اسلام کا فروغ عربوں کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوا جس کی وجہ سے اس خطے میں اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ عرب میں اسلام کے ظہور کے بعد مسلمان بزرگانِ دین نے تبلیغ و اشاعتِ اسلام کے لئے جنوبی ایشاء کا رخ کیا۔ دعوت و تبلیغ کے اس عمل نے بھی تحریک پاکستان کو ایک نیا رخ دیا۔ مذہبی روسومات کی بنا پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے لئے الگ الگ ریاست کا ہونا لازمی بن گیا کیونکہ دونوں قوموں کے نظریات سراسر ایک دوسرے سے مختلف تھے اور دونوں قوموں کا اکھٹا رہنا کسی طور بھی ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا اور بانیِ پاکستان کے فرمودات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام ہی پاکستان کی نظریاتی اساس بنا۔

جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو سندھ اور ملتان میں عربوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ ہر شہر اور قصبہ میں مساجد بنائی گئیں اور اسلامی علوم کی تدریس و ترویج کا سلسہ تیزی سے شروع ہوگیا۔ دوسری طرف شمالی ہندوستان میں اشاعتِ اسلام کا کام سلطان محمود غزنویؒ کے دور سے شروع ہوا۔ شیخ اسماعیل بخاریؒ لاہور تشریف لائے اور آپ نے جب دعوتِ اسلام کا شروع کا تو سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اسی دور میں شیخ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ بھی لاہور تشریف لائے اور لاکھوں لوگوں کو دائرہِ اسلام میں شامل کیا۔ اسی طرح سلطنتِ دہلی کے قیام کے بعد ہندوستان میں اسلامی علوم و فنون کو فروغ حاصل ہوا اور مسلم معاشرہ تشکیل پذیر ہوا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے اجمیر میں اسلامی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جبکہ حضرت فرید الدین گنجِ شکرؒ نے پاک پتن میں دعوتِ اسلام کا کام شروع کیا۔ اسی دور میں نظام الدین اولیاؒ سے لے کراور دوسرے بہت سارے صوفیاء اور بزرگانِ دین نے اشاعتِ اسلام میں بنیادی کردار ادا کیا۔

شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت کی بنیاد 112 عیسوی میں شہاب الدین محمد غوریؒ نے رکھی اور اُن کی وفات کے بعد 1206 عیسوی میں قطب الدین ایبک نے خاندانِ غلاماں کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد مغل حکمرانوں کا دورِ اقتدار 1562 عیسوی سے 1857 عیسوی تک رہا۔ مغل دور کے پہلے چھ (6) حکمران نہایت ذہین، قابل اور جنگجو تھے، اس کے بعد کمزور اور نااہل حکمرانوں کا دور شروع ہوا جو 1707 عیسوی سے 1857 عیسوی تک تھا۔

مغل دورِ حکومت کا اختتام آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی معزولی اور گرفتاری پر ہوا۔ اسی دور میں برصغیر پاک و ہند میں یورپی اقوام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ اُس وقت صرف تجارتی سرگرمیوں تک محدود تھا۔ جب ہندوستان میں مغلوں کا اقتدار کمزور ہوتا نظر آیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا اور آہستہ آہستہ ہندوستان کی اندرونی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کی غرض سے ہندوستان آئی مگر اُس نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی باقاعدہ فوج بنائی اور قلعوں کی تعمیرات بھی شروع کردیں۔

انگریزوں نے ہندوستان پر اقتدار قائم کرنے کے بعد بہت ساری پالیسیاں بنائیں جن کے ہندوستان کے لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ خاص طور پر اقتصادی پالیسیاں ایسی بنائی گئیں جن کی وجہ سے ہندوستان کے لوگ معاشی بدحالی کا شکا ہو گئے۔ 1857 عیسوی میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی۔ انگریز تاریخ دان اس جنگ کو "غدر" جبکہ برصغیر کے تاریخ دان "جنگِ آزادی" کا نام دیتے ہیں۔ اس جنگ میں آزادی کے متوالے بڑی جانفشانی سے لڑے مگر ہندوؤں کی اندرونی سازشوں اور نااتفاقیوں کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور انگریز جنگ جیت گیا۔

اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا کیونکہ ہندوؤں نے اندرونی سازشوں کے جال بن رکھے تھے اور مسلمانوں کا خون بھانے میں اہم کردار ادا کیا اور جنگ میں ناکامی کی ساری وجوہات مسلمانوں پر ڈال دی گئیں جسکی وجہ سے انگریزوں نے مسلمانوں سے بدترین انتقام لیا اور سخت ترین سزائیں دیں۔ انتہا پسند ہندوؤں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور مسلمانوں سے کئی سال حکومت کرنے کا بدلا لینے کے لئے اچھا موقع جانا۔ ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کر لیا، انگریزی زبان سیکھی، ملازمتیں حاصل کئیں اور انگریز کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے۔ جنگِ آزادی کے وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد تقریباََ پانچ کروڑ تھی مگر پھر بھی وہ محکوم اقلیت بن چکے تھے۔

جنگ آزادی میں ناکامی اور ہندوؤں کی سازشوں کو سب سے پہلے سر سید احمد خان نے اجاگر کیا اور مسلمانوں کو پیش آمدہ مشکلات سے نکالنے میں لگ گئے تاکہ انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان حائل خلا کو پُر کیا جا سکے جو کہ ہندوؤں نے سازش کرکے پیدا کر دیا تھا۔ سرسید احمد خان مغربی علوم کے حصول اور انگریز کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں تھے۔ سرسید احمد خان نے ہر میدان میں اپنی تحریروں اور تقرریوں کے ذریعے مسلمان قوم کی بھلائی کے لئے عظیم خدمات انجام دیں۔ مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے اور دونوں کو قریب لانے کے لئے اپنی کوشیشیں جاری رکھیں۔ انتہا پسند ہندوؤں کے رویوں کو دیکھتے ہوئے اور اُن سے دل گرفتہ ہو کر سرسید احمد خان نے دو قومی نظریہ بھی پیش کر دیاجو بعد میں"نظریہِ پاکستان" کی بنیاد کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہوا۔

سرسیداحمد خان نے 1859 عیسوی میں مراد آباد اور بعد میں غازی پور کے مقام پر اسکول بنائے تاکہ مسلمان جدید تعلیم حاصل کرکے انگریز حکومت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ سر سید احمد خان نے 1863 عیسوی میں"سائنٹیفک سوسائٹی" کے نام سے ایک ادارہ بنایا جسکا بنیادی مقصد یورپی زبان میں لکھے علوم کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ پھر1870 عیسوی میں آپ نے "انجمنِ ترقیِ مسلمانانِ ہند" کے نام سے ایک کمیٹی بنائی جس کا کام جدید علوم و فنون اور دورِ حاضر کے تعلیمی تقاضوں پر غوروعوض کرنا تھا۔ اسی کمیٹی نے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے علی گڑھ کے مقام پر کالج بنانے کی تجویز پیش کی۔ 1875 عیسوی میں کالج کی طرف پہلا قدم اُٹھایا گیا جب علیگڑھ کے مقام پر اسکول قائم کیا گیادو سال بعد اسکول کو کالج کا درجہ دیا گیااور 1877 عیسوی میں وائسرائے لارڈ لٹن نے "محمڈن اینگلو اورینٹل" کالج کا سنگِ بنیاد رکھا۔

مسلمان رہنماوؤں نے حالات کے تناظر میں یہ بھانپ لیا تھا کہ اب ان دو قوموں یعنی مسلمانوں اور ہندوؤں کا ایک ساتھ اکٹھے رہنا کسی طور بھی ممکن نہی۔ انتہا پسند ہندوؤں پہلے ہی انگریز سے گٹھ جوڑ کر چکے تھے اور مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود بھی محکوم بننے پر مجبور تھے۔ اب مسلمان رہنماوؤں پر ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ مسلمان قوم کو ان مشکل حالات سے نکالیں تاکہ وہ جدید علوم اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرکے انگریز حکومت کا حصہ بنیں اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔ ان تمام مسائل کے حل کے لئے سب سے پہلے سر سید احمد خان میدان عمل میں اترے اور مسلمانوں پر جدید یورپی علوم اور انگریزی تعلیم کے حصول کے لئے ادارے قائم کئے۔ تحریک پاکستان میں صوفیاء کرام اور مسلمان حکمرانوں کا کردار اور جدوجہد کا بھی بہت اہم اور تاریخی کردار رہا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam