Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (2)
میں ہوں پاکستان، سنو میری کہانی (2)

تصورِ پاکستان و بنیادِ پاکستان ایسے عوامل ہیں جو تحریکِ پاکستان کے محرک و محور بنے۔ ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کیسے بنا اور کس کس نے اس کے بننے کا خواب دیکھا، کس نے تصورِ پاکستان دیا اور کس نے اس تصور اور خواب کو حقیقت کا روپ دیا؟
1875 میں جب مسلمانوں کا سات سو سالہ اقتدار ختم ہوا تو وہ ایک طرف ہندوؤں اور دوسری طرف انگریزوں کے زیرِ تسلط و عذاب آگئے۔ ان حالات میں ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ ہندوؤں اور انگریزوں کے غلام بن کے رہیں یا پھر ان دونوں طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہدکریں۔ ان کٹھن حالات میں جو مرد مجاہد سامنے آیا وہ ڈاکٹر، شاعر، فلسفی علامہ محمد اقبالؒ تھے۔
علامہ اقبال نے یہ تصور پیش کیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک ہونا چائیے۔ اس تصور نے نہ صرف مسلمانوں میں نیا جوش و ولولہ پیدا کیا بلکہ مسلمان رہنماؤں نے شاعرِ مشرق کے اس تصور کے حصول کے لیے دن رات کام شروع کر دیا۔ یہ قانونِ فطرت ہے اور دستورِ دنیا ہے کہ ہم جب بھی کوئی عمار ت تعمیر کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے لیے جگہ کا تعین کرتے ہیں۔ جگہ مقرر ہونے کے بعد اگلا کام عمارت کا نقشہ بنانا ہوتا ہے جس کے مطابق عمارت کی تعمیر ہوتی ہے۔ نقشہ مکمل ہونے کے بعد مقرر کردہ جگہ پر بنیادیں کھودی جاتی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ معمولی سی معمولی عمارت بنانے کے لئے بھی سب سے پہلے عمارت کا خاکہ ہونا بہت ضروری ہے تاکہ تعمیر کا کام باآسانی اور بغیر کسی نقص کے کیا جا سکے۔ بغیر کسی نقشے، خاکے اور ارادے کے کسی بھی عمارت کی تکمیل کا عمل کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ جب ہم تصورِ پاکستان کی بات کرتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حصولِ پاکستان کے لئے کوئی نقشہ یا خاکہ نہ بنایا گیا ہو؟ تاریخی شواہد ہمیں بتاتے ہیں کہ مسلمانانِ ہند کے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ اور اس کا خاکہ بہت پہلے بن چکا تھا جسے بعد میں علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مکمل کیا۔
تحریکِ پاکستان ایک ایسی عملی تحریک تھی جس کا واحد مقصد ایک ایسے وطن کی تعمیر تھی جہاں مسلمان اپنی آزادانہ زندگی گزارا سکیں۔ اس تحریک نے پاکستان کی عمارت کی تکمیل کے لئے کی جانے والی تمام کوششوں کو بروقت مکمل کرکے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے طور پر بنایا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس عظیم عمارت کی پہلی اینٹ کب رکھی گئی؟ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ بنیادِ پاکستان کی پہلی اینٹ شہاب الدین غوری نے 1192 میں اُس دن رکھی جب اُنھوں نے پرتھوی راج کوجنگ سے پہلے خط لکھ کر شرائط بھجوائیں۔
اس خط میں شہاب الدین غوری نے بڑے واضح الفاظ میں پرتھوی راج کو لکھا کہ اگر تم صلح کرنے چاہتے ہو تو مجھے پنجاب، سندھ اور سرحدکے علاقے دے دو اور باقی ماندہ ہندوستان کے علاقے تم رکھ لو۔ اگر تمہیں یہ شرائط منظور نہیں تو پھر جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ (تاریخِ فرشتہ)۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں مسلمانوں کا تناسب ہندوؤں کے مقابلے میں زیادہ تھا مگر ہندوؤں کی حکمرانی تھی جبکہ بلوچستان پر پہلے سے ہی مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ خط موصول ہونے کے بعد پرتھوی راج نے شرائط ماننے سے انکار کر دیا تو جنگ شروع ہوگئی اور فتح شہاب الدین کی ہوئی۔ شہاب الدین کے بعد قطب الدین ایبک فتوحات کرتے کرتے دہلی تک جا پہنچا اور اُسے اپنا مرکز بنا لیا۔ یوں ہندوستان میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔
جب مسلمان ایک الگ وطن کا نظریہ پروان چڑھا رہے تھے اور لوگوں میں اسلامی تشخص اجاگر کر رہے تھے تو ہندوؤں نے اپنی چال چلی اور متحدہ ہندوستان کے نام پر "ہندو مسلم بھائی بھائی"کا نعرہ لگا دیا۔ اس چال کے بعد کئی مسلم قائدین مکار ہندوؤں کے جال میں پھنس گئے اور ہندو مسلم اتحاد کو لازمی قرار دیااور کہنے لگے کہ ہماری زمین ایک ہے، زبان ایک ہے، رنگ ایک ہے لہذا جغرافیائی لحاظ سے ہندو مسلم ایک ہیں۔ اس Nationalism کے نعرے کو اس وقت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے مضبوط دلائل سے مسترد کر دیا۔
وفات سے کچھ عرصہ پہلے مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا: "ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، ان میں کوئی چیز بھی مشترک نہی، میں واضح الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی کشمکش کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر جماعت کو اپنی اپنی مخصوص قومی اور تہذیبی بنیادوں پر آزادانہ شوریٰ کا حق حاصل ہونا چائیے"۔ 1930 میں آپ نے اپنے خطبہ اٰلہ آبادمیں فرمایا: "مجھے ایسا لگتاہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخرایک اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحثیت تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ میں صرف ہندوستان میں اسلام کی فلاح و بہبود کے خیا ل سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں"۔
جب ہم تحریکِ پاکستان اور شہاب الدین کے خط میں شرائط والے علاقوں کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کی تمام علاقے جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ان علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ اسی لحاظ سے ان علاقوں پر مشتمل ایک اسلامی ریاست بنایا جائے کیونکہ مسلمان ہر لحاظ سے ہندوؤں سے الگ قوم ہیں۔ جب ہم تحریکِ پاکستان کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ علامہ محمداقبالؒ کا خطبہ آلہ آباد ہو یا قراردادِ مقاصد 1940 یا پھر قائداعظمؒ کے 14 نکات اور تقاریر، تو اِن سب میں ایک ہی تصور ملتا ہے کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اس لئے ہندوستان کے وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اُن سب پر مشتمل ایک الگ ملک بنایا جائے۔ قیامِ پاکستان کی روح نظریہ پاکستان ہے اور نظریہ پاکستان ہی دراصل دو قومی نظریہ ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ آج ہم اس نظریے کو فراموش کیے ہوئے ہیں اور اگر ہم نے نئی نسل کو اس نظریے سے آگاہ نہ کیا تو ہم اسکی راحتوں اور برکتوں سے محروم رہیں گے۔
تاریخی حقائق سے پتا چلتا ہے کہ مطالبہ پاکستان کی بنیاد 1192 میں رکھی جا چکی تھی جس کو تقریباََ ساڑھے سات صدیوں بعد ہندوستان کے مسلمان رہنماوں نے پاکستان کی صورت میں تعمیر کیا۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کی پاکستان کی بنیاد 1192 میں شہاب الدین غوری نے رکھ دی جب اُنھوں نے پرتھوی راج کو خط میں اُن علاقوں کی نشاہدہی کر دی جہان مسلمان اکثریت میں تھے۔
قیامِ پاکستان میں صوفیاء کرام کا کردار بھی بہت اہم رہاجو سیاست و حکومت کے طور طریقوں سے الگ ہو کر اللہ اور رسولﷺ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ ان صوفیاء کرام نے اپنے حسنِ اخلاق، محبت، شفقت، عجزوانکساری اور بلارنگ و نسل لوگوں کو اسلام کی لڑی میں پروتے رہے اور تحریکِ پاکستان کے ہراول دستے میں شامل کرتے رہے۔ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر قائم کیا گیا اسی وجہ سے پاکستان کو نظریاتی ریاست کہا جاتاہے۔ یہ مطالبہ صدیوں پھلتا پھولتا رہا اور قائداعظمؒ نے اُسے منزل بنا لیا اور بنیادِ وطن سے تعمیرِ وطن کی جدوجہد شروع کردیں۔
مسلمانوں کی ایک طویل جدوجہد اور کوشش کی نتیجے میں آخر کار پاکستان کو دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 کو ایک آزاد ملک کی حثیت سے اجاگر کیا۔ اس تعمیرِ وطن اور حصولِ منزل کے لئے رہنماوؤں سے لے کر عام آمی تک مرد و زن نے بھرپور حصہ لیا اور ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ ایک آزاد وطن کے حصول کے لیے نعرہ لگایا جاتا تھا کہ "لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان" تو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمت نہ ہاری، عزمِ مصمم اورجہدِ مسلسل کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام عمل میں آیا۔

