Khulasa e Quran, Satwi Nimaz e Taraweeh
خلاصہِ قرآن، ساتویں نمازِ تراویح

آج کی تراویح کا آغاز آٹھویں پارہ اور سورۃ الانعام کی آیت نمبر 111 سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کفار و مشرکین کے بارے فرماتا ہے کہ اگر ہم انکی طرف فرشتے اتارتے یہاں تک کہ مردے ان سے باتیں کرتے تو تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ وہ نرے جاہل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے امتحان میں ڈالتا ہے اور خوب جانتا ہے کون بہکا اس کی راہ سے اور کون ہدایت والا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اوامرونہی، وعدہ و وعید، حق و باطل ہر چیز کو واضح طور پر بیان فرما دیا ہے۔
آیت نمبر 118 تا 121 میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے حلال وحرام کا بیان فرمایا کہ اٹکل سے کوئی چیز حلال یا حرام نہیں ہوتی بلکہ جسے اللہ اور اسکے رسول نے حلال کہا وہ حلال ہے اور جسے حرام کہا وہ حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ تم پر مفصل بیان کر چکا جو حرام ہے اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس چیز پر شریعت میں حرام ہونے کا حکم نہ ہو وہ مباح ہے۔ آگے فرمایا کہ اسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو(جہاں مسلمان ذبح کرنے والے بوقتِ ذبح بِسمِ اللہِ اللہُ اَکبَر کہنا بھول گیا وہ ذبح جائز ہے۔
آیت نمبر125 تا 127 میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کو اللہ تعالیٰ دین کی سمجھ بوجھ اور ایمان کی توفیق دیتا ہے تو ان کے دل میں روشنی پیدا فرماتا ہے اور سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ آیت نمبر 129 میں واضح کر دیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو اس پر اچھوں کو مسلط کردیتا ہے اور جب کوئی قوم بداعمالیوں میں مبتلا ہو جائے تو اس پر ظالم حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ قیامت کے دن اِنس و جن سے پوچھ ہوگی اور ان کا حساب لیا جائے گا کہ کون کفر پر ڈٹارہا اور کون ایمان کی دولت سے سرفراز ہوا۔
مشرکینِ عرب کی رسوماتِ جاہلیت کا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ آیت نمبر 130 تا 144 میں فرماتا ہے کہ اپنی اولاد کو سنگدلی سے قتل کر تے تھے، لڑکی کو باعثِ شرم مانتے ہوئے زندہ دفن کردیتے، لڑکوں کو روزی کھلانے کے ڈر سے قتل کرتے، منت مانتے ہیں کہ اگر دسواں بیٹا ہوگا تو اُسے بتوں کے نام پر ذبح کردیں گے۔ اپنے مویشیوں کو مختلف قَسموں کے پورے ہونے کے لیے کاہنوں اور مذہبی پیشواؤں کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا، بعض چوپاؤں پر سوار ہونا منع کیا ہوا تھا یہاں تک کہ ان پر سوار ہو کر حج کے لیے بھی نہ جاتے تھے، بعض کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی بجائے بتوں کانام لیتے تھے اور مویشیوں کے پیٹ میں بچہ زندہ پیدا ہوتا تو صرف مَردوں کو خاص ہوتا اور اگر مُردہ پیدا ہوتا مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے حلال ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ بے شک یہ سب خسارے میں ہیں۔ مشرکین یہ عذر رکھتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ بھی کیا یہ اللہ کی مشیت سے ہوا اور وہ اس سے راضی مگر یہ عذر باطل و من گھڑت اور غلط اَٹکلیں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا کرنے سے روکا ہے۔
آیت نمبر151 تا 153 میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے وصیتیں /احکام بیان کیے جو انسان کو اعلی و ارفع مقام تک لے جاکر دنیا و آخرت میں عزت و سعادت والی زندگی عطا فرماتی ہیں۔ 1) اللہ کی عبادت 2)والدین کے ساتھ حسنِ سلوک 3)غربت و تنگی کی وجہ سے اولاد کو قتل کرنا 4)خفیہ و اعلانیہ ہر قسم کی فحاشی و بے حیائی کی باتوں سے دور رہنا 5) ناحق انسان کے قتل سے بچنا جس کے قتل کا شریعت نے حکم نہیں دیا 6) یتیم کے مال کو ناجائز استعمال سے بچنا 7) ناپ تول میں ڈنڈی نہ مارنا 8) اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہدوں کا پورا کرنا 9) صراطِ مستقیم پر چلنا۔
آیت نمبر 159 میں اللہ تعالیٰ مزید حکم ارشاد فرماتا ہے کہ ان لوگوں سے بچتے رہو جنھوں نے اپنے دین میں جدا جدا راہیں نکالیں اور کئی گروہ ہو گئے۔ حدیث شریف میں آیاہے کہ یہود کے 71 فرقے تھے جن میں ایک ناجی تھا، نصاریٰ 72 فرقے ہوگئے اور صرف ایک ناجی تھااور میرے امت 73 فرقے ہو جائے گئی، باقی سب ناری ہوں گے سوائے ایک کے جو سوادِ اعظم (بڑی جماعت) کے ساتھ ہوگا، وہ میرے اور میرے صحابہ کی راہ پر ہے۔
معیار عدل قائم کا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کی جزا و سزا بیان کی کہ ایک نیکی کا بدل دس نیکیاں ہیں اور برائی کی اتنی ہی سزا جتنی اس نے کی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ مشرک نہ تھے اور دین ابراہیم ہر باطل سے جدا ہے اور تم فرماؤ بے شک میری نماز، میری قربانیاں اور میرا جینااور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا (قُل اِن صَلاتِی ونُسُکِی ومَخیَایَ وَمَمَاتِی لِلہِ رَبِ العٰلمین)۔ آخیر سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر انسان اپنے نفع ونقصان کا ذمہ دار ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔
سورت اعراف ترتیبِ توفیقی کے لحاظ سے ساتویں (7) اور ترتیب نزولی کے اعتبارسے انتالیسویں (39) نمبر پرہے۔ یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی سوائے پانچ آیتوں کے اور اسمیں 206 آیتیں اور 24 رکوع ہیں۔ اعراف کے معنی بلند جگہ کے ہیں اور سورت کی آیت نمبر46 میں ایک جگہ اعراف کا ذکر آتا ہے جس کی وجہ سے اس سورت کا نام اعراف رکھا گیا۔ اس جگہ ان لوگوں کو کھڑا کیا جائے گا جن کی نیکیاں اور برائیاں میزانِ عمل پر برابرہوں گی، اصحابِ اعراف جنت والوں کو جنت میں اور دوزخ والوں کو دوزخ میں دیکھیں گے۔
اس سورت کی پچھلی سورت (سورۃ الانعام) سے مماثلت یہ ہے کہ اس میں توحید کے مضامین تھے جبکہ اسمیں رسالت کے متعلق مضامین اور اصول و ضوابط بیان کرنے کے ساتھ قیامت اور جنت و دوزخ کے احوال ہیں۔ اس سورت کا آغاز حروفِ مقطعات "المص" سے کرنے کے بعد محبوبِ خدا کو مخاطب کرکے بتایا گیا کہ اے محبوب ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری پس اس سے ڈر اور نصیحتیں سناؤ۔ جو اسکی پیروی کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور نافرمانی کرے گا وہ ناکام ہوگا، سب کے اعمال کو میزانِ عمل پر تولا جائے گا بھاری نیکیوں والے کامیاب اور بھاری گناہوں والے ناکام ہوں گے۔
آیت نمبر 11 تا قیامت 31 میں مٹی سے آدمؑ کی پیدائش، تکریم انسانیت کے لیے فرشتوں سے سجدہ کروانا، ابلیس کا تکبر، سرکشی اور آدمؑ کو سجدے سے انکار، ابلیس کو جنت سے دھتکارنا، ابلیس کی قیامت تک مہلت مانگنا اور ایمان والوں کو سیدھے راستے سے بہکانا، آدمؑ و حواؑ کی جنت میں رہائش، ہر چیز کھانے پینے کی اجازت سوائے ایک پیڑ کے، شیطان کا دونوں کو فریب دے کر پیڑ کا پھل کھلوانا، دونوں کا ستر ظاہر ہو جانا، اللہ تعالیٰ کا دونوں سے ناراضگی کا اظہار کرنا، دنوں کا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا، آدمؑ وحواؑ کو جنت سے زمین پر اتار دینا، ستر پوشی (ڈھاپنے) کے لیے لباس مہیا کرنا، زمین پر شیطان کے فتنے سے بچنے کی ہدایت، بے حیائی کے کاموں سے بچنا، عبادتِ نماز کے لئے بہتر ہیئت کے ساتھ حاضری کا حکم کے مضامین کا تفصیلی بیان ہے۔
آیت نمبر 35 تا 45 میں اہل جنت اور اہل جہنم کے درمیان مکالمے کا ذکر ہے اور اولادِ آدم کو رسولوں (دوسرا قول خاتم الانبیاء) کی اطاعت کرنے، انکی نشانیوں کو جھٹلانے سے منع فرمایا تاکہ جنت کے حقدار بنیں۔ نشانیوں کو جھٹلانے والوں کے بارے میں فرمایا کہ تم (مجرم) خسارے والوں (آگ کا اوڑھنا بچھونا) میں سے ہوگے اور اللہ کی لعنت ظالموں پر۔ آیت نمبر 46 میں تیسرے گروہ "اہل اعراف" کا ذکر ہے جو مومن تو ہوں گے مگر دوسرے جنتیوں سے پیچھے ہونگے اور انہیں فوری طور پر جنت میں داخل نہ کیا جائے گاجب تک اہل جنت و جہنم کا حساب کتاب ختم نہ ہو جائے۔ اس دوراں اہل اعراف بھی اہل جنت و جنہم کے ساتھ مکالمہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انکو بھی جنت میں داخل کر دے گا۔
آیت نمبر 54 میں اپنی قدرت کا بیان فرمایا کہ میں نے آسمان و زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش کو استواء کیا جیسا اس کے لائق تھا اور کائنات کا خاتمہ عرش پر جا ٹھہرا۔ رات اور دن کو ایک دوسرے سے ڈھانکا، سورج، چاند اور ستاروں کو بنایا اور سب اسکے حکم کے مطابق عمل پیرا ہیں۔ پس تم رب سے گڑگڑاتے اورآہستہ دعا کے ذریعے خیر طلب کرو(آہستہ دعا بلند آواز میں 70گنا افضل ہے) اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ اگلی آیات میں قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود (اونٹنی کی ہلاکت والے)، قومِ لوط (ہم جنس پرست) اورقومِ شعیب (مدین، تجارت میں بددیانتی کرنا، راگیروں اور مسافروں کو ڈرانا) کو دعوتِ توحید اور ان کے سرکش سرداروں، ان پر کے عذاب (قومِ عاد پر آندھی و طوفان، قومِ لوط پر آسمان سے پتھروں کی بارش) اور انکی ہلاکت کا بیان ہے۔