Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Khulasa e Quran, Pehli Nimaz e Taraweeh

Khulasa e Quran, Pehli Nimaz e Taraweeh

خلاصہِ قرآن، پہلی نمازِ تراویح

مصحفی ترتیب سے سورۃ الفاتحہ قرآنِ پاک کی پہلی اور نزولی ترتیب سے پانچواں نمبر ہے۔ اکثر علماء ک نزدیک یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور بعض کے مطابق مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ ایک قول ک مطابق یہ سورت دو بار نازل ہوئی، ایک بار مکہ مکرمہ اور ایک بار مدینہ منورہ۔ سورت کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے کرنا چاہیے اس رب کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ سورۃ الفاتحہ کل سات آیات، 27کلمات، 140حروف اور ایک رکوع پر مشتمل ہے۔ سورۃ الفاتحہ کی اہمیت، فضیلت اور شرف کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کو نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا واجب قرار دیا گیا ہے اور اس کے تقریباََ 15 سے زائد نام ہیں جیسے سورۃ الدعا، سورۃ الشفاء، سورۃ الکنز، سورۃ الواقیہ، سورۃ الکافیہ۔

حضرت ابو سعید بن معلیؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺنے مسجد سے نکلنے سے پہلے میرا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا میں ضرور تمہیں قرآن مجید کی سب سے عظمت والی سورت سکھاؤں گا اور وہ سورت "الحمد اللہ رب العٰلمین"ہے۔ یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا فرمائی گئی (بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فاتحہ، حدیث 5006)۔ آقا دو جہاں حضورِ پرنورﷺ کو دو نور عطا کیے گئے جو ان سے پہلے کسی کو عطانہ ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے مطابق ایک آسمانی فرشتہ رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور آپﷺ کوان دو نوروں کی بشارت دی یعنی "سورۃ فاتحہ" اور "سورۃ البقرہ" کی آخری آیتیں ہیں۔ اسی طرح اللہ کے حبیب ﷺنے ارشاد فرمایا کہ "سورۃ فاتحہ ہر مرض کی شفاء ہے"۔

سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء، عظمت و جلالت، مستحقِ عبادت، حقیقی مددگار اور اس کے رحمٰن و رحیم ہونے کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ اس سورت میں دعا کے آداب کے بیان کے ساتھ اللہ تعالی سے ہدایت طلب کرتے ہوئے دینِ حق و صراطِ مستقیم پر چلنے کے ساتھ نیک لوگوں کی موافقت اور گمراہ لوگوں سے بچنے کی دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس سورت کی پہلی تین آیات میں وجودِ الہیہ، توحید، قیامت اور اللہ کی صفات کا بیان ہے جنھیں عقائدِ اسلامی بھی کہا جاتا ہے۔ پانچویں آیت میں شریعت و ہدایت کا ذکر جبکہ چھٹی اور ساتویں آیت میں گزشتہ قوموں کے احوال و واقعات اور گمراہوں سے بچنے کا ذکر ہے۔ سورۃ فاتحہ اپنے اندر قرآن کریم کے سارے اسرار و رموز کو سمیٹے ہوئے ہے اور اس کے تمام ظاہری و باطنی حقائق کو کتاب قرطاس پر لانا ناممکنات میں سے ہے۔ نماز میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے، امام اور تنہا نماز پڑھنے والا اپنی زبان سے اس کی تلاوت کرے گا جبکہ مقتدی امام کے پیچھے خاموش رہے گا اور جہری نماز میں اس کی قرآت سنے گا۔

سورۃ بقرہ مصحفی ترتیب میں دوسری جبکہ نزولی ترتیب میں ستاسویں (87) سورت ہے جو کہ مدنیہ منورہ میں نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہ سورت نازل ہوئی سوائے آیت "واتقُو ایوماََتُرجَعُونَ" جو حجۃ الوداع میں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ یہ آیت سب سے آخری آیت ہے اور اسکے بعد حضورﷺ دنیا میں 21روز تشریف فرما رہے جبکہ کہ بعض کے مطابق 9 راتیں اور بعض سے 7 دن کا قول ہے۔ سورۃ بقرہ میں کل 286 آیات، 40 رکوع، 6121 کلمے، 25,500 حروف اور 40 رکوع ہیں۔

سورۃ البقرہ قرآنِ پاک کی سب سے بڑی سورت ہے۔ اس سورت کا نام بقرہ رکھنے کی وجہ بنی اسرائیل کی ایک گائے کا واقعہ ہے جسے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیات 67سے 73 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کے فضائل بہت ہی زیاد ہ ہیں جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے"۔

حضرت ابو مسعودؓ راوی ہیں کہ سرکارِ دوعالمﷺ نے ارشادف فرمایا"جو شخص رات کو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا وہ اس کو کافی ہوں گی"۔ سورۃ البقرہ کا مرکزی مضمون بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات، اس پر بنی اسرائیل کی ناشکری کا تذکرہ اور مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بنی اسرائیل کی سرکشی، کفر اور جرائم کا بیا ن ہے جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، حضرت موسیٰؑ سے طرح طرح کے مطالبات کرنا، اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا، عہد شکنی کرنا، انبیاعلیہم السلام کو ناحق شہید کرنا جسیے واقعات کا بیان ہے۔

اس سورت میں کفار و مشرکین کو واضح طور پر بتایا گیا کہ اس کتاب میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ وہ قرآن کریم کو کلام اللہ ماننے سے انکاری تھے اسے رسول اللہ ﷺ کا اپنا بنایا ہوا کلام کہتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان تمام کو سورت کی آیات 22 اور 23 میں یہ واضح کر دیا کہ اگر تمہیں اس میں شک ہے تو تم سب مل کر اس جیسا کلام لے آؤ مگر وہ آج تک ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔

پہلی تراویح میں سورۃ ابقرہ کی آیت نمبر 1 سے آیت نمبر266 پڑھی جائیں گئیں۔ اس سورت کے آغاز میں تین گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں پہلا ایمان والوں کا گروہ، دوسرا کافروں کا گروہ) اور تیسرا منافقوں کا گروہ۔ اس سورت کا آغاز "الم"سے ہوتا ہے جو کہ حروفِ مقطعات میں سے ہے جن کے اسرار و رموز اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی جانتا ہے۔ یہ کتابِ رشد و ہدایت ہے اور اس میں تمام انسانوں کے لیے ہدایت کے روشن پہلو ہیں خاص کر جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اور متقی ہیں۔

سورت کی آیت نمبر1سے 39 تک ایسے لوگوں کے اوصاف کا بیان ہے جو اس سے حقیقی ہدایت حاصل کرتے ہیں اور جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ ایمان کی دولت سے محروم رہیں گے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان مقدس آیات میں قرآن کریم کی حقانیت، ہدایت یافتہ لوگوں کے اوصاف، کفر و شرک کرنے والوں کو دولتِ ایمان سے محرومی، تخلیقِ آدمؑ، شانِ آدمؑ، سجدہِ آدمؑ، ابلیس کا انکارِ سجدہ بارے بیان ہے۔ ان آیات میں کفار کو چیلنج دیا گیا کہ اگر تمہیں ہمارے کلام پر شک ہے تو اس جیسی ایک سورت لے آؤاور اپنے سارے اپنے سارے حمائیتوں کو بلا لاؤ۔ انہیں آیات میں اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا اظہار بھی فرمایا ہے جن کی یہ ناشکری کرتے ہیں۔ ہم نے تمہیں پیدا کیا جب تم کچھ بھی نہیں تھے اور تمہیں فرشتوں سے اعلی مقام عطاکیا اور اپنا نائب بنا کر بھیجا اور آدم کو تمام اشیاء کے نام سیکھائے۔ پھر اے آدم تمہیں فرشتوں سے سجدہ کروایا اور میں ہی جانتا ہوں آسمان و زمین کی سب چھپی چیزیں اور وہ سب جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔

آیت نمبر 40 سے 123 تک حضرت یعقوبؑ کی اولاد(بنی اسرائیل)کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان پر اپنے احسانات یاد کروائے گئے اور جو تم نے مجھ سے عہد کیا وہ پورا کرو اور مجھ سے ڈرو۔ دوسروں کو نیکی کی دعوت دینے کے ساتھ خود بھی عمل کرنے، رسولوں پر ایمان لانے، نماز قائم کرنے، زکوۃ دینے، کتاب کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے بارے تمام بنیادی احکامات کی پابندی پر زور دیا گیا۔ بنی اسرائیل کے عامیل نامی ایک مالدار نے وراثت کے لیے چچازاد بھائی کو قتل کرکے دوسرے قبیلے کے دروازے پر ڈال کر خود اسکا مدعی بن گیا۔ اس تہمت کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا اور اس ذبح ہوئے گائے کا ایک ٹکڑا مردہ کو مارو تو وہ زندہ ہو کر سب بتا دے گا۔ مگر انھوں نے اسکو مسخرہ بنا دیا اور اسکے اوصاف دریافت کرنے شروع کر دیے اور تمہارے دل سخت ہو گئے۔ بنی اسرائیل نے جادو کی تعلیم حاصل کرلی اور شیاطین کے پیروکار بن گئے، شوہر و بیوی کے درمیان تفریق کے لیے جادو کرنا، اشارات و کنایات اور لفظی ردوبدل کرکے نبی کریمﷺ کی شان میں اہانت کرنابارے منع فرمایا جو کہ آیت نمبر 104 میں بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ جو جادو کو سیکھ کر اس پر عمل کرے گا وہ کافر ہو جائے گا۔ نیز ان آیات میں ترتیب وار بنی اسرائیل کے جرائم کا بیان ہے جن میں جرائمِ توحید، جرائمِ رسالت اورجرائمِ آخرت کے بارے میں گناہ ہیں۔

آیت نمبر 124 سے 133 تک حضرت ابراہیمؑ کے بارے بیان ہے جس میں ان کو امام وپیشوا بنانے بارے بتا دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اللہ کے گھر کی بنیادیں رکھیں جو آپ نے اور حضرت اسمٰعیلؑ سے مل کر بنایا اور دعا فرمائی کہ ہم میں سے رسول بھیج تیری آیتیں تلاوت کرے اور علم سکھا کر ان کو پاک صاف کرے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کو اللہ کے منتخب کردہ دین کی پیروی کرنے کی وصیت کی اور بتایا کہ وہی سب کا ایک خدا ہے اور اسی کے سامنے گردن رکھنا۔

آیت نمبر 134 سے 176 تک یہود و نصاریٰ اور اہل کتاب کا ذکر ہے کہ انہیں انبیا و رسل میں کسی پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی شہادتیں چھپاؤ۔ حضرت محمدﷺ اللہ کے نبی ہیں، حضرت ابراہیمؑ مسلمان ہیں اور مقبول دین اسلام ہے نہ کہ یہودیت و نصرانیت اور امتِ محمدی ہی سب سے افضل ہے۔ تحویل کے قبلہ کا ذکر فرمایا اور ہجرت کے 17 ماہ بعد مسلمانوں کے قبلۂ کو بیت المقدس سے مکہ مکرمہ پھیر دیا گیا اور مسلمانوں کو مسجد حرام کی طرف ہی منہ کرنے بارے حکم دیاگیا۔ پھر ذکرِ الہی کی تلقین فرمائی گئی، نماز سے مدد و نصرت مانگنے بارے تعلیم دی اور اللہ کی راہ میں مرنے والوں کو شہید کہا گیا اور انہیں مردہ کہنے سے خبردار کیا گیا۔ غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں اور ان کے پیروکاروں کو سخت عذاب کی وعید یں سنائی گئی ہیں اور تویت و انجیل میں رسول اللہﷺ کے وقتِ نبوت اور اوصاف کو چھپانے اور کتاب کی غلط تاویلیں کرنے سے منع فرمایا گیاہے۔

اسی کی ساتھ حج و عمرہ کے لئے جانے والوں کو اللہ کی نشانیاں یعنی صفا و مرہ کی اہمیت بتلائی گئی۔ زندگی کے بعد موت اور پھر موت سے دوبارہ جی اٹھنے کا پختہ عقیدہ بیان کیا گیا اور صاف و ستھری چیزیں کھانے اور شیطان کی راہ سے بچ کر چلنے بارے ہدیت کی گئی۔ ان آیات میں صبرکرنے، عہد پورا کرنے، ناحق کا بدلا لینے، حق بات بیان کرنے اور ناحق کو چھوڑنے، بے انصافی سے بچنے اور مالِ ناحق کھانے سے اجتناب کرنے کے بارے میں زور دیا گیا۔ انہی آیات میں روزوں کی فرضیت، ان کے احکامات، مریض ومسافر کے روزے اور فدیہ بارے احکامات کا بیان ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam