Khulasa e Quran, Gyarhvi Nimaz e Taraweeh
خلاصہِ قرآن، گیارہویں نمازِ تراویح

آج کی تراویح کا آغاز بارہویں پارہ اور سورۃ ھود کی آیت نمبر 6 سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ ہی کے ذمہِ کرم ہے اور اُس کے قیام (باپ کی پشت یا ماں کا رَحم یا زمین پر رہائش) اور سپردگی (مکان یا قبر) کی جگہ کو جاننے والا ہے جو کہ اس روشن کتاب میں درج ہے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد اسکی خیر و شر میں آزمائش کرنا کہ پتا چلے کون شکر گزار ہے اور کون ناشکراََ۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کو نعمت (صحت، امن، وسعتِ رزق اور دولت) عطا کرتا ہے تو وہ اس کا شکر بجا نہیں لاتا لیکن نعمت چھن جانے پرناامید اور ناشکرا ہو جاتا ہے اور اگر مصیبت کے بعد کوئی نعمت ملے تو انسان تکبر میں آجاتا ہے۔ کامیاب شخص وہی ہے جو ہر حال میں صبر شکر اور نیک اعمال بجالاتا ہے اسی کے لیے بخشش اور بڑا اجڑ ہے۔ قرآن کے کلام الہی کا انکار کرنے والوں کو للکارا کہ اپنے حامیوں کو بلا کر تم اس جیسی دس سورتیں لے آؤ اگر سچے ہو اور جو دنیا کے طالب ہیں تو انھیں سب کچھ دے دیا جائے گا مگر ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا اور دنیا کے اعمال اکارت جائیں گے۔ وہ جو ایمان لائے، اچھے کام کئے اور اپنے رب کی طرف رجوع کیا وہ جنت والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
حضرت نوحؑ کا واقعہ آیت نمبر 25 میں بیان فرمایا کہ آپ نے قوم کو توحید و رسالت کی بات سنائی مگر ان کے قوم نہ مانی۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ آپ ہماری وحی کے مطابق کشتی بنائیں اور جب ان کی قوم کے سرکش سردار پاس سے گزرتے تو ان کا مذاق اڑاتے۔ جب عذابِ الہی آیا تو تنور ابلنے لگا، نوحؑ گھر والوں اور اہلِ ایمان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے، ہر چیز کا جوڑا سوار کر لیا۔ کشتی ان تند و تیز لہروں میں اللہ کی حفاظت میں چلنے لگی، نوحؑ نے الگ کھڑے بیٹے کو کہا ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو مگر اس نے انکار کر دیا کہ وہ کسی پہاڑکی پناہ میں آجائے گا اور پانی سے بچ جائے گا۔ نوحؑ نے کہا کہ آج اللہ کے حکم سے سوا کوئی بچانے والا نہیں پھر ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ ڈوب گیا۔ پھر اللہ کے حکم سے کشتی کوہِ جودی کے پہاڑ پر جا ٹھہری زمین نے اپنا پانی نگل لیا، آسمان تھم گیا اور پانی خشک ہوگیا اور وہ سلامتی سے اتر گئے۔
قومِ عادؑ کا ذکر آیت نمبر 50 سے 60 تک میں آیا جس میں حضرت ہودؑ کو معبوث فرمایا جس نے اپنی قوم کو کہا کہ اے میری وقم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تم تو نرے جھوٹے الزام عائد کرنے والے ہو۔ اے میری قوم میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا بلکہ میری مزدوری تو اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا۔ قومِ عاد اپنے دور کی طاقتور قوم تھی جن کے پاس جسمانی طاقت بہت زیادہ تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ ان سے زیادہ طاقتور قوم دنیا میں اور کوئی نہیں۔ حضرت ہودؑ اپنی قوم کو دعوتِ توحید دیتے رہے مگر قوم نے انکی بات نہیں مانی اور اللہ تعالیٰ نے تین سال تک ان سے بارش موقوف کردی، شدید قحط آیا، عورتیں بانجھ ہوگئیں۔ اس پر قوم آپ کے پاس آئی، آپ نے انھیں اللہ کے حضور بخشش و مغفرت طلب کرنے کا کہا تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر رحمت کی بارش برسائے اور تمہاری قوت میں اضافہ فرمائے۔ مگر قوم عاد طاقت کے نشے میں آپ کا انکار کر بیٹھے، اللہ نے ان پر طاقتور طوفانی ہوا مسلط کر دی جس نے طاقت پر گھمنڈ کرنے والی قوم کو اکھاڑ پھینکا اور وہ کٹے ہوئے درختوں کے ٹکڑوں کی طرح زمین پرپڑے تھے۔
آیت نمبر 61 میں حضرت صالحؑ اور انکی قومِ ثمود کے حالات کا ذکر ہے جب آپ نے ان کو دعوتِ توحید دی تو آپ سے نشانی دکھانے کا تقاضا کرنے لگے۔ حضرت صالحؑ نے دعا مانگی تو بستی کی بڑی پہاڑی پھٹی اور اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر اونٹنی نکالی جس نے باہر نکلتے ہی بچہ جناجو کہ ایک معجزہ تھا۔ قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو ان پر عذاب الہی آ گیا اور ایک چنگھاڑ کو مسلط کر دیا گیا کہ ایک فرشتے نے چیخ ماری تو بستی کے لوگوں کے دماغ پھٹ گئے اور وہ گھروں میں گھٹنوں کے بل اوندھے پڑے رہے۔
آیت نمبر 69 میں حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ بیان ہوا جن کے پاس فرشتے انسانی شکل میں حاضر ہوئے تو آپ نے انکی مہمان نوازی کیلئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت پیش کیا مگر وہ اسکی طرف نہ بڑھے۔ حضرت ابراہیمؑ ڈرگئے، خوف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے عرض کی آپ نہ ڈریں ہم فرشتے ہیں جو قومِ لوط کی طرف عذاب کے لیے بھیجے گئے ہیں اور آپ کو بیٹے(اسحاقؑ) کی بشارت دیتے ہیں۔
آیت نمبر 77 میں حضرت لوطؑ کی قوم (اہلِ سدوم) کی بداعمالیوں (ہم جنس پرستی) کی وجہ سے ان پر عذاب آیا اور انکی بستی کو پلٹ دیا گیا (اوپر کا حصہ نیچے) اور سرکشوں پر(لوطؑ کی بیوی سمیت) اللہ کی طرف لگاتار نشان زدہ پتھر برسائے گئے ماسوائے اہل ایمان والوں کے۔ پھر آیت نمبر 84 میں قومِ مدین کے شرک، ناجائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی اور دیگر جرائم کا ذکر ہے اور حضرت شعیبؑ کے سمجھانے کے باوجود بھی وہ نہ سمجھے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں زبردست چنگھاڑ کے عذاب سے ہلاک کر دیا۔
سورت کی آخری آیات میں حضور کو یادہانی کے لئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تمہارا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو بے وجہ ہلاک کر دے اور ان کے لوگ اچھے ہوں اور اگر تمہارا رب چاہتا تو سب کو ایک امت کر دیتا اور وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے (کوئی کسی دین پر کوئی کسی پر) مگر جن پر تمہارے رب نے رحم کیا۔ بے شک ضرور جہنم بھر دوں گا جنوں اور آدمیوں کو ملا کر(کیونکہ کہ باطل کو اختیار کرنے والے بہت ہوں گے)۔ حضور کو تسلی دیتے ہوئے ربِ کائنات ارشاد فرماتا ہے "ہم تمہیں رسولوں کی خبریں سناتے ہیں جس سے تمہارا دل ٹھہرائیں (جو واقعات بیان فرمائے گئے وہ حق پر ہیں) اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کے غیب اور اسی کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے تو اس کی بندگی کرواور ااس پر بھروسہ رکھواور تمہارا رب تمہارے کاموں سے غافل نہیں۔
سورۃ یوسف ترتیبِ توفیقی میں 12 اور ترتیبِ نزولی میں 53 نمبر پر ہے جس میں 12 رکوع اور 111 آیات ہیں اور یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورہ کے نزول کا واقعہ اس طرح ہے کہ اشرافِ عرب نے حضور سے دریافت کیا کہ اولادِ یعقوب ملکِ شام سے مصر کس طرح جاکر آباد ہوگئی اور حضرت یوسفؑ کا واقع کیا ہے جس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ اس سورہ میں حضرت یوسفؑ کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے جسے قصائص القران میں "حسین ترین قصہ اور بہترین سچا قصہ" قرار دیا ہے۔ اس سورہ میں شرک کی تردید، سیرت اور خوابوں کی تعبیر، رموزِ حکومت، طرزِ سیاست، نفسیاتِ انسانی، معاشی خوشحالی، زہد و تقویٰ، حقائق و عجائبات، حاسد و محسود کا انجام، مالک و مملوک اور قید و رہائی کے معمالات، عزت و ذلت، قضاوقدر کے مسائل اور اخلاقِ انسانی پر موثر انداز میں سمجھایا گیا ہے۔
سورہ کا آغاز قرآن کریم کی حقانیت اور آیاتِ قرآنی کی شان بیان کرکے بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب حق و باطل ہو واضح کردینے والی ہے۔ اسے عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے کہ تاکہ اس میں بیان کئے گئے احکامات اہلِ عرب کو واضح ہو جائیں۔ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ تم اسے سمجھواور اس میں غوروفکر کرو۔ حضرت یوسفؑ نے جمہ کو شبِ قدر کی رات ایک خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے جن کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں۔ حضرت قتادۃؓ فرماتے ہیں کہ گیارہ ستاروں کی تعبیر آپ کے بھائی، سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ (یا خالہ) ہیں۔ اس خواب کی تعبیر خواب دیکھنے کے چالیس سال بعد ظاہر ہوئی جب آپ نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور گیارہ بھائی آپ کے سامنے سجدہ میں گر گئے۔
بنی اسرائیل کے جدِ امجد حضرت یعقوبؑ کے 12بیٹے تھے (اسی نسبت سے بنی اسرائیل کے 12قبیلے تھے) اور آپ ان کے ساتھ فلسطین میں آباد تھے۔ حضرت یوسفؑ اور ان کے بھائی بن یامین سب سے چھوٹے تھے اور باقی بیٹوں کی نسبت والد کو آپ سے زیادہ لگاؤ اور محبت تھی۔ جب آپ نے خواب دیکھا تو اپنے والد کو سنایا جنھوں نے آپ کو تاکید کی کہ اسے اپنے بھائیوں کے سامنے نہ دہرانا۔ ایک دن اپنے والد کو راضی کرکے سب بھائی حضرت یوسفؑ کو جنگل میں لے گئے، شدتِ حسد کی وجہ سے آخرکار آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا حضرت یوسفؑ کو کنویں میں پھینک دیا، کپڑوں پر کسی جانور کا خون لگایا اور واپس آکر والد کو بتایا کہ آپ کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔
حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹوں کی سازش کو سمجھ گئے تھے، شدتِ غم سے رونے لگے اور یوسفؑ کی جدائی میں روتے روتے آپ کی بنائی چلی گئی۔ کچھ عرصے بعد ایک تجارتی قافلے کا اس کنویں سے گزر ہوا جو آپ کو کنویں سے نکال کر مصر لے گئے اور آپ کو غلام بنا کر فروخت کر دیا۔ بادشاہ نے حضرت یوسفؑ کو خریدا جسکے بعد آپ محل میں رہنے لگے اور آپ کے حسن اور بے حد خوبصورتی کی وجہ سے شاہِ مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی۔ وہ آپ کو گناہ پر اکسانے لگی مگر یوسفؑ اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرتے رہے اور عورت کو اس گندے کام سے منع کرتے رہے۔ شاہِ مصر کو جب پتا چلا تو عورت نے سارا الزام یوسفؑ پر لگا دیا اور یوسفؑ کو قید میں ڈال دیا گیا۔
قید کے دوران دو قیدیوں نے خواب دیکھا اور آپ سے اس کی تعبیر چاہی تو ایک سے کہا کہ تم بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر اپنے آقا کو شراب پلاؤ گئے جبکہ دوسرے سے کہا کہ تم سولی چڑھائے جاؤ گئے اور پرندے تمہارا گوشت نوچ کر کھائیں گے۔ یہ سن کر دونوں قیدی کہنے لگے ہم نے تو خواب دیکھا ہی نہیں مگر آپ نے کہا کہ اب یہ ایسا ہی ہو کر رہے گا جیسا میں نے کہا اور آزاد ہونے والے کہ کہا کہ تم باہر نکل کر بادشاہ سے میرا حوالے سے بات کرنا۔ بادشاہِ مصر کو کچھ دنوں بعد خواب آیا کہ سات تندرست گائیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں، سات سرسبز بالیاں ہیں اور سات خشک۔ اس خواب بارے بادشاہ نے درباریوں سے تعبیر پوچھی تو اس قیدی کا تب حضرت یوسفؑ کا خیال آیا، بادشاہ نے ان کے پاس لوگ بھیجے تو آپن تعبیر بتا دی۔
خواب کی سچی تعبیر کی وجہ سے بادشاہ آپ کا گرویدہ ہوگیا اور آپ کو رہا کر دیا، ان عورتوں سے پوچھ گچھ کی گئی جنھوں نے اپنی انگلیاں کاٹی تھیں اور تحقیق کے بعد آپ کو بے گناہ قرار دیا گیا اور آپ کی بے گناہی کا اعلان کروایا گیا۔ پارہ کی آخری دو آیات میں یوسفؑ کی پاکدامنی کا بیان ہے جب بادشاہ نے عورتوں سے تحقیق کی تو ان کا جواب تھا "بادشاہ نے کہا! اے عورتوں تمہارا کیا کام تھا جب تم نے یوسف کا جی لبھانا چاہا۔ بولیں اللہ کو پاکی ہے ہم نے ان میں کوئی بدی نہ پائی عزیز کی بیوی (زلیخا) بولی اب اصلی بات کھل گئی ہے میں نے ان کا جی لبھانا چاہا تھا اور وہ بے شک سچے ہیں۔ یوسف نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ عزیز کو معلوم ہا جائے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہ کی اور اللہ دغا بازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا"۔