Monday, 28 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Khulasa e Quran, Doosri Nimaz e Taraweeh

Khulasa e Quran, Doosri Nimaz e Taraweeh

خلاصہِ قرآن، دوسری نمازِ تراویح

دوسری تراویح کا آغاز دوسرے پارے "سَیقُولُ" کے چھٹے رکوع اور آیت نمبر177 سے ہوتا ہے جو یہود و نصاریٰ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ یہود نے بیت المقدس کے مشرق کو جبکہ نصاریٰ نے اسکے مغرب کو قبلہ بنا رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ اہل کتاب و مومنین کو بتلا دیا کہ اصل نیکی روِقبلہ ہونا نہیں بلکہ عقائد کی درستگی، اخلاصِ نیت اور سب سے بڑھ کر دولتِ ایمان ہونا بہت ضروری ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور اسکی اقسام (چھ طریقے) بیان فرمائے جن میں ایمان لانا، عزیز و اقارب اور یتیم و مساکین کے ساتھ مالی تعاون کرنا، نماز، روزہ، زکوۃکااہتمام کرنا، ایفائے عہد، مشکلات پر صبرکرنا، غلاموں کا آزاد کروانا اور جہاد میں ثابت قدم رہنا شامل ہیں اور جو لوگ یہ نیکی کے کام کرتے ہیں وہی سچے، متقی اور پرہیزگار ہیں۔ اس کے بعد قصاص و دیت کے قوانین بیان کیے گئے جن میں حیاتِ انسانی کے تحفظ اور بلاتفریق انصاف قائم کرنے بارے حکم دیا گیا۔ وصیت کی اہمیت اور تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ جو مال تم چھوڑ جاتے ہو اسکی وصیت کرکے جاؤتاکہ ظلم و ناانصافی سے بچو۔

رمضان المبارک اور روزوں کی فرضیت کا بیان ہے کہ روزے پہلی شریعتوں سے چلے آرہے ہیں۔ عاقل و بالغ مرد و عورت کے لیے روزوں کے بارے میں احکامات و تفصیلات ہیں جن میں مسافر و بیمار کے بارے قضا و فدیہ کے بیان کے ساتھ دوسرے اہم مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ روزہ کا اصل مقصد تقویٰ ہے اور یہ وہ مبارک مہینہ "رمضان"ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا۔ رسولِ کریمﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو(فَاِنی قَریب) میں قریب ہواور دعا قبول کرتا ہوں، پکارنے والی کی پکارسنتا ہوں اب ان کو چاہیے کہ میرا حکم مانیں۔ پھر رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور بیویوں کے قریب جانے کی اجازت دی گئی، اعتکاف کاذکر کیا گیا، روزے کے ابتدائی و انتہائی وقتوں کو بیان کیا گیا۔

قمری مہینوں میں چاند کے بڑا اور چھوٹا ہونے کی حکمتیں بیان کیں کہ یہ لوگوں کے لیے اوقاتِ کار اور اسلامی معاملات کی تاریخوں کے تعین کے لیے ہے۔ مکی دور میں مسلمانوں کو کفارکے مقابلے میں لڑنے کی بجائے صبر کے احکامات ہیں جبکہ اب اجازت دی گئی کہ ان کا قتال کرو اور ظلم کے خلاف جانی و مالی جہاد کرو اور یہی تمہاری سلامتی و بقا کا ضامن ہے۔ آیت نمبر 196 تا 203 میں حج و عمرہ کے احکامات، ذکر و دعا اور اطاعت گزاری اور ایام تشریق کا بیان ہے۔ آیت نمبر 204 تا 207 اخنس ابن شُریق منافق کے حق میں نازل ہوئیں جو رسول اللہﷺ کے خدمت میں حاضر وہ کر میٹھی میٹھی اور لجاجت و خوشامد والی باتیں کرتا اور درپردہ فتنہ و فساد انگیزیوں میں مصروف رہتا تھا، مسلمانوں کے مویشوں کو ہلاک کرتا اور ان کی کھیتیوں کو آگ لگاتا تھا۔

اگلی آیات میں حقیقتِ اسلام کو بیان فرما کر بتایا گیا کہ اللہ ورسولﷺکے تمام احکامات کو مِن وعَن قبول کیا جائے اور شیطان کے قدموں پر چلنے کی بجائے پورے کے پورے اسلام میں داخل وہ جاؤ اور جنت کا حقدار بننے کے لیے ایمان کا دعویٰ کافی نہیں بلکہ راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنا اور صبر کرتے ہوئے دعوتِ اسلام دینا ہی اصل معیارہے۔ ماہِ حرام میں جنگ اور لڑائی سے روکا گیا ہے۔ شراب اور جوئے کے فوائد اور نقصانات تقابل کیا گیا کیونکہ ابھی تک ان کی حرمت کا واضح احکامات نہیں آئے اسی لیے بتایا گیا کہ ان میں نفع سے زیاہ نقصان ہے۔

آیات نمبر 224 تا 242 میں یتیموں پر مال خرچ کرنے، مشرکوں سے نکاح کے مقابلے میں توحید پرستوں کو ترجیح دینے کا حکم دیا گیایا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ عرب کے لوگ حائضہ عورتوں سے اس قدر نفرت کرتے کہ ساتھ کھانا پینا اور ساتھ رہنا تو درکنار ان سے بات کرنا بھی حرام سمجھتے تھے۔ اسلام نے حیض کے دوران بیویوں سے دور رہنے کا حکم دیا جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں مگر ساتھ رہنے اور کھانے پینے کی اجازت دی۔ اگلی آیات میں جھوٹی قسم، ایلا (بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم)، طلاق اور رجعت کے مسائل، مہر کی ادائیگی، دودھ پلانے کی مدت(دو سال)، زچہ و بچہ کی کفالت(بذمہ خاوند)، غیر حاملہ عورت کی عدت (چار ماہ دس دن)، پنجگانہ نماز کو ان کے اوقات پرشرائط کے مطابق ادا کرنے، عورتوں بارے وصیت، نان نفقہ دینے بارے تفصیل احکامات بیان کیے گئے ہیں۔

جہاد کی ترغیب دلاتے ہوئے بنی اسرائیل کے ایک گروہ کا واقع بیان کیا گیا جنھوں نے جہاد سے منہ موڑ لیا۔ اس کے بعد مسلمان حکمران طالوت اور کافر حکمران جالوت کے درمیان مقابلے کا ذکر ہے جس میں طالوت کی قلیل جماعت نے دشمن میں کثیر جماعت پر فتح حاصل کی۔ پھر شمویلؑ نے طالوت کی بادشاہی کے نشاہی کے طور پر تابوتِ سکینہ کے بارے بتایا جسے بنی اسرائیل جنگوں میں آگے رکھتے اور اس کے وسیلہ سے فتح مانگتے اور ان کو فتح ملتی۔ تابوتِ سکینہ میں انبیاؑء کی قدرتی تصاویر اور موسیٰؑ و ہارونؑ ترکہ تھا (عمامہ اور نعلین) جس کو قرآن پاک نے بابرکت فرمایا۔ طالوت کے لشکرنے دعا کی کہ "اے رب ہمارے! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمارے پاؤں جمے رکھ اور کافر لوگوں پر ہمارے مدد کر"۔

دوسرے پارے کے آخری رکوع میں طالوت اور اسکے لشکر کی دشمن کی طرف پیش قدمی کا واقعہ بیان کیا گیا جب وہ بیت المقدس سے ہوا تو شدت کی گرمی تھی اور لشکر والے پانی کے طلبگار ہوئے اور ایک نہر سے ان کا گزر ہوا تو طالوت نے کہا جو اس سے پانی پئے گا وہ میرا نہیں اور جو نہ پئے وہ میرا ہے۔ یہ امتحان اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ شدتِ تشنگی کے وقت اطاعت گزاروں اور نافرمانوں کو پرکھا جاسکے۔ اس امتحان میں چند ہی لوگوں نے صبر کیا اور ان کی تعداد محض تین سو تیرہ تھی اور پھر ایک چُلو بھی ان کے اور انکے جانوروں کے لیے کافی ہوگیا اور جنھوں نے خوب پیا ان کے ہونٹ سیاہ ہو گئے، تشنگی اور بڑھ گئی اور وہ ہمت ہار گئے۔ حضرت داؤدؑ کے والد "ایشا" طالوت کے لشکر میں تھے اور انکے ساتھ ان کے ساتھ انکے سارے فرزند تھے اور حضرت داؤدؑ سب سے چھوٹے تھے اور پھر حضرت داؤدؑ نے جالوت کو قتل کیا اور کفار کو شکست دی اور ان کو حکمت و سلطنت عطا فرمائی۔

تیسرے پارے کا آغاز انبیاء کرامؑ کی عظمت کے بیان سے ہوتا ہے کہ تمام انبیاؑء معزز و مکرم اور افضل ہیں مگر خصائص و کمالات اور فضل و شرف میں سب کے الگ الگ درجات ہیں۔ اسکے بعد صدقہ و خیرات کے ذریعے اپنی آخرت کو سنوارنے کی ترغیب دلائی گئی اور واضح کر دیا گیا کہ قیامت کا دن آنے سے پہلے مال کو اچھے کاموں میں خرچ کرلو کیونکہ آخرت میں مال اور رشتے کام نہیں آئیں گے اور کفار کے حق میں کوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی۔

اس کے بعد عظمت و فضیلت والی آیت بیان کی گئی جسے "آیت الکرسی" کہا گیا اور اس میں سترہ بار اللہ تعالیٰ کا ذکر صراحتہََ اور اشارۃََ آیا ہے اور تمام صفاتِ الہیہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور جلالت کی وسعتوں کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا والی ہے اور انہیں اندھیرے سے نور کی طرف (ایمان وہدایت) عطا فرماتا ہے جبکہ شیطان کفار کا حمایتی ہے انہیں روشنی سے اندھیرے کی طرف دھکیلتا ہے۔ اصول بیان کر دیا گیا کہ ہدایت اور گمراہی واضح ہے اور کسی دین میں داخل ہونے پر جبر نہیں مگر جو اللہ تعالیٰ کا وفادار بن گیا اس کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

آیات نمبر 258 سے 260 میں تین اہم واقعات بیان کیے گئے جن میں مرنے کے بعد جی اٹھنے اور توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ پہلا حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کا مکالمہ، دوسرا حضرت عزیرؑ کا واقعہ جب بخت نصر نے بیت المقدس کو ویران کردیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیرؑ کی روح قبض فرما لی اور 100 سال بعد زندہ فرمایا اور تیسرا حضرت ابراہیمؑ اور چار پرندوں کو ذبح کرکے پہاڑیوں پر رکھنا اور ان کا دوڑتے ہوئے آنا۔

آیت نمبر 261 سے 274 میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ مال خرچ کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا بہترین فصل اگانے کے برابرہے جو اسوقت کام آتی ہے جب انسان بوڑھا و لاغر ہو جاتاہے مگر ریاکار کا اجروثواب ختم کر دیا جاتا ہے۔ سود کی حرمت بارے فرمانِ ربی ہے کہ سود حرام اور بیع حلال ہے اور سود خور قیامت میں محبوط حالت میں ہوگا اور سیدھا کھڑا نہ ہوسکے گا۔ آیت نمبر 282 قرآن پاک کی سب سے بڑی آیت ہے جسے آیت مدائنہ بھی کہتے ہیں۔ اس میں لین دین، قرض اور رہن کے اصول بیان کرتے ہوئے قرض دار کو مہلت وآسانی مہیا کرنے اور آپس کے لین دین کو گواہوں کی موجودگی میں لکھ لینے کی ترغیب دی گئی ہے۔

آیات نمبر284 سے سورت کے اختتام تک بیان کر دیاکہ آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہی ہے، وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے اور کوئی ذات و صفات میں شریک نہیں۔ ضروریاتِ ایمان کے چار حصے بیان کئے جن میں اللہ پر ایمان، ملائکہ پر ایمان، اللہ کی کتابوں پر ایمان اوررسولوں پر ایمان لاناہے۔ سورۃ البقرۃ کی ان آخری آیات کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے اور حدیث میں انکو سیکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

نواں رکوع سورۃ آل عمران سے شروع ہوتا ہے جو کہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی جس کے 20 رکوع اور 200 آیات ہیں۔ آل معنی اولاد کے ہیں اور اس میں حضرت مریمؑ کے والد حضرت عمران کی آل کی سیرت و فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ سورۃ البقرہ کی طرح اس میں بھی اہلِ کتاب کو مخاطب کیا گیا ہے۔ سورت کے آغاز میں قرآن پاک کے ساتھ آسمانی کتابوں کا ذکر ہے اور جوان کا انکار کریں ان کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے۔ اللہ تعالیٰ عزت و حکمت والاہے اور کچھ بھی اس سے چھپا ہوا نہیں اور اپنی آیتوں کے صاف اور کھلے معانی ہیں اور کچھ مشتباہ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اسکا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ ان مشتبہات آیات کی تاویلیں اپنی خواہشات کے مطابق کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں جبکہ اہل ایمان دعاکرتے ہیں کہ "اے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اسکے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطاکر بے شک توہے بڑا دینے والا"۔

شہوت پرستوں اور خدا پرستوں کے درمیان فرق ظاہر کرنے کے لیے دنیا کو آراستہ کیا گیا اور ان کو مال، اولاد، عورتوں، سونے چاندی، چوپاؤں اور کھیتیوں سے آزمائش میں مبتلا کیا گیا۔ دنیا داروں نے انکو اپنایا مگر پرہیزگاروں کے لیے بہتر چیزیں ان کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، ان میں پاک و ستھری بیبیاں ہیں جو صبر والے، سچ بولنے والے، ادب والے، راہ خدا میں خرچ کرنے والے اور پچھلے پہر معافی مانگنے والے ہیں۔ آیت نمبر 19 تا 20 میں واضح کر دیا گیا کہ دین صرف اسلام ہی ہے، اسکے علاوہ کوئی ا ور دین قابلِ قبول نہیں، یہودونصاریٰ کے دعوؤں کو ان آیات میں باطل کر دیا گیاجنھوں نے اسلام کو چھوڑ ا اور رسول اللہﷺ کی نبوت میں اختلاف کیا اور جو اللہ کی آیتوں سے روگردانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ رہا ہے۔

Check Also

Badalte Nazriyat Aur Hum

By Aamir Mehmood