Khoshksali, Barish Aur Bahar e Ramzan
خشک سالی، بارش اور بہارِ رمضان

معمول سے کم بارشیں ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شدید خشک سالی کے خطرات بڑھ رہے تھے۔ یکم ستمبر 2024 سے 15 جنوری 2025 تک پاکستان بھر میں معمول سے 40 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔ طویل عرصہ کے بلآخر 19 فروری 2025 بدھ کی رات سے بارش ہوئی جو وقفے وقفے سے جاری رہنے کے بعد اگلے دن ختم ہوئی۔ اس بارش سے خشک سالی کے امڈتے خطرات میں کمی کا امکان بڑھ گیا۔
بارش رحمتِ الہی ہے جب برستی ہے تو مردہ زمین کو زندہ کر دیتی ہے۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے جس کے بعد ماحول خوشنما ہو جاتا ہے۔ خزان بہار میں بدل جاتی ہےموسم بہت خوبصورت ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر رحمت جاری رہتی ہے اور اسی رحمت کا نتیجہ ہے کہ بارشوں کا کئی مہینوں سے رکا سلسلہ دوبارہ فروری کے آخری تین دن جاری رہا۔ ماہ رمضان سے پہلے بارشوں کی وجہ سے موسم نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور خنکی کا احساس ہونے لگا۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ بھی 2 مارچ سے شروع ہوگیا ہے اور اللہ تعالی کے رحمت چھم چھم برسنے کے بعد موسم بہت ہی اچھا ہو چکا ہے۔
پاکستان میں نومبر 2024 کے بعد سے بارش نہیں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے بیماریاں بہت پھیل گئیں جن زیادہ تر بچے اور بوڑھے متاثر ہوئے۔ یہ بات بکل درست ہے کہ انسان جب خوشحالی و تندرستی میں ہوتا ہے تو پھر وہ بہت سی چیزیں پسِ پشت ڈال دیتا ہے اور اسی وجہ سے وہ ناشکرا بن جاتا کیونکہ اُسے ہر چیز مل رہی ہوتی ہے۔ اسی بنا پر پھر اُس سے گناہ بھی سرزد ہو جاتے ہیں اور وہ نافرمانیوں میں بڑھتا ہی جاتا ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد ماحول پر غور کریں تو ہمیں ہر طرف اللہ و رسول کی نافرمانیاں اور احکامات سے روگردانیاں دیکھنے کوملتی ہیں۔ جائز و ناجائز میں فرق ختم ہوگیا ہے، رشوت، جھوٹ، قتل و غارت گری اور انسان کی غزت کو پامال کیا جا رہا ہے۔ کون سا ظلم ہے جو یہ انسان نہیں کر رہا۔ مگر جب اسے تکلیف و آزمائش پہنچتی ہے تو پھر وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتا ہے کیونکہ اُسے پتا ہے کہ وہی وحدہ، لاشریک ذات ہے جو اُسے اِن مصائب و آزمائش سے بچا سکتی ہے۔ اس کے برعکس دوسری طرف اللہ کے وہ نیک بندے ہیں جو ہر وقت اللہ رحیم و کریم کو راضی کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
اللہ کی انہی نیک ہستیوں کی کی وجہ سے سب انسانوں پر کرم ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی اتنا رحیم و کریم ہے کہ بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور رحمت کے دروزے اُن پر وا کر دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مایوسی کی دیواریں چاہے جتنی بلند ہوں، اللہ کی رحمت ہمیشہ ان سے اونچی ہوتی ہے۔ جب سب دروازے بند محسوس ہوں، تب بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔ جب دعا کے الفاظ کم پڑ جائیں، تب بھی ہماری خاموشی اللہ تک پہنچتی ہے۔ وہ ہمارے آنسو بھی سنتا ہے، ہماری خاموشی کو سنتا ہے، ہمارے دل کی وہ بات بھی جانتا ہے جو ہم کبھی کسی سے نہیں کہہ سکتے۔
اللہ وحدہ، لاشریک ذات ہے اور وہی اپنی قدرت سے ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی پاک ذات ہے جو سمندر میں راستے بناتا ہے، مردہ زمین کو بارش سے زندہ کرتا ہے اور جس کی ایک "کُن" کہنے سے سب کچھ بدل جاتا ہے۔ پس ہمیں پختہ یقین ہونا چاہئے کہ ہماری دعا، ہماری امید اور ہمارا یقین کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ اللہ غفور و رحیم کا در وہ در ہے جس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، بس ہم نے اُسی سے مانگنا ہے اور پھر تمہیں وہ ملے گا جس کا تم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔
بلاشبہ بارش قدرت کا انمول تحفہ اور انسان کی بقا کا ذریعہ ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ایسی رحمت ہے جو زمین کو زندگی بخشتی ہے۔ یہ مردہ زمین اور گھاس کو دوبارہ زندہ کرکے ہمیں تازگی عطا کرتی ہے۔ پانی ہی زندگی کی اصل ہے اور آسمان سے برستا مینہ ندی نالوں، دریاؤں اور سمندروں کو بھر دیتا ہے۔ بارش کے بعد ہر طرف ہریالی آ جاتی ہے اور فضا معطر و منور ہو جاتی ہے۔ بارش کے بعد زمین پر ایک نئی رونق اور سبزہ نظر آتا ہے، جو دل کو سکون بخشتا ہے۔
کسانوں کے لیے یہ خوشی کا پیغام ہوتی ہے کیونکہ ان کی کھیتیاں سیراب ہو جاتی ہیں۔ بارش جہاں گرمی کی شدت کو کم کرتی ہے، تو دوسری طرف سردی کوخوشگوار بنا دیتی ہے۔ بچوں کے لیے یہ خوشی اور کھیل کود کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بارش کی ٹپکتی بوندیں، ٹھنڈی ہوائیں اور مٹی کی خوشبو ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ واقعی، بارش ایک انمول نعمت اور انسانی بقا کی ضامن ہے۔
رمضان المبارک کے آغاز میں محمکہ موسمیات نے پشن گوئی کی ہے کہ بارش کھل کر برسیں گے جس سے امید ہے کہ بہار کا سماں ہوگا۔ مسلمانوں پر یہ اللہ تعالی کا احسانِ عظیم ہے کہ وہ اپنے بندوں پر کرم فرماتا ہے اور پھر ماہِ مبارک میں تو رحمت ہی رحمت برستی ہے۔ رمضان المبارک نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے اور اس ماہ میں نیکیوں کا موسمِ بہار ہوتا ہے۔ جہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، مغفرت و توبہ قبول ہوتی ہے اور گناہگاروں کو جہنم سے آزادی کا انعام ملتا ہے۔
بلاشبہ رمضان المبارک کا پانا اور اس میں روزے رکھنا اللہ تعالی کا بہت بڑا کرم ہے اور اسے غنیمت سمجھ کر اس کی برکات کو سمیٹنا چاہئے۔ ہمارے آقا اس ماہِ مبارک کی آمد پر بہت خوش ہوتے اور صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہ اجمٰعین کو اس کی بشارتیں سناتے اور مبارکباد دیتے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی آمد کی بشارت سناتے ہوئے فرمایا: " تمھارے پاس ماہِ رمضان آ چکا جو کہ با برکت مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور اس میں سرکش شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں اور اس میں اللہ کی ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس کی خیر سے محروم رہ جائے وہی دراصل محروم ہوتا ہے"۔
رمضان المبارک میں جن اعمالِ صالحہ کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے ان میں سے ایک عمل تلاوت قرآن کریم ہے۔ رمضان المبارک میں کثرت سے دعائیں کرنی چاہیں اور خاص کر فلسطین و دیگر مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت کی دعائیں کریں۔ رمضان المبارک کے روزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اور خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔ اس سے ذہنی و قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، خواہشاتِ نفس دب جاتی ہیں، دل کا زنگ دور ہو جاتا ہے، انسان گناہوں، فواحشات اور بے ہودہ باتوں سے بچ جاتا ہے۔ روزہ کے ذریعے مساکین و غرباء سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس ماہِ مبارک کی عزت و حرمت اور اس کی دن رات چھم چھم برستی برکات سمٹینے کی توفیق عطا کرے اور تمام امتِ مسلمہ کو اتحاد و اتفاق نصیب کرے، آمین۔

