Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Falasteen Israel Tanaza (8)

Falasteen Israel Tanaza (8)

فلسطین اسرائیل تنازعہ (8)

امتِ مسلمہ میں قیادت کا فقدان آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہمیں ایک بھی اسلامی ملک ایسا نظر نہیں آتا جو اس امت کو متحد کر سکے۔ قائد، رہنما یا حکمران ایسا بلند ہمت شخص ہوتا ہے جومشکلات کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے ایک گروہ، تنظیم یا قوم کو خاص مقاصدکے لیے متحد رکھتے ہوئے ان کی رہنمائی کرکے پیش آمدہ مسائل کو حل کرے۔ اس کے علاوہ معاشرتی، معاشی اور فکری رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی تدابیر کرے جو امت کے لئے فائدہ مند ہو۔

ابن خلدون کے مطابق قائد اکیلا کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ محتاج ہوتا ہے اپنے اعوان و انصار کاجو سب کو اکھٹا رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ان کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ ابن خلدون کی اس تعریف کی روشنی میں اگر ہم آج امتِ مسلمہ کا جائزہ لیں تو آج امت کو ایسی قیادت دستیاب نہیں جو ان کی رہنمائی کرکے یقینِ کامل کے ساتھ میدانِ عمل میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھائے۔

ایسا رہنما آج اس امت کی ضرورت ہے جو نہ صرف اس امت کو بہادری کا درس دے بلکہ انہیں معاشی، معاشرتی، فکری، سماجی، سیاسی اور حالاتِ حاضرہ کو سمجھ کر اقدامات کرکے مستقبل کے لئے نوجوان کو تیار کرے۔ مگر آج ہمیں کوئی ایسا مربی نہیں نظر آتا جو اس امت کے نوجوانوں میں اسلامی اصولوں کے مطابق قائدانہ اوصاف اور صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔

آج امتِ مسلمہ کی سیاسی، معاشرتی، معاشی، سائنسی، طبی، عسکری، تعلیمی، فکری نیز ہر شعبہ ہائے زندگی میں قیادت کا فقدان ہے۔ اس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کم و بیش 2ارب ہے (جو کہ دنیا کا ایک چوتھائی ہے) مگر ہمیں کوئی قائد نظر نہیں آ رہا جو اس امت کا بیڑا اٹھائے تاکہ منجدھار میں پھنسی کشتی باحفاظت ساحل تک پہنچ جائے۔ مگر جس طرح ہم مسلمانوں کے حالات چل رہے ہیں اگر ہماری تعداد دگنی چگنی بھی ہوجائے تو اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں جب تک ہم میں سے کوئی اچھا قائد، رہنما یا حکمران نہیں بناتے۔

اتنی زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود ہمارا رعب و دبدبہ ختم ہوگیا ہے موجودہ دور کے مسلمانوں کے حالات بارے آقا ﷺ نے 1400 سال پہلے ہی پیشنگوئی فرما دی تھی جسے سنن ابوداؤدکے باب "اسلام کے خلاف امتوں کے ہجوم میں" حدیث نمبر 4297کے تحت بیان کی گئی ہے۔ سیدنا ثوبانؓ کا بیان ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا "ایسا وقت آنے والا ہے کہ دوسری امتیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو بلائیں گی، جیسے کھانے والے اپنے پیالے پر ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ تو کہنے والے نے کہا، کیا یہ ہماری ان دنوں قلت یا کمی کی وجہ سے ہوگا؟ آقا ﷺ نے فرمایا، نہیں بلکہ تم ان دنوں بہت زیادہ وہ گے، لیکن جھاگ ہو گے جس طرح کہ سیلاب کا جھاگ ہوتا ہے رب تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گااور تمہارے دلوں میں "وھن" ڈال دے گا۔ اس پوچھنے والے نے پوچھا، اے آقا ﷺ "وھن"سے کیا مراد ہے؟ آقا ﷺ نے فرمایا "دنیا کی محبت اور موت سے کراہت"۔

اس حدیث کی روشنی میں ہمارے آج کے حالات سو فیصدی ایسے ہی ہیں کہ ہم اپنے دلوں میں بے ثبات دنیا کی محبت لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور موت سے نہ صرف بے خبر ہیں بلکہ اس سے کراہت کرتے ہیں اور حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر اپنی دینا کو سنوار رہے ہیں۔

دورِ حاضر میں دوسری امتیں (یہود و ہنود) امتِ مسلمہ کے خلاف برسرِ پیکار ہے مگر ہم ابھی بھی خوابِ غفلت میں ہیں۔ حالیہ فلسطین اسرائیل تنازعہ اس کی عبرت ناک مثال ہے جس میں مخالفینِ امتِ مسلمہ سب اکھٹے ہیں اور بے دردی سے مسلمانوں کو قتلِ عام جاری ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اتحادبین المسلمین کا نہ ہان اور قیادت کا فقدان ہے۔ تمام اسلامی ممالک (57) کے سربراہان، صدور، وزرائے اعظم، بادشاہ، خادمین و سلاطین ہیں مگر کیا کوئی ایک بھی اس قابل ہے کہ امتِ کی قیادت کر سکے؟ جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ سب امت کا درد اور خیال کرنے کی بجائے اپنی عیش و عشرت کی زندگی میں مگن ہیں اور امت کے مسائل اور ان کے حل پر متقفق نہیں ہوتے۔

امتِ مسلمہ کا خون بہت ارزاں ہوگیا ہے جس کا جب جی چاہے اور جہاں جی چاہے مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کر دیتا ہے اور ہمارے حکمران لفاظی بیانات دے کے مبرا ہو جاتے ہیں۔ ہماری کتاب ایک، ہمارا قبلہ ایک، ہمارا دین ایک، ہمارا نبی ﷺ ایک مگر آج ہم فرقے فرقے کیوں ہیں؟ آج ہم میں قیادت کا فقدان کیوں پایا جاتا ہے؟ علامہ ڈاکٹر اقبالؒ نے اپنے دل کی کیفیت اور مسلمانوں کی حالتِ زار کو اپنے مشہورِ زمانہ کلام "جوابِ شکوہ"کے اشعار میں یوں بیان کیا ہے کہ:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلماں بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پننے کی یہی باتیں ہیں

شاعرِ مشرق کایہ کلام جس دور میں بھی پڑھا جائے گا مسلمانوں کی یہی حالت نظر آئے گی جب تک عالمِ اسلام اپنے المیہ سے باہر نہیں نکل آتی۔ آج امت کا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان ہے جو تب ہی مل سکتی ہے جب ہم باضمیر، متحد اور سنجیدہ ہوکر اپنی سوچوں کو ایک مرکز پر مرکوز کریں ورنہ ہماری حالت بدسے بدتر ہوتی جائے گی۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح قرآن و سنت کے تناظر میں کریں ورنہ مسلمانوں پر ظلم و بربریت کا دور ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔

ہمارا فکری، فہمی، تدبیری جمودہمیں حالاتِ تازہ کو تحقیقی آنکھ اور کھلے دماغ سے سوچنے اور پھر عملی اقدام کرنے نہیں دیتا جو کہ امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور انہی اثرات کی وجہ سے امت میں انقلابی قیادت کا فقدان ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے قیادت کے فقدان کی وجہ سے مسلم نوجوان مایوسی کا شکار ہیں کہ ان کو باکرادر قائد، رہنما اور حکمران میسر نہیں کیونکہ ہر اہم منصب پر کچھ خاندانوں کا قبضہ چلا آ رہا ہے جس سے موروثی قیادت چلتی آ رہی ہے۔ یہ لوگ دینی، ملی، شعوری، معاشی، معاشرتی، سائنس و ٹیکنالوجی اور حالاتِ حاضرہ کی مہارتوں سے بے بہرہ ہیں۔

امتِ مسلمہ کے فکر و عمل میں تبدیلی لانا والے جب میسر نہیں ہونگے تو پھر کیسے یہ امت آگے بڑھے گی؟ کیسے یہ فرسودہ نظام ختم ہوگا؟ امت کو خود غرضی، مفادپرستی، سرمایہ داری، جاگیرداری اور نام نہاد سرداری جیسے بتوں کو توڑنا ہوگا تاکہ یہود و ہنود کاہر میدان میں مقابلہ کیاجائے۔ علامہ اقبالؒ علی گڑھ میں دیے گئے ایک تاریخی خطبے بعنوان "ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر" میں قیادت کے بارے گفتگو کی کہ وہ کیسے حالات ہوتے ہیں جن میں قیادت پیدا ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں "جو قوم مخالف قوتوں سے سقیم الحال ہوگئی ہو تو اس کے اندر خودکار ردعمل قوتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے اس قوم و سلطنت میں ایسا زبردست انسان پیدا ہو جاتا ہے جو قوم کی بیماریوں کا علاج کرکے اسے نئے سرے سے تندرست و توانا بنا دیتا ہے"۔

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تھجے حاضر و موجود سے بیزار کرے

دے کے احساس زیاں، تیرا لہو گرمادے
فقر کی سان چڑھا کر، تجھے تلوار کر دے

فتنہ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے

امتِ مسلمہ کے افراد، حکمران اور مذہبی و سیاسی قائدین پر یہ فرض عائدہوتا ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات مٹا کر متحد ہو جائیں اور سب مل کر امتِ واحد کی طرح یہود و ہنود اور خاص کر اسرائیلی صہونیت کے سامنے رکاوٹ بن جائیں کیونکہ ارضِ مقدس صرف فلسطینیوں کا ہی نہیں بلکہ ساری امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ دعا ہے کہ رب تعالی اس امت کومخلص، باصلاحیت، دلیر، باضمیر، اتحادِ امت کا داعی اور غیرتِ ایمانی رکھنے والی قیادت عطا فرمائے، آمین۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood