Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Falasteen Israel Tanaza (7)

Falasteen Israel Tanaza (7)

فلسطین اسرائیل تنازعہ (7)

غزہ کی پٹی میں جنگ اسرائیلی دہشتگردی اور وحشیانہ کاروائیوں کو واضح کرتی ہے جس میں ہزاروں ں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ ان ظالمانہ اور وحشیانہ اسرائیلی فوجی حملوں میں روزانہ اوسطاََ 140 بچے شہید ہوتے رہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ غزہ کے معصوم بچوں کی یہ اموات اب تک دنیا کی کسی بھی جنگ میں سب سے زیادہ ہیں۔

اسرائیل کی ان وحشیانہ کاروائیوں کے خلاف ساری دنیا میں احتجاج اور مظاہرے ہوتے رہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں فلسطینیوں کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو چکا ہے اور اب تک فلسطینی معیشت کو 900 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس جنگ کی وجہ سے غزہ باقی دنیا سے 20سال پیچھے چلا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

اس جنگ کی وجہ سے فلسطین کی جی ڈی پی 32 فیصد کم ہوگئی ہے جبکہ غزہ کی پٹی میں 19 فیصد کم ہوئی ہے۔ اس سے پہلے جتنی بھی جنگیں ہوئیں ہیں ان میں اس طرح کے اعداد کو شمار نہیں پائے گئے کیونکہ ایسی جنونیت، نسل کشی اور انسانی ترقی میں رکاوٹ نہیں دیکھی گئی۔ ظالم اسرائیلی افواج نے فلسطین کا ڈھانچہ تہس نہس کر دیا ہے جس سے ہر چیز کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ نہ صرف سفارتی بلکہ علم و ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی اپنے کلام اور تحریروں میں اجاگر کیا ہے۔ اسی طرح شاعرِ مشرق نے بھی اپنے کلام میں فلسطین کو بہت اہمیت دی۔ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام کے ذریعے نہ صرف مسلمانانِ برصغیر بلکہ تمام اہلِ اسلام کو خوابِ غفلت سے جگانے، آباو، اجداد کے نقشِ قدم پر چلنے کے ساتھ نئی بدلتی دنیا میں اپنا مقام بنانے اور اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرنے کا جذبہ بیدار کیا۔ آپ نے نوجوانانِ اسلام کو شاہین قرار دیا اور ان میں جذبہِ خودی کا جگایاتاکہ وہ نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرکے جددیت کا مقابلہ کرکے سرخروع ہو۔

علامہ اقبالؒ نہ صرف مصورِ پاکستان تھے بلکہ آپ عظیم مفکرِ اسلام بھی تھے اور برصغیر کے سیاسی، معاشی و معاشرتی حالات کے علاوہ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلوں پر بھی گہری نظر رکھتے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے لئے گہرا درد رکھتے تھے۔ آپ کی دورس نگاہوں نے اس دور میں ہونے والی یہود و نصاری کی سازشوں اور خاص طور پر جنگِ عظیم دوئم میں فلسطین پر یہودی کی آباد کاری سے پیش آمادہ فتنے و فساد کو بھانپ لیا۔

برطانیہ اور فرانس کی مدد سے یہودی ارضِ مقدس پر بسنا شروع ہو گئے اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی اہلِ فلسطین پر مظالم کی انتہا کر دی جو آج تک جاری ہے۔ علامہ اقبال آج سے ایک صدی پہلے یہود و نصاریٰ کے عزائم سے واقف ہو گئے تھے جن کا انھوں نے ضرب کلیم (سیاسیات مشرق و مغرب) میں اپنے کلام کے ذریعے اظہار کیا ہے۔

ہے خاک فسلطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

اگر ہم افکارِ اقبال اور کلام اقبال کو پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ آپ امتِ مسلمہ کو پیش آنے والے مسائل اور مظالم پر بے چین ہو جاتے اور خاص کر ارضِ مقدس (فلسطین) کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ آپ ہمیشہ سے یہود نواز پالیسوں کے خلاف رہے اور جب جب ان کے خلاف تقاریب ہوئیں تو آپ نے ان میں شرکت فرمائی۔ آپ یہودیوں کی سفاکیت کی مذمت کرتے رہے اور ان کو بتاتے رہے کہ تم پر مسلمانوں نے احسان کیے کہ تمہیں یورپ کے مظالم سے نجات دلوائی مگر تم اتنے احسان فراموش نکلے کہ تم مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کرنے لگے اور ان کے مقاماتِ مقدسہ کو نقصان پہنچا رہے ہو اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

خلافتِ عثمانیہ کے دور میں ترکوں نے یہودیوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں دیوارِ گریہ (جو کہ یروشلم میں قبۃ الصخرہ کے قریب ہے اور مسلمان اسے دیوارِ براق بھی کہتے ہیں) کے سامنے عبادت کی اجازت دی ہوئی تھی۔ علامہ اقبالؒ مختلف بین الاقوامی کانفرسوں میں شرکت فرماتے رہتے تھے جہاں وہ مسلمانوں کے حقوق بارے بات کرتے اور خاص کر مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کو کافی اہمیت دیتے تھے۔

مفکرِ اسلام علامہ اقبالؒ نے 1931 میں امین الحسینی کی دعوت پر فلسطین کا دورہ کیا اور عالمی اسلامی کانفرس کے لیے یروشلم پہنچ گئے۔ اس دورے کے دوران علامہ اقبالؒ مسجدِ اقصیٰ بھی گئے اور وہاں نمازِ مغرب ادا کی، تلاوت و نعت خوانی کی محفل میں شرکت کرنے کے بعدعشاء کی نماز وہیں ادا کی۔ جتنے دن آپ ارضِ مقدس پر رہے اتنے دن (7دن) مسجدِ اقصیٰ میں آ کر نماز ادا کرتے رہے۔

موتمر العالم اسلامی کے اجلاسوں میں شرکت میں عالمِ اسلام سے خطاب کے دوران اسلام اور مسلمانوں کو طاغوتی طاقتوں کی سازشوں سے آگاہ کیا اور مسلمانوں کو آپس میں اخوت و بھائی چارے کو زیادہ فروغ دینے پر زور دیا۔ اہل یورپ اور یہود و نصاریٰ کے ارادوں کو بھانپ کر آپ نے مسلمانوں اور خاص کے نوجوانانِ اسلام کو آگاہ کیا۔ ضربِ کلیم میں رام تہذیب کے عنوان سے نظم میں اپنے دل کی بات کہہ دی:

اقبال کو شک اُس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار

یہ پیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اُس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھُلتا نہیں یہ عقدہِ دشوار

ترکان 'جفا پیشہ' کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

علامہ اقبالؒ کی تڑپ عالم اسلام اور خاص کر ارضِ مقدس کے لیے کبھی کم نہ ہوئی۔ آپ نے برطانیہ پر ذور دیا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے کیونکہ آپ جان چکے تھے کہ برطانیہ اپنے استعماری عزائم کے لیے مشرقِ وسطی میں ایک اڈہ بنانا چاہتا ہے تاکہ عالم اسلام کو کنٹرول کیا جائے۔ ان تمام امور پر بغور سوچتے ہوئے اور سفارتی سطح پر بات چیت کے بعد آپ نے قائداعظمؒ کو 7 اکتوبر1937کو ایک خط لکھا کہ "ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندوستان متاثر ہوتے ہیں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا اڈہ بننا اسلام او رہندوستان دونوں کے لئے پُر خطر ہے"۔

علامہ اقبالؒ بہت پہلے ہی جان چکے تھے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی رگِ جان یہودیوں (جو کہ اب ناجائز ملک اسرائیلی صہیونی ہیں) کے قبضے میں ہے۔ اپنے مشہور کلام ضربِ کلیم میں فلسطینی عرب کے عنوان سے نظم میں فرماتے ہیں:

تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے

علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی خط و کتابت کی وجہ سے قائداعظمؒ کو بھی مسئلہِ فلسطین کو اجاگر کرتے رہنے بارے مشورے دیتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ قائداعظمؒ نے نہ صرف فلسطینیوں کے لیے باقاعدہ فنڈ قائم کئے بلکہ 19 جون 1936، 13 دسمبر 1937، 8 فروری 1938 اور26 اگست 1938کو سارے ہندوستان میں یومِ فلسطین منایا گیا۔ علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات اور فلسطنیوں کے ساتھ روابط اور اسلامی تشخص کو مدنظر رکھتے ہوئے23مارچ1940کولاہورمیں قراردادِ پاکستان کے ساتھ ساتھ قرارداد فلسطین بھی منظور کی گئی۔ اسی وجہ سے قائداعظمؒ نے 1948 میں اسرائیل کے ناجائز قیام کو تسلیم نہیں کیا۔

آج فلسطین میں حق و باطل کا معرکہ جاری ہے، فلسطینی نصرتِ خداوندی پر بھروسہ کرتے ہوئے ارضِ مقدس کے حفاظت کے لئے نہ صرف اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کررہے اور اسرائیلی صہونی جنونیت و دہشت گردی کے سامنے آہنی دیوار ثابت ہو رہے ہیں۔

علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں ہر پاکستانی فلسطین سے محبت کرتا ہے اور یہ نہ صرف ہماری خون میں شامل ہے بلکہ ہمارے نظریاتی و اسلامی اساس کی ترجمانی ہے کہ "ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے "۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail