Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Falasteen Israel Tanaza (5)

Falasteen Israel Tanaza (5)

فلسطین اسرائیل تنازعہ (5)

فلسطین اسرائیل کے مابین 7اکتوبر 2023سے جنگ میں ہلاکتیں بوسنیا میں ہونے والے 1995کے قتلِ عم سے بھی زیادہ ہیں۔ ہُسنی نیڈم کے مطابق اس جنگ کے دوران 26,000 ہزار بچے یتیم ہوئے جبکہ 17,000 بچوں کو بنا کسی گناہ کے شہید کر دیا گیا۔ اس جنگ کے دوران اب تک 96,000 لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔ کسی بھی جنگ زدہ علاقے میں بچوں کی یہ ہلاکتیں سب سے زیادہ ہیں۔ پندرہ ماہ سے جاری اس جنگ میں اب تک 217 صحافی لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 49 صحافی زخمی ہیں۔

اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ کرکے کھانے پینے اوربجلی جیسی بنیادی ضروریات کو روکے رکھا اور نہتے معصوم لوگوں پر مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ ان تمام کاروائیوں سے اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور اس بات کا اعتراف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی کر چکا ہے۔

اسی تناظر میں اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرپوسٹ کی گئی کہ "حماس کے ساتھ اسرائیل کا تنازعہ روشنی کے بچوں اور اندھیرے کے بچوں، انسانیت اور جنگل کے قانون کے درمیان تنازع ہے"۔ بعد میں اس پوسٹ کو پھر حذف کر دیا گیا مگر جو اصل حقیقت تھی وہ کھل کر سامنے آ گئی۔ علاوہ ازیں، اسرائیلی وزیراعظم اور باقی صہیونی رہنما ہر موقع پر ان خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ مرد، عورتوں، بچوں اور مویشیوں کا قتل صہیونی نظریہ ہے۔

اس قتلِ عام کے خاتمے کا حل فوری جنگ بندی ہے جس پر آخر کار اسرائیل اور حماس میں مثبت مذاکرات ہوئے۔ 20 جنوری 2025 کو نئے امریکی صدر کا حلف اُٹھانے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا کہ اس جنگ بندی میں انھوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی جنگ بندی کی کوششں کی گئیں جسے اُس وقت کے امریکی صدر جوبائیڈن اور نیتھن یاہونے ملکر کامیاب نہ ہونے دیا بلکہ امریکی و اسرائیلی فوجوں نے زمینی کاروائیاں تیز کردی تھیں جس سے واضح ہوتا تھا کہ اسرائیل جنگ کو خاتمہ کی طرف لے جانے کی بجائے اس کو طول دینا چاہتا ہے۔

ان تمام کاروائیوں کے پیچھے اسرائیل کو امریکہ کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی۔ اسرائیل اپنی کاروائیوں میں شدت لاکر 27اکتوبر کو مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ سروس کو مکمل طور پر معطل کر دیا جس کی وجہ سے غزہ کی پٹی کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوگیا۔ اس ظالمانہ اور شدت پسندانہ اقدام کی وجہ سے زخمیوں اور شہریوں تک رسائی ناممکن ہوگئی۔ اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کو تباہ کر دیا۔ اس تنازعہ کو تاریخی حوالوں سے اگر دیکھا جائے تو فلسطین کے مقاماتِ مقدسہ پر حقِ وراثت کا دعویٰ ہے۔ غزہ کی پٹی لہو لہو ہے اوراسرائیل سفاکانہ طور پر بے یارومددگار شہریوں کا قتلِ عام کر رہاہے۔

یورپی ممالک اور ہمارا ہمسایہ بھارت اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں، بھارت نے تو سب سے پہلے اسرائیل کے حق میں بیان دیا جبکہ اس وقت تک معاملے کا اسرائیل کو بھی پورا علم نہ تھا۔ اسرائیل کی دہشتگردانہ اور غیر انسانی کاروائیوں کی وجہ سے ہزاروں انسان اس جنگ میں نہ صرف مال و اسباب بلکہ اپنی قیمتی جانیں بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ 30 اکتوبر 2024 کو حماس کے عسکری ونگ عزالدین القاسم برگیڈ نے یرغمال بنائے گئی تین اسرائیلی خواتین کی ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں یرغمالی قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت اور خاص کر نیتن یاہو کو برا بھلا کہہ رہی ہیں۔

ان کے مطابق نیتن یاہو اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکا اور دونوں ملکوں کی عوام غلط سیاسی اورفوجی پالیسیوں اور ہٹ دھرمیوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اس ساری جنک کا ذمہ داراکیلا نیتن یاہو ہے۔ حماس کی اس وڈیو پہ نیتن یاہوکھل کر سامنے آیا اور اس نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کرتے ہوئے اس پیغام کو نفسیاتی پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہر جنگ کے اثرات نہ صرف ان ممالک کی معیشت بلکہ عالمی معیشت پر بھی گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ انہی جنگوں کی وجہ سے نہ صرف ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ ممالک پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا، جنگ بندی نہ ہو پائی اور جنگ طویل ہوگئی تو اس سے معاشی نمو پر بھی اثرات پڑیں گے۔ اسی طرح عالمی سطح پر تیل کی خرید و فروخت پر اثرات مرتب ہونا شروع ہو چکے ہیں کیونکہ تیل کی سپلائی کا پانچواں حصہ خلیجی ممالک سے آتا ہے۔

اسی بنا پر اور جنگ کی طوالت کی وجہ سے سپلائی 6سے 8ملین بیرل کم ہونے کاخدشہ ہے۔ اس کمی کی وجہ سے ماہرین کے مطابق 56سے75فیصدتیل کی قمیتیں بڑھیں گی۔ ترقی پذیر ممالک کے افراطِ زبہت حد تک بڑھ جائے گا جس سے رہی سہی معشیت بھی ڈولنے لگی گی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جنگیں ہمیشہ بری خبر لاتی ہیں اور ان کے اثرات بین الاقوامی سطح پر ہوتے ہیں۔ 19 لاکھ فلسطینیوں کا انخلاء بھی ایک بہت بڑا بحران پید اکر دے گا۔ اسرائیل تو اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور اسے کسی قسم کی کوئی پروا نہیں اور نہ ہی اس کو کوئی روکنے والا ہے۔

اب مسلم ممالک پر یہ فرض عائدہوتا ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات مٹا کرمتحد ہو جائیں، اسرائیل کو جنگ بندی پر عمل درآمد کروائے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اسرائیل کی جانب سے بربریت کا سلسلہ جاری ہے۔ جنگ بندی معاہدے کی منظوری کے بعد اسرائیلی وحشیانہ کاروائیوں میں 28 بچوں اور 31 خواتین سمیت 113 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

موجودہ حالات میں مسلمان ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عملی قدم اُٹھائیں اور سب مل کر امتِ واحد کی طرح اسرائیل کے سامنے رکاوٹ بن جائیں کیونکہ یہ صرف فلسطینیوں کا ہی نہیں بلکہ تمام امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ اگر اب بھی امتِ مسلمہ نہ سمجھی تو پھر اسرائیل اپنے منصوبے " گریٹراسرائیل" کی تکمیل کے لئے نہ صرف مزید فلسطینی علاقوں پر قبضے کرے گا بلکہ دوسرے عرب ممالک شامل ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق یہ ممالک اردن، شام اور لبنان کا نام ایک نقشے کے مطابق شامل ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو مسلمانوں کو یہود و ہنود گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہیں گے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اس بارے اپنے دردِ دل کو ضربِ کلیم میں یوں بیان کرتے ہیں۔

رندان فرانسيس کا ميخانہ سلامت
پر ہے مے گلرنگ سے ہر شيشہ حلب کا

ہے خاک فلسطيں پہ يہودي کا اگر حق
ہسپانيہ پر حق نہيں کيوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکيت انگليس کا کچھ اور
قصہ نہيں نارنج کا يا شہد و رطب کا

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan