Falasteen Israel Tanaza (4)
فلسطین اسرائیل تنازعہ (4)

7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی فلسطین اسرائیل جنگ میں اب تک 47 ہزار کے لگ بھگ ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ 10 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل غزہ پر مسلسل خوفناک بمباری کر رہا ہے اور دوسری طرف حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی بارے مذکرات بھی ہو رہے ہیں۔
اسرائیل نے جب سے اس پاک سرزمین پر ناجائز قبضہ کیا اور غیر قانونی طریقے سے اپنے آپ کو منوانے کا طریقہ اپنایا تب سے وہ اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل اور حقوقِ انسانی کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اسرائیل کے ان تمام اقدامات پر حقوقِ انسانی کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں کیونکہ شہید ہونے والے مسلمان ہیں جن کے حقوق ان نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو نظر نہیں آتے۔ ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے اسرائیلی دہشت گردی کا شکا ر ہو چکے ہیں مگر وہ ڈتے ہوئے ہیں کیونکہ کہ وہ نہ صرف اپنے حقوق بلکہ مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان شہادتوں میں سے ایک غزہ سے تعلق رکھنے والی معروف مصنفہ، ناول نگار اور شاعرہ حبا ابوندا نے اپنے X اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ "اگر ہم مر جائیں تو جان لیں کہ ہم ثابت قدم ہیں اور حق پر ہیں"۔ مگر مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان حکمران اور ان کی غیرت کدھر ہے؟ فلسطین کے عوام پر ان کی اپنی ہی زمین تنگ کر دی گئی ہے اور بڑی بے دردی سے مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے۔ اسرائیلی دہشت گرد اور انکے بمبار طیارے ہسپتالوں پر بھی فضائی حملے کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے مقصد کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ آج کے مسلمان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا اصل مقصد کیا ہے اور خاص کر آج کی نوجوان نسل اس سے ناواقف ہے۔
اسرائیل خالص مذہبی بنیادوں پر قائم ہوا جو کہ مغربی ایشیاء کا یہودی جمہوری ملک ہے اور اب یہ دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے۔ تاریخی طور پر یہودی اپنے نظریے"گریٹر اسرائیل" کو پروان چڑھا رہے ہیں اور اسی کو پورا کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور یہودی طاقتوں نے یروشلم کو بین الاقوامی شہر مان کر نہ ختم ہونے والے فلسطین اسرائیل جنگ کا اعلان کر دیا۔ یہ ایسی جنگ ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی کیونکہ اس کے پیچھے مذہبی عقاہد ہیں جس کے مطابق یہودی سمجھتے ہیں کہ مسجد اقصی کی جگہ ہیکلِ سلیمانی تھا اور مقدس تابوت "تابوتِ سکینہ"اسی ہیکل میں رکھا گیا تھا۔ یہ مقدس تابوت حضرت آدمؑ سے لیکر حضرت داؤدؑ تک نسل در نسل پہنچتا رہا جس میں مقدس چیزیں جیسے کہ یوسفؑ کے کپڑے، توریت کا اصل نسخہ، تختیاں، من و سلوی کے برتن اور موسیٰؑ و ہارونؑ کے عصا وپرائن و مرتبان محفوظ تھے۔
قرآن کریم میں اس تابوت کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 248 میں آیا ہے کیونکہ بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی کی نشانی مانگتے تھے اس پر حضرت شموئیلؑ نے رب کی عطا سے فرمایا کہ طالوت کی بادشاہی کی نشاہی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ بابرکت تابوت آ جائے گا جس سے تمہیں تسکین ملتی تھی اور جس میں حضرت موسی و ہارون علیہ الصلوۃ والسلام کے تبرکات تھے۔ بنی اسرائیل میں یہ تابوت چلتا آ رہا، اسی کے ذریعے وہ جنگیں جیتتے اور کوئی بھی مشکل درپیش آتی تو تابوت کو سامنے رکھ کر دعائیں کرتے جو قبول ہو جاتیں۔ مگر رفتہ فتہ بنی اسرائیل کی بداعملیاں بڑھ گئیں اور بابرکت و مقدس تابوت ان سے چھن گیا اور وہ اپنی گستاخیوں کی وجہ سے مصائب و امراض میں مبتلا ہو گئے۔ تابوت کی بے ادبی ان کی بربادی و ہلاکت کا باعث بناجب انہوں نے تابوت کو بیل گاڑی میں رکھ کر بیلوں کو چھوڑ دیا اور اللہ کے حکم سے فرشتے اسے بنی اسرائیل سے طالوت کے پاس لے گئے۔
جہاں آج مسجد اقصیٰ ہے وہاں حضرت داؤدؑ نے ایک مضبوط عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جسے بعد میں حضرت سلیمانؑ نے مکمل کیا اور تابوت کو وہاں رکھ دیا گیا۔ رومیوں کے بادشاہ بخت نصر نے 586 قبلِ مسیح میں حملہ کرکے اس کو نقصان پہنچایا اور اہلِ بابل تابوتِ سکینہ کو اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ اس تاریخی حوالہ سیدنا امام مہدیؑ سے بھی ملتا ہے کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو تابوت کو فلسطین کی "طَبریہ" نامی جھیل یا پھر ترکی کے شہر "انطاکیہ" کی کسی غار سے نکال کر لائیں گے۔ اس وقت سے یہودی اس تابوت کی تلاش میں ہیں کیونکہ ان کے مطابق اگر یہ تابوت ان کو مل جائے تو وہ پوری دنیا پر حکومت کر سکتے ہیں۔
اب یہودی مسجد اقصیٰ کو گرا کر اس کی جگہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں جبکہ تاریخی شواہد سے یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اصل میں ہیکلِ سلیمانی اسی جگہ تھا جہاں یہودی اس کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے اب تک اسرائیل اور اہلِ فلسطین کے درمیان متعدد لڑائیاں ہو چکی ہیں جس میں اسرائیل اتحادی ممالک خاص کر امریکہ کی ایماء پر ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے۔
شریر، جنونی اور متعصب یہودی مسجدِ اقصی کو گرانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے ارادے پورے ہو سکیں اور وہ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کریں جو کہ جنگ کی وجہ بنتی ہے۔ آج یہ اسرائیلی حکمران طاقت کے بل بوتے پر نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور شعائر اسلام کو شہید کرکے تیسرا ہیکل بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ حالیہ اسرائیلی حملوں اور جنونیت مسلمان حکمرانوں کے لیے خوابِ خرگوش سے جاگنے کا وقت ہے۔
آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہ
وحدت افکار کی ہے، وحدت کردار ہے خام

