Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Falasteen Israel Tanaza (13)

Falasteen Israel Tanaza (13)

فلسطین اسرائیل تنازعہ (13)

گزشتہ روز کچھ معلومات ڈھونڈتے ایک دلخراش ویڈیو سامنے آئی جس میں مسجد پر اسرائیلی حملے کو دکھایا گیا، نمازی حضرات جو اللہ تعالی وحدہ، کی عبادت کو آئے تھے اُن کی لاشے جابجا بکھرے پڑے تھے۔ اس طرح کی فلسطین میں قتل ہوتے بچوں، عورتوں، جوانوں، بزرگوں کی تصویریں ہم سب تک پہنچتی رہتی ہیں مگر صد افسوس کہ ہم انہیں دیکھ نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر زخمیوں اور بچ جانے والوں کی بات کریں تو اُن پر قیامت گزر رہی ہے کیونکہ وہ اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے ہیں اور اب وہ خود بھی اس قابل نہیں کہ زندگی کو پہلے کی طرح گزار سکیں۔

اُن کی دل فگار آہیں عالمی ضمیر کو جنجھوڑ رہی ہیں کہ اُن کو احساس ہو کہ انسانیت کس طرح ان وحشی و سفاک اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں تباہ ہوگئی ہے۔ مگر عالمی برادری کے اذہان و قلوب بند بلکہ مردہ ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ اب امت مسلمہ کے پاس مذمت، افسوس اور تعزیت کے سب الفاظ و احساسات ختم ہو چکے ہیں۔ ایسا محسوس پوتا ہے کہ اہل فلسطین و مسجد اقصیٰ کا کوئی مسئلہ ہی نہیں اور اہلِ فلسطین نے ہماری ہمدردیاں ختم ہوگئی ہیں کیونکہ ہم اپنی خوشیوں میں مگن ہیں۔ ہم سے تو معاشی بائیکاٹ تک نہیں ہوتا۔ بقول ناصر کاظمی:

ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہوگا

اسرائیل نے غزہ کے بستی کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی ٹھان لی ہے اور وجہ سے آج غزہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ دنیا میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور تاریخ میں اس جیسا ظلم نہیں ملتا۔ مسلمان کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور باقی مسلمان دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ فلسطینیوں کا یہی قصور ہے کہ وہ قبلہِ اول کی حفاظت میں جان کی بازی لگا رہے ہیں اور کرہِ اقدس کو اپنے خون سے سینچ کر اسے بچانے کی کوشش میں ہیں۔ فلسطین مقتل گاہ بن چکا ہے اور قتل ہونے والے معصوم بچے، معصوم بیٹیاں، معصوم بہنیں ہیں۔ اللہ تعالی اس ظلم اور اس پر ہماری خاموشی کو دیکھ رہا ہے۔

ہمارا بہت بڑا امتحان ہو رہا ہے۔ اللہ تعالی غزہ میں اِن معصوموں کے لئے غیبی اندا بھیج سکتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بھی اہلِ فلسطین کی بیٹیوں کی عزت کو بچانے کے لئے آئی تھی جو کہ آج بھی ہو سکتا ہے۔ بہادر مسلمان عزت و ناموس کے حفاظت کرنا جانتے ہیں اور اللہ تعالی کی مدد اُن کے شاملِ حال رہتی ہے۔ سورہ النساء آیت 75 میں ارشادِ ربانی ہے، "اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑواور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر (نہ لڑو جو) یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس شہرسے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنادے اور ہمارے لئے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنادے"۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مفتیان عظام (مفتی منیب الرحمان صاحب اور مفتی تقی عثمانی صاحب) نے بھی گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں مجلس اتحاد امت کے زیرِ اہتمام کانفرس بعنوان "فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داری" میں فتوے جاری کرکے امت کو فلسطین کے جہاد و امداد کی ترغیب دلوائی ہے کہ اِن حالات میں جہاد امت پر فرض ہو چکا ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ مذمتی قراردادیں اور احتجاجی مظاہرے، اسرائیل مردہ باد کے نعرے، سڑکوں پر اسرائیلی جھنڈے بنانا صیہونی اسرائیلیوم کی بے رحم توپوں کے دہانے بند نہیں کر سکتے بلکہ جہاد ہی واحد راستہ ہے اِن درندوں کو شکست دینے کا۔ اس فتوی کے بعد فواد چوہدری اور شیر افضل مروت نے نہ صرف تنقید کی بلکہ علماء پر غلط اعتراضات و طنزیہ باتیں کی جو کہ قابلِ مذمت ہیں۔ ایسی بات کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ ہماری پارلیمنٹ میں موجود ارب پتیوں میں سے کسی نے ایک ٹکے کی امداد نہیں کی وہاں یہ اعتراضات کیوں نہیں کئے جاتے؟

اردو شاعری میں بھی شعراء نے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا ہے جس میں سب سے زیادہ شاعرِ مشرق کا نام ہے۔ اس کے علاوہ بھی تقریباً ہر شاعر نے فلسطین و مسجد اقصی پر اشعار لکھے ہےں۔ ڈاکٹر منشاء الرحمن خاں منشاء کی ایک نظم ہے، اس کا ایک حصہ تحریر کا حصہ بنا رہا ہوں جو مجاہدین فلسطین کو خراجِ تحسین ہے:

اے ارضِ فلسطین کے جانباز سپوتو
ہمت نہ کبھی جہد کے میدان میں ہارو

ہے تم کو قسم اپنے تر و تازہ لہو کی
دکھلاتے رہو جذبۂ ایمان کی گرمی

تم اصل میں ہو مسجدِ اقصیٰ کے نگہبان
رہنا ہے تمھیں شام و سحر بر سرِ پیکار

کرنی ہے حفاظت تمھیں نبیوں کی زمیں کی
لاؤ نہ کبھی عظمتِ کردار میں پستی

اے امت مسلمہ کے حکمرانوں، اگر اب بھی ہم ظالم کے سامنے لھڑے نہیں ہوں گے تو پھر کب ہوں گے؟ قبلہِ اول ہمیں بلا رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، یومِ آخرت کیا جواب دیں گے؟ طاقت آپ کے پاس ہے، ہمت کریں، امت کو متحد کریں اور اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کو نکلیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari