Saturday, 26 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Falasteen Israel Tanaza (12)

Falasteen Israel Tanaza (12)

فلسطین اسرائیل تنازعہ (12)

فلسطین اسرائیل تنازعہ کو 19 جنوری 2025 کو امن معاہدے کے تحت روکا گیا جس سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب اسرائیلی دہشت گردی رک جائے گی مگر ایک بار پھر صہیونی اسرائیلی قیادت نے ثابت کر دیا کہ اُسے کسی معاہدے اور انصاف کرنے والے اداروں کے فیصلوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ نتن یاہونے معاہدے کو عملَاَ ختم کردیا ہے اور کھلم کھلا خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دوبارہ شدت سے حملے کرنا شروع کیے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی حرمت کو بھی پامال کیا اور اس قدر شدید دھماکے کئے جس سے انسانی لاشے آسمان کو چھونے لگے۔

اس کے علاوہ اسرائیل امدادی قافلوں پر بھی حملے کر رہا ہے جس سے امدادی کاروائیوں میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اسرائیلی افواج صحت کے مراکز پر بھی حملے کر رہا ہے جس کی وجہ سے زخمیوں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی اموات زیادہ ہو رہی ہیں۔ اسرائیلی بربریت کی وجہ سے غزہ میں عمارتیں، تعلیمی درسگاہیں اور سٹرکیں ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ صہیونی افواج نے صحافیوں کو بھی نہیں چھوڑ رہے جن کا مقصد اصل حقائق کو دنیا کے سامنے لانا ہے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ ہوں۔

اسرائیل یہ جرائم کھلے عام کرتا ہے اور مظلوم نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ امن معاہدہ کے بعد جب بے گھر فلسطینی واپس لوٹے تو اُن پر حملے کئے جس سے کئی معصوم جانیں ضائع ہو ئی ہیں۔ ان تازہ حملوں کے بعد 80% امدادی سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں جس سے شہری قحط اور شدید غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اعداد کو شمار کے مطابق شہدا کی مجموعی تعداد 51 ہزار ہو چکی ہے، 1 لاکھ 16 ہزار زخمی ہیں جبکہ 4 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ میرے والدِ گرامی پروفیسر فضل داد عارف (مرحوم) نے اپنے شاعرانہ انداز میں یوں سلام عقیدت پیش کیا ہے:

یہ ہیں بے تیغ مُجاہِد، یہ سپاہی حق کے
اِن سے تاریخِ شجاعَت نے بھی راہیں دیکھیں

عزم و ہمت کے ہیں، اِیثار کے پَیکر عارفؔ
ہم نے بے تیغ فدائیوں کی وفائیں دیکھیں

اسرائیلی سفاکانہ اقدامات اور حملوں میں شہدا کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے مگر مقامِ افسوس ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے مکمل طور پر خاموش ہیں۔ اگر اس خاموشی پر یہ کہا جائے کہ شہید ہونے والے مسلمان ہیں تو غلط نہ ہوگا کہ خونِ مسلماں بہت ارزاں ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں 57 مسلم ممالک کے حکمرانوں کی خاموشی کی وجہ سے آج فلسطین کے مظلموں پر ظلم و سمت کی انتہاء کر دی گئی ہے۔

فلسطینی ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور امت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں اُن کا ساتھ دیں مگر آج ہم تماشائی بن کر کھڑے ہیں۔ ہمیں ہر فورم پر فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ معاشی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اسرائیلی و یہودی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ اس طرح کے بائیکاٹ کی ہمیں سیرت النبی سے بھی رہنمائی ملتی ہے جب کئی مواقعوں پر کفار کا تجارتی و معاشی بائیکات کیا گیا۔

آقا نے شعب ابی طالب میں تین سال محاصرہ کی وجہ سے اہلِ قریش کا معاشی بائیکاٹ رہا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کے ہتھیاروں کے ساتھ جہاد کرنا کے ساتھ تجارتی اور معاشی بائیکاٹ بھی جہاد ہوتا ہے کیونکہ اس طرح یہود و ہنود کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔ اب مسلمان ممالک نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ریلیاں، کانفرس اور اجلاس منعقد کیے جا رہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے بھی دنیا میں ایک فکری انقلاب آسکتا ہے جس کی وجہ سے فلسطین کے مظلوموں کی آواز عالمی سطح پر سنائی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے برعکس ہر گزرتے دن کے ساتھ غزہ کے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

ہمیں جہاں تک ہو سکے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور اس پرندے سے سبق لینا چاہیے جس نے اپنی چونچ میں پانی لے کر آگ کے شعلوں پر ڈالا جس میں حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کی عرض سے ڈالا گیا تھا۔ یعنی جتنا آپ کے بس میں ہیں اُتنا کر جائیے تاکہ آخرت میں ہمیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑی۔ فلسطینیوں پر ہر وقت موت کے بادل منڈلا رہے ہیں، آبادیاں کھنڈرات بن چکی ہیں مگر اُن کے حوصلوں کو سلام کہ اس کے باجود وہ اپنی سرزمین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ان غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے مجھے والدِ گرامی کے اشعار یاد آ جاتے ہیں جن میں وہ اِن کو اس طرح خراجِ تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

رواں ہیں غازیانِ حق، عجیب آن بان سے
جھَپَٹ رہے ہیں دیکھنا، یہ فاتِحانہ شاں سے

جو دشمنوں کے ٹینک ہیں، تو یہ بھی اِک حصار ہیں
کھڑے ہیں سینہ تان کے، ہوں جیسے اِک چٹان سے

مسلمان ممالک اسلحہ اٹھا کر میدانِ جنگ میں جانے کی صلاحیت سے محروم ہے جس کا یہود و ہنود کو باخوبی اندازہ ہے مگر کیا ہم یہ ظلم و بربریت ایسے ہی دیکھتے رہیں گے؟ کیا انسانیت کی تذلیل ایسے ہی ہوتی رہی گی اور ہم گفتار کے غازی بنے رہیں گے؟ میں یہ اور باقی بہت سے سوالات کے جواب آپ تک چھوڑتا ہوں کہ آپ کے دل کی آواز کیا کہتی ہے اور آخر کب تک؟

ساری دنیا میں مُسلمان ہیں غیروں کا ہَدَف
خُونِ مُسلم ہی ہر اِک چیز سے اَرزاں کیوں ہیں؟

Check Also

Main Feminist Kyun Hoon?

By Mubashir Ali Zaidi