Falasteen Israel Tanaza (11)
فلسطین اسرائیل تنازعہ (11)

فلسطین اسرائیل جنگ بندی کے بعد امریکی صدر کے غزہ بارے بیانیے نے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ عالمی سطح پر ردعمل کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکی و اسرائیلی حکمرانوں کے عزائم سے یہود و نصاریٰ کا گھمنڈ اور اندھا پن واضح ہوتا ہے مگر وہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دھوکے میں ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے اس بارے واضح بتا دیا ان کفار کے متعلق کہ "منافق مسلمانوں کو پکاریں گے: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں، مگر تم نے تو اپنی جانوں کو فتنے میں ڈالا اور (مسلمانوں کے نقصان کے) منتظر رہے اور شک میں پڑے رہے اور جھوٹی خواہشات نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اوربڑے فریبی نے تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں ڈالے رکھا۔ (سورہ الحديد: 14)"
امریکہ اور اس کے حواری مسلسل ٹرمپ کے دعوؤں کو دہرا رہے ہیں کہ وہ غزہ خرید لے گا اور یہ اس کی ملکیت ہوگی۔ قرآن پاک ہمیں اس بارے معملومات دیتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں اور یہ سب ان کی کم علمی اور راہِ راست سے دوری کی وجہ سے ہے۔ فرمانِ الہی اس بارے میں ہے کہ "اس بارے میں نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں اورنہ ان کے باپ دادا۔ کتنا بڑا بول ہے جو ان کے منہ سے نکلتا ہے۔ وہ بالکل جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ (سورة الکھف: 5)"۔
امریکی صدر ٹرمپ بار بار پھر اپنے اس منصوبے کی تصدیق کی کہ "امریکہ غزہ پر قبضہ کرے گا اور فلسطینیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ امریکہ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت لینے کے لیے پُرعزم ہے۔ فلسطینی اور وہ لوگ جو اس وقت غزہ میں رہ رہے ہیں، کہیں اور بہت اچھے طریقے سے رہیں گے، غزہ میں نہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہم کسی حل پر پہنچ سکتے ہیں"۔
یہ تصور امریکہ کے لئے تو قابلِ قبول ہو سکتا ہے مگر یہ فلسطینوں اور امتِ مسلمہ کے لئے کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ امریکی صدر نے اپنے بیان اور تصور کو تقویت دینے کے لئے رخ بدل کر دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ یہ سب فلسطینیوں کی بہتری کے لئے کر رہا ہے۔ امریکی صدر نے اس بات کو دہرایا کہ "ہم غزہ کا صحیح طریقے سے انتظام کریں گے، لیکن ہم اسے خریدنے نہیں جا رہے"۔ جنگ بندی سے متعلق امریکی صدر نے بیان دیا تھا کہ "جب جنگ ختم ہو جائے گی تو اسرائیل غزہ کو امریکہ کے حوالے کر دے گا اور امریکہ طویل مدت کے لیے غزہ کا مالک ہوگا"۔ (الجزیرہ، 6فروری 2025)۔
یہود و نصاریٰ آمریت کے جنون میں مبتلا ہیں اور نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے فلسطینیوں پر مظالم کے انبار لگا دئیے اور ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ وہ گمان کر ہیں کہ غزہ ان کی ذاتی ملکیت و جاگیر ہے اور وہ غزہ کو بیچنے، خریدنے اور کسی کے بھی حوالے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ آمرانہ سوچ ہے جس نے ان کی عقل چھین لی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈل دیا ہے۔ اللہ تعالی ظلم کو پسند نہیں فرماتا اور ہر متکبر و ظالم کو اس کے انجام تک پہنچاتا ہے۔ یہی سوچ ان کے پیشروؤں کی بھی تھی اور زمانے نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ان سے طاقور حکمران دنیا سے گزرے ہیں خاص کر فارس کے بادشاہ اور روم کے قیصر اپنی آمریت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ جب کسرٰى کو رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا علم ہوا تو اپنے غرور میں اندھا ہو کر اس نے اپنے کارندوں میں سے ایک کو کہلا بھیجا: "جزیرۂ عرب جا کر(معاذاللہ) محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کا سر میرے پاس لے آؤ! "۔
ابنِ ہشام نے السیرۃ النبویہ میں نقل کیا ہے کہ کسرٰى نے باذان کو خط لکھا: "مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریش کے ایک آدمی نے مکہ میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے پاس جاؤ اور اسے قابو میں کرو، اگر وہ باز آ جائے تو بہتر، ورنہ اس کا سر میرے پاس بھیج دو"۔ لیکن اس کے غرور اور ظلم کی انتہا کا انجام یہ ہوا کہ اس کی سلطنت ختم ہوگئی، اس کا اقتدار مٹ گیا اور پھر اسلامی لشکروں کے ہاتھوں فارس فتح ہو کر اسلام کے نور سے منور ہوگیا۔ روم کے قیصر نے بھی مسلمانوں کے خلاف یرموک کی جنگ میں ایک عظیم لشکر تیار کیا، لیکن وہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا۔ شام سے بھاگتے ہوئے اس نے حسرت سے کہا: "سلام ہو تم پر، اے شام! ایسا سلام کہ اب دوبارہ ملاقات نہ ہوگی"۔ وہ قسطنطنیہ واپس چلا گیا، یہاں تک کہ قسطنطنیہ بھی فتح ہو کر اسلامی دارالحکومت بن گیا۔
برسراقتدار طبقہ دولت و اختیار کے نشے میں پر ظلم وستم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے، جس کی چاہے عزت نیلام کرے، جس کو چاہے قتل کردے، جس کو چاہے بے گھر کردے، جیسا چاہے قانون نافذ کر دے، جس کو چاہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں اور جس کو چاہیں باعزت بری کردیں۔ طاقت کے نشے میں بد مست سمجھتا ہے کہ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اللہ تعالی ظالموں کے اعمال سے غافل نہیں۔ ظالم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے آخرت سے پہلے دنیا میں ہی نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "اور (اے سننے والے!) ہرگز اللہ کو ان کاموں سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم کررہے ہیں۔ اللہ انہیں صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی (سورہ ابراھیم، 42)"۔
یہودیوں نے اللہ کی رسی کو اپنے انبیاء کی نافرمانی کے ذریعے توڑ دیا اور اب ان کے پاس صرف انسانوں کی رسی باقی ہے، جو اللہ تعالی کے اذن سے جلد ہی کٹ جائے گی۔ وہ وقت آ کر رہے گا جب اسلام کے سپاہی، اپنے امام کی قیادت میں ان سے جنگ کریں گے اور اس کے پیچھے پناہ لیں گے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بے شک امام ڈھال ہوتا ہے، اس کے پیچھے رہ کر جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے تحفظ ملتا ہے"۔
امریکہ وُاسرائیل اپنی قوم کی تاریخ اور ان کی ذلت کو بھول گئے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ جب مسلمانوں کی خلافت قائم تھی، تو ان کے آباؤاجداد اسلام کے سامنے سر جھکانے پر مجبور تھے۔ اس وقت ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اسلامی سرزمین خریدنے کا خواب بھی دیکھ سکیں، چہ جائیکہ وہ غزہ کی مقدس سر زمین پر قبضہ کی بات کریں۔ بلکہ اسلامی سرزمین کا نام سن کر ہی ان کا سرتسلیم خم ہو جاتا تھا۔ مگر افسوس کے آج امت کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور مسلم ممالک ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان پر نااہل حکمران ہیں۔
صد افسوس کہ ٹرمپ کے اعلان پر کوئی بھی اسلامی ملک بھرپور جواب نہ دے سکا کہ کیونکر امریکہ اس مقدس سرزمین سے اہلِ غزہ کو بے دخل کرے گا اور اس زمین کو خرید کر اپنی ملکیت بنائے گا۔ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو عروج ملے گا، خلافت دی جائے گئی، ارشادِ باری تعالی ہے "اللہ نے تم میں سے ایمان والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ ضرور ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کو خلافت دی ہے اور ضرور ضرور اِن کے لیے اِن کے اُس دین کو جما دے گا جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ضرور ضروران کے خوف کے بعد ان (کی حالت)کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ نافرمان ہیں (سورة النور: 55)"۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی زبانِ اقدس سے بیان کیا کہ اس جابرانہ دور کے بعد خلافت ایک بار پھر نبوت کے نقشِ قدم پر قائم ہوگی (مسند احمد)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "تم بہترین امت ہو جس کو لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو (سورة اٰل عمرن: 110)"۔ امام مسلم نے ثوبانؓ کے ذریعے روایت کیا: "میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، انہیں وہ لوگ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے جو انہیں تنہا چھوڑ دیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ اسی حال میں ہوں گے"۔
اسلام نہ ظلم کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ظلم پر خاموش رہنے کی۔ اگر کسی پر ناحق پر ظلم کیا جائے تو قرآن کریم میں یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اس پر آواز اٹھائے اور احتجاج کرے، اپنے جائز حقوق کا مطالبہ اوردفاع کرے۔
یا رب العالمین! ہم سب کو ہر ظلم کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔

