Falasteen Israel Tanaza (10)
فلسطین اسرائیل تنازعہ (10)

فلسطین اسرائیل تنازعہ کو رکوانے کے بعد آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا ہے کہ "فلسطینوں کو ہٹانے کے بعد غزہ کو ملکیت میں لینا چاہتے ہیں"۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ جو 7 اکتوبر2024 کو شروع ہوا تھا اس میں دو ہفتے پہلے فائر بندی کا اعلان ہوا۔ 15 ماہ اور 12 دن بعد معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے میں لڑائی کو روکنے کے لئے اور پہلے دن قیدیوں کے رہائی جس میں 3 اسرائیلی اور 95 فلسطینی قیدی شامل تھے۔
معاہدے کے تحت غزہ میں فائر بندی کے بعد انسانی امدادی کاروائیوں کے لئے روزانہ 600 ٹرکوں کو اجازت دی جائے گی۔ ان میں 50 ٹرک ایندھن لے کر جائیں گے جبکہ 300 ٹرک شمال کی جانب مختص کیے جائیں گے، جہاں شہریوں کے لیے حالات خاص طور پر سخت ہیں۔ اس معاہدے کے بعد غزہ کے مکینوں نے اپنے تباہ زدہ گھروں کا رخ کیا اور وہ ملبے کے ڈھیروں کو دوبارہ مسکن بنانے کے لئے پُرامید تھے۔ مگر آج کے امریکی صدر کے بیان نے حالات کا رخ تبدیل کر دیا ہے۔
اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اسرائیل گھٹ جوڑ کتنا زیادہ ہے اور یہودی و صہیونی طاقتیں فلسطین پر ملکیت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ امریکی صدر نے اپنے بیان سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ملکیت لے کر وہ غزہ میں تعمیرِ نو کا کام کرنا چاہتے ہیں جس سے عوام کی زندگیوں میں بہتری آئے گی اور روزگار کے مواقعے میسر آئیں گے۔ یہودی لابی کا یہ بہت پرانا وطیرہ ہے اور وہ خلافتِ عثمانیہ سے لیکر اب تک اپنی انہی چالوں سے فلسطین کے مالک بننا چاہتے ہیں۔
20 جنوری کو دوسری مدتِ صدارت سنبھالنے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جس غیرملکی صدر سے پہلی ملاقات کی وہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو ہے۔ غزہ پر ملکیت کا بیان وائٹ ہاؤس میں اسی ملاقات کے دوران فائر بندی پر بات چیت کے دوران آیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کی ذمہ داری لے گا اور فلسطینیوں کو دوسری جگہ آباد کرنے کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کرے گا اور اس علاقے کو مشرق وسطیٰ کا ریویرا، (وہ جگہ جہاں سے سمندر کا کنارہ لگتا ہے) میں تبدیل کر دے گا جس میں فلسطینیوں سمیت دنیا کے لوگ، رہیں گے۔
ٹرمپ نے اپنے ناپاک ارادے اور زمینوں کی خرید و فروخت ذہنیت کو یوں بیان کیا کہا: "مجھے نہیں لگتا کہ لوگوں کو واپس جانا چاہیے۔ آپ اس وقت غزہ میں نہیں رہ سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک اور جگہ کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہونی چاہیے جو لوگوں کو خوش کرے۔ جس میں فلسطینیوں سمیت دنیا کے لوگ، رہیں گے۔ ٹرمپ نے کہا، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ عالمی معیار کا ہو۔ یہ لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہوگا"۔
اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ تقریباََ 18 لاکھ لوگوں کو وہ زمین چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے جسے وہ لوگ اپنا گھر کہتے ہیں اور شاید امریکی فوجیوں کی مداخلت کے ساتھ مل کر ملکیت لینا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو مشرق وسطی کے استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا، تنازعے میں توسیع کا خطرہ بڑھ جائے گا اور امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے دو ریاستی حل کے لیے دہائیوں سے جاری کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ "غزہ میں جاری نازک، فائر بندی کے برقرار رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے"۔
اس سے قبل ٹرمپ یہ بیان دے چکے ہیں کہ غزہ سے لوگوں کو مصر اور اردن منتقل کیا جائے۔ مصر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ نے مشترکہ بیان میں خبردار کیا ہے کہ ایسے منصوبے خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر امریکی صدر اپنے بیان پر ڈٹے رہے اور فلسطینوں کی جبری منتقلی کی گئی تو ڈر ہے کہ خطہ ایک بار پھر خونریز کاروائیوں کا شکار ہو جائے گا۔ ان دونوں بیانات سے یہودیوں کی فلسطین پر اجارہ داری قائم رکھنے کی سازش کھل کر واضح ہوگئی ہے۔ اگر اب بھی مسلمان ممالک خاموش تماشائی بنے رہے تو پھر مسلمانوں کی تباہی دور نہیں۔
ان بیانات کے بعد سعودی عرب کا فلسطینیوں کی "آزاد ریاست" کے قیام پر اصرار کیا ہے۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔ ریاض میں سعودی وزیر خارجہ نے ایکس پر لکھا کہ "ہم آزاد فلسطینی ریاست کے لئے اپنی کوشش جاری رکھیں گے، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔ اس کے بغیر سعودی حکومت اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ سعودی حکومت فلسطینی باشندوں کو ان کی سرزمین سے بدخل کرنے کی کوششوں کو مسترد کرتی ہے"۔
اپنی پہلی مدت صدارت میں ٹرمپ نے نیتن یاہو کے لیے کئی کامیابیوں کو یقینی بنایا تھا۔ ان میں امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی اور اسرائیل کے کئی عرب ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کا قیام اور ابراہم سمجھوتوں پر دستخط شامل ہے۔ آج کے بیان کے بعد مشرقِ وسطی میں امن کیونکر ممکن ہوگا؟ ٹرمپ کے بیان میں فلسطین کی جو تعمیر و ترقی ہے اس کے پیچھے مزموم عزائم شامل ہیں۔
اسلامی ممالک کو مل کر جرات مندانہ اور مشترکہ مؤقف اپنانا چاہیئے اور حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں کو اپنے ساتھ ملا کر حقیقت سے آگاہ کرنا چاہئیے۔ فلسطینیوں کی مزاحمت نے دنیا کو یہ باور کروا دیا ہے کہ ظالم کے سامنے خاموش رہنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ بطور مسلمان، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطینی عوام کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں۔ اسلامی ممالک اور حکومتوں کو فلسطین کے مسئلے کو عالمی اداروں کے سامنے مضبوط انداز پر پیش کرنے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنانے کے ضرورت ہے۔

