Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Aalmi Youm e Sahafat Aur Azadi e Sahafat, Khwab Ya Haqeeqat?

Aalmi Youm e Sahafat Aur Azadi e Sahafat, Khwab Ya Haqeeqat?

عالمی یومِ صحافت اور آزادیِ صحافت، خواب یا حقیقت؟

دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام 1993 دے ہر سال 3 مئی کو "عالمی یومِ آزادیٔ صحافت" منایا جاتا ہے۔ یہ دن محض ایک تاریخ نہیں بلکہ اس کا مقصد صحافتی اصولوں کی پاسداری، پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی، صحافیوں کو درپیش مسائل اداروں کے ساتھ ہم آہنگی جیسے اصولوں کو اجاگر کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اُن صحافیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے فرائض کی انجام دہی میں اپنی قیمتی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے۔ مگر آج جدید دور میں سوال وہی پرانا ہے کہ کیا صحافت واقعی آزاد ہے؟ یا یہ آزادی صرف آئینی کاغذات تک محدود ہے؟ کیا آج بھی صحافت طاقتوروں کے سامنے سچ بولنے کا نام ہے یا اب یہ مفادات کی چاکری بن چکی ہے؟

اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس دن کو منانے کا مقصد یہی ہے کہ دنیا بھر میں صحافیوں کے حقوق، ان کی سلامتی اور اظہارِ رائے کی آزادی کو فروغ دیا جائے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بیشتر ممالک میں صحافت کو دبایا جا رہا ہے۔ کہیں گولیوں سے، کہیں مقدمات سے اور کہیں "ریٹنگ" اور "پالیسی" کے نام پر۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آزادیٔ صحافت ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہی ہے۔ کبھی مارشل لا کے سائے میں اس پر قدغن لگائی گئی تو کبھی جمہوریت کے دور میں صحافیوں اور حق کی آواز بلند کرنے والوں کو لاپتہ کیا گیا، ان پر مقدمے بنائے گئے اور انہیں نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا۔

ہزاروں صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جان سے گئے جس کا مقصد صحافیوں کو خوف زدہ کرنا اور حق کی آواز کو دبانا ہے۔ ان حالات آزادیٔ صحافت محض ایک "خواب" نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسے حالات میں صحافت کی اصل روح جو کہ عوامی مفاد میں بولنا ہے وہ مر جاتی ہے۔ آج سچ وہی ہے جو اشرافیہ اور مقتدر حلقوں کو قابلِ قبول ہوتا ہے۔ بقول نصرت گوالیاری:

رات کے لمحات خونی داستاں لکھتے رہے

صبح کے اخبار میں حالات بہتر ہو گئے

صحافت کسی بھی معاشرے کا ضمیر ہوتی ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جو نہ صرف اقتدار کے ایوانوں کو بےنقاب کرتا ہے بلکہ عام انسان کی آواز بھی حکمرانوں تک پہنچاتا ہے۔ صحافت کی طاقت وہی ہوتی ہے جو ایک چراغ کی ہوتی ہے جس کا کام اندھیرے میں روشنی دینا ہوتا ہے۔ عالمی درجہ بندی میں پاکستان سال 2024 کے مقابلے میں آزادیِ صحافت میں چھ درجے نیچے آ گیا ہے۔ غیر سرکاری تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈر (Reporter without Border) کی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر آزادی صحافت میں 158 نمبر پر ہے جبکہ 2024 میں پاکستان انڈیکس پر 152 نمبر پر تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2024 میں سات صحافی اور میڈیا ورکرز دوران صحافت ہلاک ہوئے جبکہ 2025 کے پاکستان کے حوالے سے اس میں اعداد و شمار تاحال شائع نہیں کیے گئے۔ دنیا بھر سے 2025 میں اب تک مختلف واقعات میں 15 صحافی ہلاک جبکہ 555 صحافی اور میڈیا ورکرز کو زیر حراست بھی لیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 54 صحافیوں کو 2025 میں اب تک یرغمالی بنایا گیا جبکہ 99 لاپتہ ہیں اسی طرح فلسطیں ن میں اسرائیلی دشتگردی اور اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کو دیکھانے والے درجنوں صحافیوں کو اسرائیلی درندوں نے قتل کر دیا ہے۔

پاکستان میں صحافت بالکل ہو رہی ہے تاہم ان صحافیوں کی تعداد محدود ہے جو تمام پریشرز کے باوجود ہر طرح کی خبر دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر دور صحافیوں کے لیے مشکل رہا۔ ایسا نہیں کہ کوئی ایک دور آسان ہو بلکہ ہر دور میں مشکلات رہی ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں آزاد صحافت کو فروغ دینے میں مخلص ہیں تو پھر ریاست اور ذرائع ابلاغ کے نجی اداروں کو کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔

پاکستان میں اس وقت 100 ٹی وی چینلز اور 200 سے زیادہ ریڈیو سٹیشن ہیں جبکہ آن لائن میڈیا بھی خبروں کی ترسیل کے لیے سرگرم عمل ہے۔ جن میں سب سے پہلے صحافیوں کو تحفظ دینا ہوگا تاکہ وہ کسی سے سر اُٹھا کر صحافت کریں۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں کو خود احتسابی کا نظام اپنانا ہوگا تاکہ صحافت پیشہ ورانہ حدود میں رہے۔ عوام کو باشعور بناناہوگا تاکہ وہ اصل خبر اور من گھڑت خبر میں فرق کر سکیں۔

آزادیٔ صحافت صرف صحافیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہر شہری کی آزادی کا معاملہ ہے۔ کیونکہ جب صحافی بولنا چھوڑ دیتے ہیں تو عام آدمی کا حق سلب ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس دن کو صرف تقریبات، جلسے جلسوں کی حد تک ہی نہ منائیں بلکہ وہ کام کریں کہ آج جو آزادی خواب لگتی ہے اُسے حقیقت کا روپ دیں۔ صحافت کی آزادی، معاشرے کی بقا کی ضمانت ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari