IMF Ke Wafd Ka Haliya Daura e Pakistan
آئی ایم ایف کے وفد کا حالیہ دورہ پاکستان
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نمائندے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں اس دورہ پاکستان کو تاریخی پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے تاکہ مالیاتی اداروں اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا اندازہ ہوسکے اور پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورت حال کے تقاضوں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کا یہ تعلق کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس کا آغاز 1958 میں ہوا جب پاکستان نے پہلی بار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے امداد حاصل کی۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق پیچیدہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات متنازعہ بھی ہوگیا ہے، خصوصاً جب مالیاتی اصلاحات کے اقدامات عام پاکستانی کے لئے بھاری بوجھ بننے لگے۔
حالیہ دورے کا مقصد پاکستان کے مالیاتی استحکام کو مضبوط بنانے اور معاشی اصلاحات کے ان اہداف کی تکمیل میں مدد فراہم کرنا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے پیکیج کے ساتھ منسلک ہیں۔ پاکستانی حکومت نے رواں مالی سال میں ابتدائی قسط وصول کی تھی مگر کچھ اہداف کو حاصل کرنے میں اب بھی کافی مشکلات درپیش ہیں۔ ان مشکلات کے حل کے لیے اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف کے وفد کی قیادت ناتھن پورٹر کر رہے ہیں اور پاکستانی وفد کی سربراہی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کر رہے ہیں۔
اس ملاقات میں مختلف اہم امور زیر بحث آئے، جن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اہداف کی تکمیل بھی شامل ہے اور نئے ٹیکس اقدامات کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی، توانائی سیکٹر کے گردشی قرضے اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ مذاکرات بھی ایجنڈے میں شامل ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد مالیاتی پائیداری کو یقینی بنانا ہے مگر موجودہ اقتصادی چیلنجز اور سیاسی عدم استحکام ان پر عمل درآمد کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
پاکستانی حکام نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں ٹیکس مشینری نے ریٹیلرز، تھوک فروشوں، اور ڈسٹری بیوٹرز سے گیارہ ارب روپے جمع کیے، مگر تاجر دوست اسکیم (TDS) سے توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ آئی ایم ایف نے دو آپشنز پیش کیے ہیں: ایک منی بجٹ کے ذریعے 89 ارب روپے کا محصولاتی خسارہ عوام پر ٹیکس بڑھا کر پورا کیا جائے یا پھر غیر ضروری اخراجات کو کم کیا جائے۔
آئی ایم ایف کے مطالبات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان کو فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد اکثر مشکل رہا ہے، خصوصاً جب ان کا براہ راست اثر عام پاکستانی شہریوں اور غریبوں پر پڑتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اقتصادی بوجھ کو عوام پر ڈالنے کی بجائے امیر طبقے اور اشرافیہ سے ٹیکس وصولی کو یقینی بنایا جائے۔
اس وقت پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے دو بنیادی اقدامات ضروری انتہائی ہیں۔ ایک یہ کہ اخراجات میں کمی جائے اور حکومتی خرچوں میں شفافیت لائی جائے، دوسرا اقدام یہ ہونی چاہئیے کہ ایسی اسکیمیں شروع کی جائیں جو صنعتوں اور کاروباروں کی حوصلہ افزائی کریں بجائے اس کے کہ ان پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھایا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان کے اقتصادی ماہرین کے پاس ایک جامع منصوبہ ہونا چاہئے جس سے وہ آئی ایم ایف کو مطمئن کر سکیں اور پاکستانی عوام کا اعتماد بھی بحال ہو۔ امید ہے کہ اس ہنگامی دورے کے نتائج پاکستان کے حق میں بہتر ہوں۔