Gandum Mafia, Petrol Mafia Aur Ab Cheeni Mafia
گندم مافیا، پٹرول مافیا اور اب چینی مافیا
گندم مافیا اور پٹرول مافیا کے عوام پر کیے گئے ظلم کے بعد اب شوگر مافیا نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔ پاکستانی عوام ان دنوں مافیا کی زد میں ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے ایک بار پھر مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، چینی کی ایکس مل قیمت 20 دنوں میں 115 روپے سے بڑھا کر 125 روپے فی کلو کر دی گئی ہے، جبکہ چھوٹے دکاندار اسے 125 کے بجائے 140 روپے فی کلو فروخت کر رہے ہیں۔ شوگر ڈیلرز نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو صورت حال سنگین ہو سکتی ہے۔ یہ معاملہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ شکر سازی کی صنعت ملک کے مقتدر حلقوں کے مفادات کا محور بنی ہوئی ہے۔
چینی کی صنعت پاکستان کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ شعبہ زراعت اور صنعت دونوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم تاریخی طور پر یہ صنعت ہمیشہ سیاسی اور کاروباری اثر و رسوخ کا شکار رہی ہے۔ شوگر ملز مالکان میں اکثر سیاسی شخصیات شامل ہوتی ہیں جو حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہو کر اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے جیسے مسائل بار بار سامنے آتے ہیں۔ ماضی میں بھی چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے مسائل دیکھنے میں آئے ہیں جن میں مصنوعی قلت پیدا کرنے، ذخیرہ اندوزی کرنے اور برآمد کے نام پر مقامی مارکیٹ سے چینی نکالنے جیسے حربے شامل ہیں۔
حالیہ اضافے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں سب سے پہلی مصنوعی قلت کا پیدا کرکے غریب عوام کو مزید پریشان کرنا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کرشنگ سیزن کے دوران چینی کی قیمتوں میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے؟ شوگر ملز مالکان کی طرف سے چینی کی پیداوار میں کمی کی افواہیں اور برآمد کی اجازت نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملک میں اضافی ذخائر کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے 5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔ تاہم یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا کیونکہ برآمد کی اجازت ملنے سے پہلے ہی چینی مہنگی ہونا شروع ہوگئی تھی۔
حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی نہ کرنا بھی اس مسئلے کا ایک بڑا سبب ہے۔
چینی کی قیمتوں میں اضافے کا سب سے زیادہ اثر غریب عوام پر پڑتا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا مشکل ہوگیا ہے اور اب چینی جیسی بنیادی ضروریات کی بڑھتی قیمتوں نے ان کے مسائل کو دوچند کر دیا ہے۔
موجودہ حالات میں چینی کی برآمد فوری طور پر روک دی جانی چاہیے تاکہ مقامی مارکیٹ میں دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ذخیرہ اندوزوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔
شوگر انڈسٹری میں شفافیت لانے کے لیے حکومت کو ایک جامع پالیسی مرتب کرنی چاہیے، جس میں پیداوار، ذخیرہ اور قیمتوں کے تعین کے عمل کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔ حکومت کو عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے شوگر انڈسٹری کی نگرانی کرنی چاہیے اور قیمتوں کو مناسب سطح پر برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ چینی کی بڑھتی قیمتوں کا مسئلہ ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ شکر سازی کی صنعت پر سیاسی اور کاروباری مفادات غالب ہیں۔ حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے عوامی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے اور ان عوامل کو جڑ سے ختم کرنا چاہیے جو مہنگائی کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ نہ صرف عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا بلکہ ملک کی معیشت پر بھی منفی اثرات ڈالے گا۔