Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rao Ghulam Mustafa
  4. Riyasat Maa Jaisi Hoti Hai

Riyasat Maa Jaisi Hoti Hai

ریاست ماں جیسی ہوتی ہے

مہنگائی عروج پر ہے مہنگائی میں کمی یا کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ بجلی کے بے قابو بل جہاں انسانی جانیں نگل رہے ہیں وہیں عام آدمی اور متوسط طبقہ کے معمولات زندگی تلپٹ ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومت کی گورننس اور پرفارمنس عوام کو ڈلیور کرنے کا نام ہے۔ لیکن یہاں دور دور تک ایسے اقدامات نظر نہیں آتے جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری اور آسانیاں آئیں۔

ناکام معاشی پالیسیوں، مالیاتی عدم استحکام اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی معاشی مسائل میں اضافہ کے باعث اذیت سے دوچار ہے۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا حکمرانوں کی نا اہلی کا ثمر ہے کہ آج روپے کی قدر میں کمی، بے لگام مہنگائی، بے روزگاری کے باعث غریب آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ توانائی کی قیمتیں، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے جو پیداواری لاگت کم ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے وہ اب قابل برداشت نہیں رہا۔ سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی حالات جہاں اقتصادی ترقی کو متاثر کر رہے ہیں وہیں اس کے براہ راست اثرات عام آدمی کی زندگی پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

یہ تمام عوامل مل کر مہنگائی کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرنے چاہئیے تھے۔ چاہئیے تو یہ تھا حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلی لاتی، جیسے سود کی شرح میں تبدیلی۔ زرعی پیداوار کو بڑھانے اور فصلوں کی پیداوار میں استحکام لانے کے لیے اقدامات کی ضرورت تھی۔ ضروری اشیاء کی درآمدات میں اضافہ یا قیمتوں پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جاتے۔ انتخابات سے قبل عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے جو بلند آہنگ وعدے ان حکمرانوں نے کئے تھے وہ سب ہوا ہو گئے۔

موجودہ حالات میں عام آدمی کے لئے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی بن چکا ہے۔ ضرورت تھی ایسے حالات میں مہنگائی میں غیر ضروری اضافے کو روکنے کے لیے قوانین اور ریگولیشنز بنائے جاتے۔ کیا حکمران اس بات سے لا تعلق ہیں کہ ضلع کی بیورو کریسی آٹا، چینی اور گھی جیسی اشیا کی قیمتوں میں کنٹرول کیوں نہیں کر رہی۔ اس کی بڑی وجہ ہے کہ حکمرانوں کے پاس عام آدمی کو آسودہ حال کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی اور پالیسی نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ملک میں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کئے جائیں گے تب تک مہنگائی جیسے مہلک مسئلہ سے نجات ممکن نہیں ہے۔

جب ملک میں اقتصادی ترقی کے ذریعے ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے جائیں گے لوگوں کی خریداری کی صلاحیت بھی بڑھے گی۔ یہ ایسے ضروری اقدامات ہیں جو حکومت کی ترجیحات کا حصہ ہو ناچاہئیے۔ اگر آج ریاستی امور تک چلانے کے لئے خزانے میں پیسے نہیں ہیں تو حکمرانوں کو چاہئیے کہ اپنے گریبانوں کو ٹٹولیں اپنی گورننس کے خد و خال کو چیک کریں۔ ٹھوس عملی اقدامات ہی مہنگائی کی شرح اور عوام کے مسائل کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

مالیاتی پالیسی میں تبدیلی، مرکزی بینک کی طرف سے شرح سود میں تبدیلی، قرضوں پر قابو، غیر ضروری حکومت کے قرضوں کو کم کرنا تاکہ مارکیٹ میں پیسے کی زیادہ فراہمی سے بچا جا سکے یہ اقدامات کرنا حکومتوں کے کام ہوتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے عوام کش فیصلے اور اقدامات عوام کے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہے ہیں۔

سبسڈی اور مالی امداد، کم آمدنی والے افراد اور طبقات کے لیے سبسڈی فراہم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری میں شامل ہے تاکہ ان کی خریداری کی طاقت برقرار رہے۔ مہنگائی کا بوجھ غریب لوگوں کے لیے خاص طور پر مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کی آمدنی محدود ہوتی ہے اور بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے سے ان کی زندگیوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے انہیں خوراک، صحت، تعلیم، اور دیگر بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی معاشی حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔

حکمرا ن اور اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں پر غور کریں جو غریب طبقے کو تحفظ فراہم کریں اور مہنگائی کے اثرات کو کم کریں۔ پاکستان میں غربت کی شرح 2024ء کے اوائل تک، اندازے کے مطابق، تقریباً 20% کے قریب ہے، پاکستان میں مہنگائی کی شرح وقتاً فوقتاً مختلف رہی ہے اور اس کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے، بشمول اقتصادی پالیسیاں۔ 2024ء تک، پاکستان میں مہنگائی کی شرح کچھ سالوں میں دوہرے ہندسوں میں رہی ہے، اور 2023ء کے آخر میں، مہنگائی کی شرح تقریباً 27% تک پہنچ گئی تھی اور اب تو جتنی مہنگائی ہو چکی ہے ایسی بیڈ گورننس تو پچھلی کسی بھی حکومتوں میں دکھائی نہیں دی عام آدمی سے ہٹ کر متوسط طبقے کی بھی اس کمر توڑ مہنگائی نے چیخیں نکلوا دی ہیں۔

بھاری بھر کم بجلی کے بلوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ آئے روز بجلی کے بلوں اور مہنگائی کے باعث خودکشیاں ہو رہی ہیں لیکن حکمرانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ جو حکمران پاکستان کو دیوالیہ پن سے نکالنے کے دعویدار ہیں انہوں نے دراصل خود کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ مہنگائی، بل بجلی اور مختلف ٹیکسوں کے ذریعے حکمران اشرافیہ عام آدمی کی جیب پر نقب لگا کر عوام کا دیوالیہ نکالنے پر تلی ہوئی ہے۔ شائد یہ اشرافیہ بھول چکی ہے یہی عوام اپنے کندھوں پر بٹھا کرانہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں۔ کیا یہ ستم زدہ حالات طاقت کی مرکز مقتدرہ کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہیں ایسے ستم گر اور جبر کے حالات میں عوام کی اشک شوئی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ عوام مہنگائی کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے اور حکمران اشرافیہ خواب غفلت سے بیدار نہیں ہورہے۔

حالات بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں اگر حکمرانوں نے عوام کش فیصلوں سے ہٹ کر عام آدمی کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لئے عملی اقدامات نہ اٹھائے۔ دیر تو پہلے ہی ہو چکی ہے حکمران نوشتہ دیوار بننے کے لئے تیار رہیں۔ عام آدمی کے دل و دماغ میں پکنے والا لاوا اگر بے حس حکمرانوں کی بیڈ گورننس سے پھٹ گیا تو پھر عوام کے قہر سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔ عام آدمی سے جینے کا حق نہ چھینیں روش بدلیں اور ہوش کریں ریاست ماں جیسی ہوتی ہے عوام دوست اقدامات سے عوام کو ریلیف دیں ان کے لئے زندگی مزید مشکل نہ بنائیں آسان بنائیں ایسا نہ ہو اس دیری میں سب کچھ ہاتھ سے ریت کی طرح نکل جائے اور سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے۔

حکمران اشرافیہ، ملک کی سیاسی قیادت اور مقتدرہ کو انا کے بتوں کو مسمار کرکے سر جوڑ کر آگے بڑھنے کے لئے ملک و ملت کے لئے ایسے فیصلے کرنا چاہئیے جو اس ملک اور عوام کو آکسیجن فراہم کر سکیں۔ اب یہ سوچنا ہوگا کہ عوام کی حیات تنگ کرنے کے اصل ذمہ دار یہ سیاستدان ہیں یا ان کی مفادات سے جڑی پالیسیاں ابھی وقت اور حالات نے کروٹ نہیں بدلی ہوش مندی سے سمجھ لینا چاہئیے آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat