Khud Mukhtar Pakistan Ki Wahid Rah
خود مختار پاکستان کی واحد راہ
ریاستیں خود مختاری اور آزادی سے بنتے ہیں اگر کوئی ملک خود مختار نہیں تو اسے ملک یا ریاست نہیں کہا جا سکتا بلکہ لاکھوں یا کروڑوں افراد کا ایک ہجوم کہا جا سکتا ہے۔ ملکی سالمیت اور خود مختاری کے لیے دو چیزیں اہم ہیں جو ہمیشہ سے چلتی آ رہی ہیں ایک یہ کہ ملک معاشی طور پہ خود مختار ہو اور دوسرا یہ کہ ملک فوجی طور پہ خود مختار ہو۔ لیکن ایک چھوٹی سی چیز جو وقت کے ساتھ خود مختاری کے ترازو میں بدلی ہے وہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں فوجی قوت زیادہ اہمیت کی حامل تھی اور آج معاشی طاقت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ قدیم زمانے میں جنگیں زورِ بازو سے لڑی جاتی تھیں اور آج کل کے دور میں معاشی جنگیں لڑی جاتی ہیں کیونکہ یہ دور ہے ٹیکنالوجی کا جیساکہ آپ امریکہ کی ہی مثال لے لیں امرایکی ڈالر پوری دنیا میں چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ سُپر پاور ہے اور جب پیسہ چلتا ہے تو جدید ہتھیار تو پیسے سے ہی آتے ہیں جس سے امریکہ کی فوج بھی دنیا پہ راج کر رہی ہے۔
پاکستان کی طرف بڑھتے ہیں اب چونکہ پاکستان معاشی طور پہ اس وقت تیسری دنیا کا ملک ہے اور پاکستان کے 22 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے رہ رہے ہیں جو مہینے کے 3000 روپے کماتے ہیں تو پھر آپ خود ہی سمجھ جائیں کہ جہاں ایک پنکھا چلانے کا بجلی کا بل دس ہزار سے زیادہ ہے وہاں تین ہزار روپے مہینے کا کمانے والوں کی زندگی کیسی ہوگی اور اب اُن 40 فیصد کی بات کرتے ہیں جو متوسط طبقے سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں یعنی ہزار روپے کی دیہاڑ کما رہے ہیں اور وہ بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پہ کس قدر بدحالی کا شکار ہے اور جتنے لوگ بدحال ہیں اُتنا ہی ملک بھی بے اختیار ہے۔
جیساکہ ہمیں معلوم ہے کہ ملکِ پاکستان میں تمام تر وسائل ہونے کے باوجود بھی اتنی آمدن نہیں ہے کہ یہ ملک قرض لیے بغیر چل پائے اور جب کسی سے قرض لیں تو اس کی تمام تر شرائط بھی ماننی پڑتی ہیں۔ پاکستان دوست ممالک سے تو قرض لیتا ہی رہتا ہے لیکن پھر بھی آئی ایم ایف کے پاس جا کے ہاتھ پھیلانا پاکستان کی مجبوری بن گئی ہے۔ اب آپ خود ہی سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں کہ جب ہم کسی کے پاس قرض لینے جائیں اور آپ کی آمدن بھی اتنی نہ ہو کہ آپ وہ قرض اقساط میں ادا کر سکتے ہوں تو قرض دینے والا تو کہے گا نہ کہ چاہے دن کو کام کرو یا رات کو جتنی بھی مشکل ہو لیکن پہلے اپنی آمدن اتنی کرو کہ قرض واپس بھی کر سکو اور آئندہ میرے پاس قرض مانگنے نہ آو۔ یہی حالات کچھ پاکستان کے ہیں جب کسی کے پاس قرض لینے جاتے ہیں تو پھر اُس کی شرائط بھی ماننی پڑتی ہیں جسے ہماری غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
آپ کو میں پہلے پاکستانی عوام کی غربت کے اعداد و شمار بتا چکا ہوں جب پاکستان کو شرائط ماننی پڑتی ہیں تب اسی غریب عوام کو پٹرول، بجلی، گیس اور تمام اشیاء خورد و نوش مہنگی خریدنی پڑتی ہیں۔ پہلے ہی عوام کا بُرا حال ہے بے روزگاری عروج پہ ہے اور روزگار ہے بھی تو وہ عوامی ضروریات کو پورا نہیں کر رہا لیکن حکومت الیٹ کلاس پر ٹیکس لگانے کے بجائے عوام کو اس مہنگائی کے ساتھ ساتھ ان ٹیکسوں کے بوجھ تلے بھی کچلتی ہے لیکن یہ سب کچھ معاشی خود مختاری نہ ہونے کی وجہ سے ہی جھیلنا پڑتا ہے۔
اب بات کر لیتے ہیں کہ پاکستان کو خود مختار بنانے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ پاکستان دنیا کے سبھی وسائل سے مالامال ہے اور یہ تمام تر وسائل اگر بروئے کار لائے جائیں تو ملکِ پاکستان یورپ سے زیادہ ترقی یافتہ ہو سکتا تھا لیکن افسوس ملکوں کو ترقی کی منازل طے کروانے کے لیے محظ وسائل ہی نہیں مخلص حکمران بھی چاہیے ہوتا ہے۔
پاکستان کے وسائل کو اگر دیکھا جائے تو یہاں پہ دھوپ، ہوا اور پانی وافر مقدار میں موجود ہے بلکہ پانی تو بارشوں سے اتنا ہو جاتا ہے کہ عوام ہی مرتی ہے سیلاب سے اور مالی نقصان بھی عوام کا ہوتا ہے۔ اگر ان تین چیزوں سے سولر، ونڈ اور ہائیڈرو الیکٹرک سے اگر بجلی پیدا کی جائے تو ملک میں صنعت کا راج ہوگا کیونکہ بجلی سستی ہوگی اور عوام بھی سستی بجلی کے مزے لوٹے گی جب صنعت چلے گی تو ہمیں اللہ نے ہر جانب سے بارڈر اور سمندر کے ساتھ ملا رکھا ہے جس سے ہم پوری دنیا میں ایکسپورٹ کر سکتے ہیں لیکن اب آپ آنکھیں کھول سکتے ہیں کیونکہ یہ خواب ہی ہے ابھی تک جسے اگر ہمارے حکمران چاہیں تو حقیقت کر سکتے ہیں۔ اسی دعا کے ساتھ کہ ہمارا یہ خواب پورا ہو اپنے اس کالم کا اختتام کرتے ہیں۔