Tilismati Shakhsiyat Quaid e Azam Muhammad Ali Jinnah
طلسماتی شخصیت قائداعظم محمد علی جناح
25دسمبر کو ہندوستان کی قائداعظم کے بارے میں سوچ کر ٹانگیں کانپتی ہیں کہ ایک ایسا نڈر، بے باک، بلند حوصلہ رکھنے والا، حق و سچ کے ساتھ کھڑا ہونے والا، لالچ و طمع سے عاری، سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط لیڈر اپنی ذہانت و فطانت سے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ آج بھی دنیا ورطہ حیرت میں مبتلا ہے کہ آخر جناح میں ایسی کیا طلسماتی طاقت تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ اقلیتی بھی ان کے جھنڈے تلے آ کھڑی ہوئیں اور قائداعظم اس فانی دنیا میں اپنے کارنامے ہائے سے اَ مر ہو گئے۔ جب کسی انسان میں اتنی خوبیاں اکھٹی ہو جائیں تو بلاشبہ وہ انسان کو انسانیت کے اعلی درجے پر پہنچا دیتی ہیں۔ ان کی شخصیت کو جتنا جانیں، پڑھیں، قائداعظم جیتے جاگتے، اپنے اقوال، کردار اور واقعات میں زندہ جاوید نظر آتے ہیں۔
کہاوت ہے قدرت جب کسی قوم پر مہربان ہوتی ہے یا اس قوم کی تقدیر سنوارنا چاہتی ہے تو وہ ان میں اسے ایسے بے لوث قائد پیدا کر دیتی ہے جو اس ڈولتی کشتی کو اپنے حسن و تدبر سے ساحل تک پہنچا دیتا ہے۔ قائداعظم پاکستان بنانے کے لیے ایک ایسا گوہر نایاب ثابت ہوئے جن کی دور اندیشی، عظمت اور بلندی کردار کے مخالفین بھی معترف تھے۔ شیکسپئر کہتا ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں کچھ اپنی انتھک جدوجہد کی بدولت بلند مقام حاصل کر لیتے ہیں گو کہ محمد علی جناح میں عظمت اور طاقت جیسی خوبیاں تھیں۔ جناح آف پاکستان کے مصنف پروفیسر اسٹینلے لکھتے ہیں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہین ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہین جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہین اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت ہی قائم کر دے۔
قائد اعظم اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیے انہوں نے پرزور انداز میں تلقین کی کہ پاکستان کی سرزمین سے ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کر دیا جائے۔ انہوں نے دولت مندوں کومشورہ دیا کہ وہ بدلتے ہوئے حالات میں اپنا انداز فکر تبدیل کر لیں۔ سرکاری افسروں پر زور دیا کہ وہ ایک ایسی مثالی فضا کو جنم دیں کہ ہر شخص کے ساتھ انصاف ہو سکے اور اس کو اپنا حق مل سکے۔
قائداعظم کو دوسروں کی عزت نفس کے احترام کابے پناہ احساس رہتا تھاوہ اس احساس کے سلسلہ میں کسی قسم کی درجہ بندی کے بھی قائل نہیں تھے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے سے بہت چھوٹے افراد کو بھی کبھی اپنے کسی عمل سے تکلیف نہیں پہنچنے دی تھی۔ قائداعظم کے دو ذاتی ڈرائیور وں عبدالحئی اور محمد حنیف آزاد، دو پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب الحسن سید اور کے ایچ خورشید سے میرے والدصاحب محمد شوکت ہاشمی ایڈووکیٹ کی ملاقات ہوئی۔ ان کی یہی رائے تھی کہ قائداعظم اپنی نجی زندگی میں بھی نہایت بااصول، انسان دوست اور ہمدرد تھے۔ وہ اپنے ملازمین کی سماجی اور معاشی دونوں ذمہ داریوں کا مکمل احساس رکھتے تھے۔ ان کے دکھ دردمیں شریک رہتے تھے۔ اپنے متعلقین کو اپنی ذات سے جائز فائدہ پہنچاکر خوش محسوس کرتے تھے۔
23مارچ 1941ء کی بات ہے کہ قائداعظم کو لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے والی مسجد میں نمازِ عصر ادا کرنی تھی۔ جب وہ تشریف لائے تو مرزا عبدالمجید تقریر کر رہے تھے۔ قائداعظم کو داخل ہوتے دیکھ کر لوگوں نے اگلی صف تک راستہ بنانا شروع کر دیا۔ اتنے میں ایک لیگی کارکن نے کہا سر ادھر سے آگے بڑھیے تو قائداعظم نے جواب دیا میں آخر میں آیا ہوں اس لیے یہاں آخر میں ہی بیٹھوں گا۔ قائداعظم چاہتے تو آگے بڑھ سکتے تھے لیکن انہوں نے آخر میں ہی بیٹھنے کو ترجیح دی کیونکہ وہ عوامی لیڈر تھے اور میرٹ پر کوئی سمجھوتہ پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ تھی قائداعظم کی شخصیت اور یہ تھا انکا مشن، یہ تھیں ان کی کامیابیاں اور ان کی کامرانیاں۔
اس لئے اگر آج بھی قوم انہیں احسان مندی اور تشکر کے جذبات سے یاد کرتی ہے اور اگر آج بھی کروڑوں پاکستانیوں کے ذہن میں ان کی یاد ہمیشہ کی طرح تازہ ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ اگرچہ انہیں جدا ہوئے 74سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی پاکستان کی سیاسی زندگی پر ان کے اثرات نہایت گہرے ہیں۔ پاکستانیوں کے لیے ان کے ارشادات آج بھی قولِ فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان جس کا قیام ایک معجزہ ہے صرف ایک شخص کی بے مثل سیاسی بصیرت اور ذہانت کی زندہ علامت ہے اور وہ شخص ہے قائداعظم محمد علی جناح۔
حالیہ وطن عزیز کی سیاست پر ایک نظر دوڑائے تو سوشل میڈیا پر یہ کہتے سنیں گے کہ ہمارا لیڈر قائد اعظم ثانی ہے تو دراصل وہ آپ کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ تاریخ سے کتنا واقف ہے قائداعظم کا ذکر تو صرف یہ مجبوری ہے ورنہ موصوف کہنایہ چاہتے ہیں کہ اس خطے یا براعظم میں انکے لیڈر سے بڑا لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔ ہم ختم نبوت کے قائل ہیں ختم قیادت کے نہیں۔ بڑے بڑے لیڈر آتے ہیں، آتے رہیں گے لیکن ان کی بڑائی کا فیصلہ میرٹ پر ہوگا، دعوے یا نغموں سے نہیں۔
قائداعظم کو اگر آج ہم بڑا لیڈر مانتے ہیں تو اس کے پس منظر میں سو سالہ تاریخ کی گواہی ہے۔ قائداعظم ہوں، علامہ اقبال ہوں، سرسید احمد خان ہوں، انہیں کسی دعوے کی بنیا د پر نہیں، ان کے کام اور کردار کی بنا پر بڑا مانا گیا۔ اس بڑائی کی شہادتیں ان کی زندگی ہی میں لوگوں نے بچشم سر دیکھ لی تھیں۔ قائد اعظم کی عظمت کردار، عوام کے دل و دماغ پر آج بھی من و عن نقش ہے کہ وہ آج بھی اپنے سیاسی رہنماوں میں انہی کے اوصاف حمیدہ کا پرتو دیکھنے کے متمنی ہیں۔