1.  Home/
  2. Blog/
  3. Raheel Qureshi/
  4. Police Department Ki Islahat Naguzeer

Police Department Ki Islahat Naguzeer

پولیس ڈیپارٹمنٹ کی اصلاحات ناگزیر

پولیس کا نظام تب تک فعال نہیں ہو سکتا جب تھا تک اس ادارے کے فنڈز نہیں بڑھائے جاتے۔ ہم نے جرم کی نفسیات کو سمجھا نہ ہی اپنی پولیس کو بوبی بنایا۔ لندن پولیس میں کانسٹیبل کو بوبی کہتے ہیں لندن میں پولیس نظام کو فعال بنانے کے لیے اس وقت کے ماہر نفسیات رابرٹ پیل عرف بوبی کو سونپی گئی۔ بوبی کورابرٹ پیل نے ہتھیار نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ رابرٹ پیل نے جو نظام پولیس متعارف کروایا اس میں ہتھیار کی جگہ ایک چھڑی اور ایک سیٹی تھی۔ جو آج سے تقریبا 2 سو برس پہلے رابرٹ پیل عرف بوبی تھما گیا تھا۔

رابرٹ پیل نے بوبی کو غیر مسلح کیوں رکھا؟ اس کی سوچ تھی کہ اس سے بوبی کاعوام میں خوفناک امیج نہیں جائے گا اور ساتھ ہی ایک سوچ یہ بھی تھی جرائم پیشہ افراد خود کو عوام اور پولیس کے پاس موجود اسلحہ کے حساب سے مسلح کرتے ہیں اگر پولیس کے پاس پسٹل ہے تو کریمنل افراد خود کو رائفل سے مسلح ہونگے۔ جس سے نہ صرف جرائم بڑھے گے بلکہ جانی نقصانات بھی زیادہ ہونگے۔ اِ دھر ہمارے ہاں جہاں ہر تھانے میں ایک ماہر نفسیات کا فقدان ہے وہاں ہی تھانوں میں موجود گشت والی گاڑیاں بالکل ناکارہ ہیں، تھانوں کی عمارتیں بھی کھنڈر کی تصویر پیش کر رہی ہیں، تھانوں میں محرر سے لر کر ایس۔ ایچ۔ او تک کی رہائیش کے مسائل کا فقدان ہے۔

پولیس افسران ہو ں یا ہمارے قابل احترام کانسٹیبلزاِن کو ریٹائرمنٹ پر گریجویٹی کے ساتھ ایک عدد پلاٹ اِن کا حق ہے کیونکہ پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد ہر اہلکار کو ذہنی مسئلہ و پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ گھر کیسے بنے گا۔ ریٹائرڈ پولیس افسران کو پینشن اورمیڈیکل فنڈز میں جن پریشانیوں، دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تداراک انتہائی اہم ہے۔ وزیراعظم صاحب آپ سے گزارش ہے کہ محکمہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی اصلاحات میں سب سے اہم عنایت فرما ئیں پھر دیکھے پولیس میں کرپشن کا باب کیسے بند ہوتا ہے۔

ہمارے پاک آرمی کے جوان جس طرح سرحدوں کی حفاظت اور دشمن کو ناکوں چنے چپانے کے لیے دن رات متحرک رہتے ہیں او ر وطن عزیز پر مشکل وقت میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دشمن کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم وطن عزیز کے لیے جاں بھی چلی جائے تو وطن پر قربان ہیں اسی طرح پولیس کے ادارے بھی اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے عوامی خدمات میں بڑھ چڑھ کر ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں اور عوام پاکستان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ آپ لوگ آرام کی نیند سو جائے آپ لوگوں کی جان و مال تحفظ کی ذمہ داری ہم پر ہے۔

پاک آرمی کے بعد یہی وہ ادارہ ہے جو اپنے والدین، بیوی بچوں حتی کے خاندان کی پرواہ کئے گئے اپنی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں یہاں تک کہ عید والے دن بھی اپنی اور اپنے اہل خانہ کی پرواہ کئے بغیر وطن عزیز کے عوام کی عید کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں میں یہ تہوار بھی گزار دیتے ہیں اور ان نوجوانوں کو یہ سب کچھ کرنے کے بعد حاصل کیا ہوتا ہے؟ سیاسی گورنمنٹیں اپنے مقاصد میں ان کی زندگیوں کو بھیڑ، بکریوں کی طرح قربان کر دیتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایک واقعہ رونما ہوا ایک تحریک کی سیاسی گورنمنٹ کے ساتھ کچھ پہلووں پر عدم تحفظ پر احتجاج شدت اختیار کر گیااور تحریک کے لوگ بھی اللہ اور رسول کے نعرے لگاتے نظر آئے اور پولیس کے جوان بھی آواز بلند اللہ اور رسول کے نعرے لگاتے نظر ہیں یہاں کون غلظ تھا؟ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو اللہ اور رسول کے نام لے کر لاٹھیاں اور اسلحہ استعمال کرتے نظر آئے، بہت سے گھروں کے واحد کفیل اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، بہت سے جوان جو صبح وردی پہن کر گھر سے نکل رہے تھے انہی میں سے ایک جوان کے معصوم بچے نے اپنے والد کو بولا پاپا آتے ہوئے میرے لیے سالگرہ کا گفٹ لے کر آنا، پاپا آج جلدی گھر واپس آنا، آج میر ی سالگرہ ہے اور خون میں لت پت وہ وردی والا پاپا جب زندگی کی بازی ہارتا ہوا گھر پہنچا، گھر کے باہر شور کی آواز سن کر وہ بچہ دروازے کی طرف لپکا کہ اس کے پاپا آئے ہونگے مگر وہ بچہ اپنے گھر کے باہر کہرام مچا دیکھ کر ششدہ رہ گیا، ذہنی حالت بھی گنوا بیٹھا کہ بجائے اس کے پاپا کے ہاتھ میں سالگرہ کاکیک یا گفٹ ہوتااس کے پاپا کو چند لوگوں نے خونی خالت میں اٹھایا ہوا گھر کے اندر لے آئے۔

اس بچے کی سسکیوں بھری آواز نے ہر ذی شعور انسان کے دل کو دہلا دیا جب بچے نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے، پکارتے ہوئے کہا پاپا مجھے سالگرہ کا گفٹ نہیں چاہیے آپ اٹھ جاو، پاپا، آپ اٹھ جاو، پاپا میں سکول کیسے جاوں گا، ماما کو تو سکول کے راستے کا بھی نہیں پتا، ہر آنکھ آشکبار تھی، دوسری طرف وہ اللہ والی جسے ایک طرف اپنے بیوہ ہونے کا غم کھائی جار ہا تھا اور ساتھ ساتھ کہ ہماری زندگی اب کیسے گزرے گی، میں اپنے بچوں کو کیا بتاونگی کہ انکے پاپا کو کس نے اور کیوں مار دیا۔ حالانکہ جمہوری ملکوں میں سیاسی گورنمنٹ عوام دوست ہوتی ہیں جہاں عوام کو با آسانی اپنے معاملات منوانے کا حق ہوتا ہے مگر افسوس ہم نے سابقہ حکومتوں سے بھی کچھ نہیں سیکھا ان کا طرز سیاست بھی ایسا ہی تھا ادارے اور عوام لڑ رہے ہیں مگر ان پر جُو ں تک رینگتی نظر نہیں آتی تھی مگر آج دنیا ان کا انجام دیکھ چکی ہے۔

1947میں پاکستان وجود میں آنے کے بعد بھی وطن عزیز میں 1861 کی گئی انگریز اصلاحات ہی لاگو رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پہلی بار پولیس نظام میں بہتری لانے کے لیے قانون سازی کی گئی جس میں پولیس کو غیر سیاسی اور آزادانہ محکمہ بنانے کیلیے اصلاحات کی گئی اور پولیس آرڈر 2002 متعارف کروایا گیا۔ مگر افسوس سیاسی حکومتوں نے اتنی ترامیم کیں کہ وہ دوبارہ 1861 کا عکس پیش کرنے لگ گیا۔

حالیہ حکومت نے پولیس کے مایہ ناز افسران جن میں ضلع سطح ہو یا صوبائی سطح پر ہر روز تبادلے تمسخر بنا دیے۔ ایسے ایسے مایہ ناز محترم DPOs، CPOs، RPOs، CCPOحتی کہ IG صاحبان کے ایسے تبادلے ہو رہے ہیں کہ انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ یہ کون سا پولیس آرڈر چل رہا ہے جہاں سنئیر ترین پولیس افسران کے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہے جو ماضی میں دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ا فسران کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ حوصلہ شکنی کی۔

یہ سب پولیس افسران وطن عزیز کا سرمایہ ہیں خدارا عوام میں ان کی قدر و قیمت کم مت ہونے دیے ورنہ جرائم کی دنیا نے سر اٹھا لیا تو آپ یہ بھی نہیں کہہ سکے گے کہ ماضی کی حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں۔ رونڈا بائرن نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ دنیا میں اربوں لوگ ہیں مگر جو ایک انسان میں خوبیاں ہوتی ہیں وہ اور کسی میں نہیں ہوتی۔ ہمیں انسانیت اور وطن عزیز کے ہر فرد کی قدر کرنی چاہے ہر فرد اپنے اہل و عیال کے لیے اہم ہے۔ ریاست، عوام اور پولیس کے درمیان مثبت کردار ادا کرے، نفرتیں قوموں کو تباہ کردیتی ہیں۔

Check Also

Aankh Ke Till Mein

By Shaheen Kamal