Naham Jamat Ka Result, Zimmedar Kon?
نہم جماعت کا رزلٹ، ذمہ دار کون؟

تعلیمی قافلے کا سفر ہے زوال کی سمت
کتاب ہے مگر چراغ بصیرت بجھ گیا
یہ نظام جسے روشنی کا چراغ ہونا چاہیے تھا اندھیروں کا مرثیہ بن چکا ہے۔ حالیہ جماعت نہم کے بورڈ کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ نظام روشنی نہیں بلکہ خود تاریک راہوں کا مسافر ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز نے حالیہ دنوں میں نہم جماعت کے نتائج کا علان کیا۔ کُل تین لاکھ اٹھ ہزار تہتر طلباء میں سے محض ایک لاکھ اڑتیس ہزار اٹھ سو چورانوے کامیاب ہوئے۔ لڑکیوں کی کامیابی کی شرح 53.83 فیصد رہی جبکہ لڑکے صرف 35.33 فیصد کے ساتھ پیچھے رہ گئے۔ یہ اعداد و شمار محض ایک نتیجہ نہیں بلکہ پورے نظام تعلیم پر سوالیہ نشان ہیں۔ وزیر تعلیم اور پالیسی ساز اپنی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے ہمیشہ کی طرح سارا ملبہ سرکاری استاتذہ پر ڈال کر سرخرو ہو رہے ہیں جبکہ اصل خرابی خود ان کی پالیسویوں میں ہے۔ اس صورتحال نے والدین، اساتذہ اور طلبا، سب کو پریشانی اور اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔
امام غزالی نے فرمایا تھا علم بغیر عمل وبال ہے اور عمل بغیر علم گمراہی ہے۔ آج ہمارا تعلیمی ڈھانچہ انہی دونوں کمزوریوں کا شکار ہے۔ حکومت صرف کتابیں فراہم کرکے سمجھتی ہے کہ اس نے تعلیم کا حق ادا کر دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میٹرک اور انٹر کے طلبا، کو امتحانی تیاری کے لیے مہنگے نوٹس خریدنے پڑتے ہیں جن کی قیمت عام والدین کی قوت خرید سے باہر ہے۔ سرسید احمد خان نے فرمایا تھا قوموں کی ترقی کا راز تعلیم میں ہے مگر تعلیم وہ جو سب کو میسر ہو۔ آج تعلیم عام نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کی جاگیر بن چکی ہے۔ جس سے سماجی اور تعلیمی تفریق بڑھتی جا رہی ہے۔ سیگمنڈ فرائڈ نے کہا تھا بچوں کی شخصیت اس ماحول سے ڈھلتی ہے جو انہیں مسلسل فراہم کیا جائے۔ اگر ماحول میں محرومی اور ناکامی کا احساس غالب ہو تو بچے اعتماد کی بجائے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ستم ظریفی ہے کہ رجسٹریشن فیس اور داخلہ فیس کا دوہرا بوجھ والدین پر ڈال دیا گیا ہے۔ غریب والدین اپنے بچوں کو پڑھائیں یا گھر کا چولہا جلائیں؟ یہ سوال ہر گھر کا ہے مگر اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اس امر نے تعلیمی عدم توازن کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور وہ طلباء جو سفید پوشی کے باعث مہنگی تعلیمی سہولیات حاصل نہیں کر سکتے، پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آج ہمیں اقبال کے شاہینوں کو صرف کتابیں دینے کی بجائے حقیقی علم کی بلندی پر لے جانے کی ضرورت ہے مولانا رومی کے الفاظ دل کو جھنجوڑتے ہیں۔ کل کی فکر میں آج کو ضائع مت کرو۔ مگر ہمارے وزیر تعلیم ماضی کی ناکامیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ہر روز نئی چھٹیوں کا اعلان کرتے ہیں۔ گرمیوں کی طویل تعطیلات، سردیوں اور سموک کی چھٹیاں، طلباء کو بمشکل 100 دن اسکول لے جاتے ہیں۔ عجیب تضاد یہ ہے کہ یہی طلبا، شام کو اکیڈمیز اور ٹیوشنز پر باقاعدگی سے اسی گرمی و سردی کی شدت میں جاتے ہیں۔ لیکن نقصان اُن بچوں کا ہوتا ہے جو اکیڈمیز و ٹیوشنز کی فیس برداشت نہیں کر سکتے۔ وزیر تعلیم و سیکرٹری ایجوکیشن کو چاہیے کہ میٹرک اور انٹر کے طلباء کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں میں شام کی کلاسز کا انعقاد کرے تاکہ سب کے لیے تعلیم برابر ہو۔
وزیراعلی پنجاب مریم نواز یقیناََ پروجیکٹس کا اعلان کرتی ہیں کبھی دودھ کے ڈبے تو اب بسکٹ بھی تقسیم کیے جائیں گے۔ مگر کیا اقبال کے شاہین دودھ اور بسکٹ سے پروان چڑھتے ہیں یا علم و دانش سے؟ صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا قوموں کی بقا صرف تلوار سے نہیں تعلیم اور اخلاق سے ہے۔ لہذا اصل سرمایہ کاری تعلیم پر ہونی چاہیے محض پیکجوں اور نمائشی سکیموں پر نہیں اسی تناظر میں اگر طلبا، کو شام کی کلاسز معیاری نصاب اور استاد کے بھرپور رہنمائی یکیے ساتھ تربیت دی جائے تووہ معاشرے کے کامیاب اور باشعور شہری بن سکتے ہیں۔ John Deweyنے کہا تھا Education is not preparation for life; education is life itself. لیکن کف افسوس ہم نے تعلیم کو محض ایک کاغذی ڈگری اور رٹے کا امتحان بنا کر رکھ دیاہے جس سے بچوں میں تدبر، بصیرت اور حکمت کی فراخی پیدا نہیں ہو رہی۔ حضرت واصف علی واصف نے کہا تھا تعلیم کا مقصد محض نوکری حاصل کرنا نہیں بلکہ انسان بننا ہے۔
والدین کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ اسکولز میں ماہانہ والدین کی میٹنگز لازمی کی جائیں تاکہ انہیں تربیت دی جائے کہ موبائل، انٹرنیٹ اور کھیل کود میں توازن اس طرح قائم کیا جائے اور بچوں کو آداب گفتگو اور آداب زندگی کس طرح سکھائے جائیں تاکہ گھر اور اسکول مل کر بچوں کی شخصیت تراشیں اور انہیں معاشرتی و اخلاقی طور پر مستحکم بنایا جاسکے۔
والدین و اساتذہ کے درمیان مستقل رابطہ اور تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے تاکہ بچوں کی شائستگی اور ہنر تربیت میں اضافہ ہو۔ قوم کے شاہینوں کو پرواز کے لیے آسمان چاہیے، زنجیریں نہیں۔ وزیر تعلیم اور پالیسی ساز اگر اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولے تو آنے والی نسلیں محص چھٹیوں، گھپلوں اور اعلانات کی نذر ہوتی رہیں گی۔ وقت آ چکا ہے کہ تعلیم کو نعروں اور پروجیکٹس سے نکال کر عملی اقدامات کے زریعے بچوں کا مستقبل سنوارا جائے۔
چراغ علم جلاؤ کہ روشنی ہو جائے
یہی ہے رازِ حیات، یہی بقا کا سفر

