Mehngi Ka Siren
مہنگائی کا سائرن
یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے؟ وہ جو آگ ہے کیسے لگی ہے؟ آدمی کو کسی طرح اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ رُوپ سَروپ کیا ہوا؟ وہ چہکار مہکار کہاں گئی؟ یہ ہر چیز، ہر چہرے کو کیا ہو گیا؟ گزرتے لمحے گزرنے کے ساتھ ساتھ تاریک ہوتے جا رہے ہیں۔ رابرٹ بریفالٹ اپنی تصنیف میکنگ آف ہیومینٹی میں لکھتے ہیں۔ کوئی انسانی نظام جس کی بنیاد غلط اصول پر قائم ہے، پنپ نہیں سکتا، چاہے ہزار چالاکیاں یا ہیرا پھیری سے اسے قائم رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ارباب اختیار کے ناعاقبت اندیش فیصلوں نے عوام کو روند ڈالا ہے۔
2021 کا سورج ڈوبتے ڈوبتے بھی عوام کو منی بجٹ، بجلی، گیس، تیل کی مصنوعات کی مہنگائی کا تحفہ دے گیا۔ وطن عزیز پر آئی۔ ایم۔ ایف کے بڑھتے ہوئے تسلط کے پیش نظر 2022 سے بھی بہتر ی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ مہنگائی کا اول اول غلغلہ ایوب خاں کے دور میں بھی اُٹھا، چینی مہنگی ہوئی پھر دوسری چیزیں۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد اس ابر باروں نے بھارت کا بھی رُخ کیا اور وہاں فلمی دنیا سے ایک نغمہ "مہنگائی مار گئی "برآمد ہوا۔ بزرگوں کو اب بھی یاد ہو گا۔ یہ نغمہ صرف بھارت ہی نہیں ہمارے ملک میں بھی کافی مقبول ہوا۔
مہنگائی کا طوفان عوام سے جینے کا حق چھین رہا ہے، مہنگائی کے طوفان سے عوام کی دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف کے کہنے پر ملک میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کر کے عوام کی زندگی کو مزید پریشان کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے تقریباً تین سال سے زائد ہونے کو ہے، سوائے بھاری ٹیکسوں، تاریخ کی مہنگی ترین بجلی، تاریخ ساز بلند ترین آٹے، گھی، چینی، ادوایات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، کہیں کوئی معاشی ٹیم نظر نہیں آ رہی جو فل فور غریب عوام ٹیکس اور اشیاء خوردو نوش ریلیف اناونس کر کے عوام کو سُکھ کا سانس لینے دیں۔
ستم ظریقی کہ اسٹیٹ بنک کے گورنر روپے کی بے قدری پر اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کی بجائے قوم کے سامنے عجیب و غریب منطق پیش کر رہے ہیں۔ ظالمانہ پالیسیاں ترک نہ کی گئیں، تواس میں کہنا غلط نہ ہو گا عوام سڑکوں پر اورخونی انقلاب منتظر ہو گا۔ منصب دینی ہو یا دنیاوی اس کے تقاضے اگر پورے نہ کئے جائیں تو یہ منصب انسان کی دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب بن جا تا ہے۔ اس منصب کے تقاضوں کو جو پورا کرے عدل و انصاف قائم کرے، رعایا کی خبر گیر ی کرے، خوف خدا، عاجزی، حسن اخلاق کی دولت سے مالا مال ہو تو اس دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی ملتی ہے۔ اور اگر اس کے بر خلاف تکبر، خود پسندی، ناانصافی، ظلم، بد اخلاقی کا مرتکب ہوا تو دنیا و آخرت میں تباہی و رسوائی ہے۔
ایک لیڈر اپنی عوام کے سامنے بات کوئی کرے اور اس کا عمل کچھ اور ہوتو اس پر عوام اعتماد نہیں کرتی، بلخصوص جب آپ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، تو عوام مدینے والوں جیسا رہن سہن بھی دیکھنا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے کہ رعایا کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑا جا تا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ رات کی تاریکی میں رعایا کا حال احوال جاننے کے لیے گشت فرما یا کرتے تھے۔
ایک رات ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی۔ معلوم کرنے پر معلوم ہوا کے بیوہ عورت یتیم بچوں کوبہلا کر سُلا رہی ہے کیونکہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو یہ منظر اتناتکلیف دہ لگا اوراللہ رب العزت کی پکڑ سے اتنا خوفزدہ ہوئے کہ فورابیت المال گئے اور وہاں سے اپنے کندھے پر آٹے کی بوری اور ضرورت کی چیزیں لا کر ان کے گھر میں رکھ دیں، اس کے علاوہ بچوں کے لیے وظیفہ بھی مقر ر کیا۔ آج یورپ اور دیگر ممالک میں وظائف دئیے جاتے ہیں، ہمارے ارباب اختیاردن رات میاں نواز شریف، آصف علی زرداری کی پالیسوں کاراگ لاپتے رہتے ہیں۔
وطن عزیز میں مہنگائی کی حالیہ لہرنے ملک کے ہر طبقے کو مثاثر کیا ہے۔ آج اس ملک کا مزدور، دہقان اور محنت کش محرومی اور غربت کی لکیر کے نیچے ہے۔ یہ شعبہ ہماری معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ کسانوں کی خوشحالی کا دارومدار بھی زراعت کی ترقی سے وابستہ ہے۔ وہ غربت، مہنگائی، بے یقینی، بے بسی کی ظالم چکی میں پستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ وطن عزیز میں غریب غریب تر ین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جو نظام کی آخری بربادی کی پہلی دلیل ہے۔
ایک شخص نے مچھلی فروشی شروع کی تو سوچا دکان پر ایک خوبصورت بورڈآویزا کر لیتا ہوں۔ جس پر لکھا ہو کہ یہاں میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔ جب بورڈ بن کر آگیا تو کچھ دوستوں کو مدد کے لیے بلا لیا تا کہ بھاری بھر کم بورڈ لگوایا جا سکے۔ ایک دوست نے جب بورڈ پڑھا تو پوچھا تمہارے کاروبار کی کوئی اور شاخ بھی ہے، اس نے بولا نہیں، دوست نے کہا پھر اس میں یہاں کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ اس نے بورڈ پر سے یہاں کا لفظ مٹا دیا۔ اب بورڈ اس طرح ہو گیا کہ میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔
دوسرے دوست نے پوچھا کیا اس علاقے میں میٹھے پانی کے علاوہ کوئی کھارا پانی بھی ہے اس پر اس نے اپنے دوست سے بولا کہ نہیں، اس پر اسکے دوست نے کہا پھر میٹھے پانی کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ اس نے بورڈ پر سے میٹھے پانی کا لفظ مٹا دیا۔ اب بورڈ اس طرح ہو گیا کہ تارزمچھلی فروخت ہوتی ہے۔ اب ایک اورپاس بیٹھے دوست نے پوچھا کہ کیا مچھلی باسی بھی فروخت کروگے۔ اس نے بولا نہیں۔ اس پر اس کے دوست نے کہا پھر یہ تازہ کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ اب بورڈ اس طرح ہو گیا ہے مچھلی فروخت ہوتی ہے۔
اس پر ایک اور دوست نے پوچھ کیا مچھلی ادھاربھی فروخت ہوتی ہے، اس نے بولا نہیں، اس پر دوست نے بولا پھر یہ فروخت کا لفظ مناسب نہیں ہے، اس نے لفظ فروخت مٹا دیا۔ اب بورڈ اس طرح ہو گیا کہ "مچھلی ہوتی ہے"۔ ایک دانا دوست بولے مچھلی کے علاوہ بھی کچھ فروخت کرو گے؟ اس پر اس نے بولانہیں۔ تو پھر مچھلی کا لفظ غیر مناسب ہے اب بورڈ اس طرح ہو گیا۔"ہوتی "ہے۔
ہماری تبدیلی بھی اِن کے اَن گنت حکیمانہ مشوروں کے باعث اب صرف" ہوتی" پر مشتمل ہے۔ جس امید یقین، خوشحالی و شجر کے سبز باغ دیکھائے گئے تھے، اس تحریک میں ہر طبقے نے دل کھول کر ساتھ دیا کہ فکری سوچ کے شجر کے ثمر سے ہر جاندار مستفید ہو سکے۔ پاکستان زندہ باد