Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Qureshi
  4. Mehangai Ka Tufan Tham Na Saka

Mehangai Ka Tufan Tham Na Saka

مہنگائی کا طوفان تھم نہ سکا

سازشوں بحرانوں میں ہم خود کفیل ہیں۔ ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر پر آن کھڑا ہوتا ہے ایک گھتی سلجھتی نہیں کہ دوسری کے بادل سر پر منڈلانے لگ جاتے ہیں۔ میراتھن ریس کی مانند معصوم عوام کو دوڑائی جا رہے ہیں اب تو ان کی چیخیں آسمان کا رخ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ زمانے کے ارسطو، سقراط، بوعلی سینا سمجھنے والے ماہر معیشت دان ناکام ہو چکے ہیں۔ کبھی کشمیر ہماری شہ رگ تھا، بلوچستان کی زمین کے ذخائر بچپن سے کان پک گئے سنتے سنتے مگر محشر کو ہی وہ ذخائر نمودار ہونگے۔

قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی ظلم فرعونیت کا شکار ہے ظلم کے پہاڑوں میں پھنسی ہے۔ قیامت خیز ظلم سہ رہی ہے، ارشد شریف نہتے کو سفاکی سے قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کے وارثان خزاں رسیدہ پتوں کی مانند انصاف کے متلاشی رہتے ہیں۔ اِک احتساب کا دور دورہ تھا، بلاتفریق، لوٹی کھسوٹی ہوئی عوامی اور ریاستی دولتیں واپس آنی تھیں مگر وہ خواب، خواب ہی رہ گئے۔

وطن عزیز کے روپے میں ریکارڈ کمی، بے روزگاری کا گلا گھونٹنا تھا، اقبال کے شاہینوں کو بلاامتیاز و بلاتفریق تعلیم مہیا کرنی تھی، بیماروں اور بوڑھوں کے لیے ادویات و علاج مثالی بنانا تھا، ڈالر واپس 100 روپے پر لانے کے وعدے تھے مگر سد افسوس اب عوام پر پیٹرول کے بم گرا رہے ہیں۔ آج پیٹرول 250 روپے سے تجاوز کر چکا ہے مگر عوام کو کڑوی زہریلی آوازیں جنہیں ایوان بالا، عدل سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ایک کہتا ہے تو چور، تو دوسرا کہتا ہے تو چور۔ معاشی ٹیمیں ریت کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔

حالیہ حکومت کو برسر اقدار آئے عرصہ گزر چکا ہے۔ بنیادی اشیائے خورد و نوش سے لے کر گیس، پیٹرول، بجلی، پانی کے بلوں میں اضافے کا سلسلہ تھم نہیں رہا، بدترین زوال کا شکار ہے۔ اور میڈیا پر بار بار یہ خبر زینت بن رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی کا طوفان عوام کو برداشت کرنا ہوگا کیوں کہ ہم ہی حقیقی عوامی نمائندے و خادم ہیں۔ جو ہماری کشتی میں آئیندہ 5 سال کے لیے آنکھیں اور دماغ بند کر کے بیٹھے گا اسے خیر ملے گی۔ اس نظام کے کھوکھلے پن سے انسانیت ورطہ حیرت میں مبتلا ہے۔

غریب آدمی کے منہ سے نوالہ بھی چھن چکا ہے آٹا، سبزیاں، دالیں، گھی، چینی، چائے غریب کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے۔ مہنگائی کا ریلا غریب کو بہا کر لے جا رہا ہے تو کبھی آئے روز رات کے 12 بجے پیٹرول مہنگا کر کے عوام کو جھٹکے دئیے جاتے ہیں فاقہ کشی پر مجبور کو مزید بجلی مہنگی کر کے ان کی روح کھینچ لی جاتی ہے نہ جانے آئے روز کتنے سفید پوش مہنگائی کے طوفان تلے دب کر خوفزدہ ہو کر جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ آج مستقبل ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہے؟

عوامی نمائندوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کے ارد گرد ہر وقت کچھ نہ کچھ آوازیں ضرور موجود ہوتیں ہیں کچھ آوازیں آپ کے خوشامدیوں کی جو آپ کے دل کو بھاتی ہیں تو کچھ آوازیں ایسے مجبور، لاچار، بےکس سفید پوش لوگوں کی ہوتی ہیں جو آپ کو نامناسب لگتی ہیں مگر آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے ایک آواز ایسی بھی ہوتی ہے جو آپ کے اندر میں موجود ہوتی ہے۔

جس کا نہ کوئی جسم ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی لمبی لمبی لسٹیں جائیدادیں، بینک بیلنس ہوتا ہے یہ آواز ہمیشہ اپنے اندر موجود ہوتی ہے اور آپ سے سرگوشیاں کرتی ہیں۔ جس دن اس آواز نے سرزد ہونے والی ناانصافیوں پر سر اُٹھا لیا، دنیا کی آوازوں سے تو آپ چھٹکارا پا لیتے ہیں مگر اندرونی آوازوں سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکومت صرف ڈھائی سال رہا لوگ ہاتھوں میں خیرات لیے پھرتے تھے مگر کوئی محتاج نہیں ملتا تھا یہاں تک کہ کوئی حاجت مند باقی نہیں رہا۔ جب گورنر بنے تو اس وقت ان کا ذاتی ساز و سامان اس قدر وسیع اور عظیم تھا کہ صرف اسی سے پورے تیس اونٹ لاد کر مدینہ منورہ بھیجے گئے۔ عطر کے بےحد شوقین تھے، نفاست پسندی کا یہ عالم تھا کہ جس کپڑے کو پہنے ہوئے لوگ ایک بار دیکھ لیتے دوبارہ کبھی نظر نہ آتا۔

خوشبو کے لیے مشک اور عنبر استعمال کرتے مگر جس دن خلیفہ بنے آپ نے ساری جائدادیں سرکاری خزانے جمع کروا دیں۔ غریب عوام کی زمینیں جائیدادیں جو کہ شاہی خاندان نے اپنی ملکیت میں شامل کیں تھیں انہیں واگزار کرا کے غریبوں کو واپس کروائیں۔ غلام اور لونڈیاں آزاد کروا کے انہیں ان کے وطن واپس بھیجا۔ وزراء و افسران کو تحائف لینے پر پابندی عائد کی۔ تین براعظموں پر حکومت تھی اور تین براعظموں تک کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ تھا۔

ان کی حکومت دمشق سے دیپال پور کشمیر تک، دمشق سے کاشغر چین تک، دمشق سے سینیگال چاڈ تک اور دمشق سے جنوبی فرانس تک لاکھوں مربع میل تھی اور یہ عالم تھا کہ لاکھوں مربع میل میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ تھا۔ مگر انسانیت سوچ کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ تین براعظموں کے حاکم کا گھر خالی تھا کوئی محل، جاتی عمرہ یا شیش محل یا حویلیاں نہیں تھی۔

دلچسب سبق اموز واقعہ ہے عید قریب تھی بچوں نے والدہ سے نئے عید کے کپڑوں کی فرمائیش کیں۔ والدہ فاطمہ بنت عبدالمالک سات نسبتوں سے شہزادی۔ جن کو ان کے والد ہیروں میں تولتے تھے۔ عالم یہ تھا بچوں کے پاس عید پر پہننے کے لیے کپڑے نہیں تھے۔ شام کو عمر بن عبدالعزیز گھر تشریف لائے تو اہلیہ نے عرض کی عید آ رہی ہے بچے کپڑے مانگ رہے ہیں تو عمر بن عبدالعزیز فرمانے لگے فاطمہ میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ اہلیہ فرمانے لگی آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں ان سے بچوں کے کپڑے لے کر سی لیتی ہوں۔

اگلے ماہ میں گھر میں اون صاف کر کے گھر کا خرچہ چلا لوں گی۔ حضرت عمر بن عبدلعزیز جا کر خزانچی سے ملے اور فرمایا مجھے اگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دو، بچوں کے لیے عید کے کپڑے لینے ہیں۔ خزانچی نے جواب دیا امیرالمومنین آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈانس مانگ رہے ہیں آپ مجھے لکھ کر دے دیں کہ آپ اگلے ماہ زندہ رہیں گے میں آپ کو ایڈوانس تنخواہ دے دیتا ہوں۔ گھر آ کر اہلیہ محترمہ سے فرمایا گھبراو مت ہمارے بچوں کو بہشت میں عمدہ پوشاک ملے گی۔

یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی تربیت اور ماتحت انتظامیہ تھی۔ سبحان اللہ۔ عید کے روز حضرت عمر بن عبدالعزیز نماز عید کے بعد تشریف لائے تو بیٹیاں عید کی مبارکباد دینے کے لیے حاضر خدمت ہوئیں۔ ان کے منہ دوبٹے سے ڈھکے ہوئے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حیران ہو کر پوچھا بیٹیوں کیا بات ہے؟

بیٹی نے جواب دیا کہ بابا جان آج گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا اس لیے صرف پیاز سے روٹی کھا لی۔ جس کی بو منہ میں موجود ہے ہمیں اچھا نہ لگا کہ اس بو سے آپ کو تکلیف پہنچے یہ سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیز کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمانے لگے بیٹیوں میں چند دن کی زندگی کے لیے ہمیشہ کی آخرت برباد نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی تمہیں حرام کھلانا چاہتا ہوں۔ حقیقی حاکم انہیں کہتے ہیں دعوے، تقاریر، میڈیا، سوشل میڈیا کا سہارا لینا نہیں پڑتا۔

مسائل دیمک کی طرح وطن عزیز اور یہاں بسنے والی عوام کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ کاش ہمارے حاکمین سمجھ سکیں تیراک کبھی لروں کی شدت سے گھبرایا نہیں کرتے اور جو گھبراتے ہیں وہ تیراک نہیں ہوتے۔ ناکامیوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے ناکامیوں کو تسلیم کریں۔ سیاسی پارٹیوں اور حکمرانوں کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں، قائم رہنے اور سنہری تاریخ بننے کے لیے کرپشن، ذخیرہ اندوز مافیا، کے شجر خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ کر تاریخ رقم کرنا ہوگی۔

پاکستان زندہ باد۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam