Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Qureshi
  4. Lahore Jinnah Hospital Khud Ilaj Ka Muntazir

Lahore Jinnah Hospital Khud Ilaj Ka Muntazir

لاہور جناح ہسپتال خود علاج کا منتظر

میں کہیں علاج کے ہاتھوں نہ مر جاوں اے امیر شہر

گر مستقبل ہوں تمہارا تو آکر بچا لو مجھ کو

لاہور جناح ہسپتال میں فوری طبی امداد کے فقدان، ڈاکٹرز و پیرامیڈیکل اسٹاف کے غیر اخلاقی رویہ پر کسی کی توجہ کیوں نہیں جاتی؟ آج لاہور جناح ہسپتال میں ڈاکٹرز و عملہ کی بے حسی، سفاکی کے ہاتھوں روزانہ مریضوں کی آہ و بکا، چیخ و پکار آسمان کو چیرتی ہوئی گزررہی ہے، مجال ہے کہ ایم ایس جناح ہسپتال کے کان پر جُوں بھی رینگتی ہو۔

انسانیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا تذلیل ہوگی کہ قائم مقام وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کے ہسپتال میں وزٹ کے باوجود لاہور جناح ہسپتال میں انتظامیہ نے ایک ایک بیڈ پر 3,3 مریض لٹائے ہیں جو اپنی بے بسی، لاچارگی اور غربت کا مذاق اڑوا رہے ہیں ان میں بیشتر مریض موذی بیماریوں کا شکار ہے، ایسے بزرگوں کودیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ بیمار ہونا ان کا گناہ بن چکا ہے جو بیچارگی سے بیڈ پرپڑھے ڈاکٹرز کی راہیں تکتے ہیں کہ کوئی مسیحا ان کے قریب آئے گا اور انکی تکلیف کم ہو سکے۔

رابندر ناتھ نے کیا لاجواب کہا تھا کہ میں نے کتنے قیمتی انسان دیکھے جن کے پاس لباس نہیں تھا اور کتنے ہی قیمتی لباس والے دیکھے جن کے اندر انسان نہیں تھا۔ مسیحاوں کے اندر احساس انسانیت ہی ناپید ہو چکا ہے۔ درندہ صفت عملہ، نازیبا حرکات، ادوایات چوری، ہتک امیز رویہ، بزرگ مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک، نرسوں کی ہٹ دھرمیاں، ہسپتالوں کے برآمدوں میں بچوں کی پیدائیش، عبرت انگیز حشر، اگر یہ درندہ صفت مسیحاؤں پر سخت ترین قوانین کا انعقاد ہوتا ان کو کو قرار واقعی سزائیں دی جاتیں تو آج انسانیت کا جنازہ نہ نکلتا۔ آج لاہور جناح ہسپتال کی در دیوار میں لرزہ خیز داستانیں رقم ہو رہی ہیں مگر کف افسوس قائم مقام حکومت سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔

لاہور جناح ہسپتال کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ علاج کی امید لیے ہسپتال آتے ہیں مگر مراد کسی خوش نصیب کی ہی قسمت میں ہوتی ہے۔ ہسپتال میں نہ دوائیاں نہ ٹیسٹ کی سہولیات میسر ہیں۔ جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں باتھ روموں کی حالت ایسی ہے کہ وہ چیخ چیخ کر نوحہ کناں ہیں کہ جب سے جناح ہسپتال قائم ہوا ہے کسی نے انہیں صاف کرنے کی زحمت ہی نہیں کی، کہیں ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف کا غیر اخلاقی رویہ ہے تو صفائی کا عملہ بھی اس گنگا میں ہاتھ رنگنے سے گریز نہیں کرتا اور آدھے سے زیادہ صفائی کا عملہ پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس یا ڈاکٹروں کے گھروں پر کام کر رہا ہوتا ہے۔ کسی بھی مذموم حرکت کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی کیونکہ اس گنگا میں سب ہی۔۔

میڈیکل وارڈز میں جہاں چوہوں کی ریسیں لگی ہیں وہاں کھٹمل بھی لوگوں کو نوچ نوچ کر کہتا ہے کہ یہاں علاج ناممکن ہے۔ دھکے کھاتے عوام یہاں علاج کی نیت سے آتے ہیں مگر شفاء تو درکنار کئی موذی بیماریاں اپنے علاقوں میں ساتھ لے جاتے ہیں۔ ہماری آنکھیں اچھے وقتوں کے لیے ترس گئیں۔ آنسو خشک اور اندروانی اعضاء پگھل رہے ہیں انسانیت ریت کا پہاڑ ثابت ہو رہی ہیں۔ دکھوں سے بھری انسانیت کو آپ کے ڈائیلاگ کی نہیں پریکٹیکل مدد کی ضرورت ہے۔

ایک زمانہ تھا معاشرے میں پولیس اور صحافیوں سے ہر عام و خاص دبکتے تھے مگر آج عوامی مسیحا سب سے آگے نکل گئے ہیں مسیحاوں کے پاس سٹریٹ پاور بھی ہے اور مریضوں کے ذریعے حکومت کو بلیک میل کرنے کی طاقت بھی ہے۔ سن 2008ء مین بننے والی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اب تک سینکڑوں ہڑتالیں کر چکی ہے۔ جس میں درجنوں مریض ان ہڑتالوں کی بلی چڑھ کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

مقام افسوس کہ سرکاری ہسپتالوں نے کبھی کسی بھی حکومت کے کہنے پر ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا کہ جس سے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں و لواحقین کی تکلیف کم ہو سکے۔ ہمارے سرکاری ہسپتال زوال کی جانب گامزن ہیں یہ پرانا بوسیدہ سسٹم آخری ہچکیاں لے رہی ہیں ہمیں اپنے زوال کے اسباب جو بظاہر کچھ اور دیکھائی دے رہے ہیں اصل میں تلاش کرکے ہر ایک کو اپنی اصلاح کے ساتھ اپنا فرض نبھانا ہوگا بصورت دیگر بکھرنے میں وقت نہیں لگے گا۔

ہسپتالوں میں بھی احتساب کا قانون لاگو کرنا ہوگا، کالی بھیڑوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ سن 2016 میں ہسپتالوں کی ریکنگ کے عالمی ادارے رینکنگ ویب آف ہاسپٹلز نے ہسپتالوں کی ریکنگ جاری کی جس کے مطابق پاکستان کا کوئی سرکاری ہسپتال دنیا کے ساڑے 5 ہزار بہترین ہسپتالوں میں شامل نہیں تھا۔ صحت کے انفراسٹرکچر کی مایوس کن صورتحال کی بہت سے وجوہات ہیں ایک وجہ تو یہ کہ ہم ایسے بے لوث، محب وطن ڈاکٹرز کو پیدا کرنے میں ناکام کرہے ہیں جو اپنے مقدس پیشے کا وقار بلند رکھتے ہوئے انسانیت کی خدمت سے سرشار ہوتے۔

کہاوت ہے ایک آرے سے ایک درخت کو کاٹا جا رہا تھا، کسی نے درخت سے کہا تو اتنا بڑا درخت ہے اور ایک چھوٹا سا لوہے کا بیڈ تجھے کاٹے جا رہاہے؟ درخت نے کہا اس بلیڈ کی کیا جرات ہے کہ یہ مجھے کاٹے، درحقیقت میرا بھائی لکڑی کا وہ دستہ جو اس بلیڈ کی پشت پر نصب ہے میں اس کے ہاتھوں مارا جا رہا ہوں۔ درحقیقت مظلوموں کا درد ہی اتنا بڑا ہے کہ الفاظ بھی رونے لگ جاتے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ ہمیں بھی بول دو، تاکہ قیامت والے دن کہہ سکیں کہ ہم بھی مددگاروں میں شامل تھے۔

قارئین کرام! یہاں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ وطن عزیز کی سول و فوجی، بیوروکریسی، مخلص سیاستدان، محب وطن ججز اور صحافیوں کو وقتا فوقتا سرکاری ہسپتالوں میں انتظامیہ کو ایسی ادویات دینی چاہیے جن سے ان کے اندر مال و متاع اور اقتدار کی ہوس ختم ہو، ان کے دماغوں میں ایسے کیمیکلز داخل کئے جائیں جن سے انہیں مصنوعی طور پر ہی سہی عام آدمی کے مسائل، دکھ، تکلیف، محسوس ہوں کوئی ایسی گولی ہو جو ان کے خون میں شامل ہو کر ان کے اندر سے اپنی سات نسلوں کے لیے ہوس سے انہیں نجات دے۔

آخر میں ایک ٹیکا شعور کا بھی شامل ہونا چاہیے جو اس قوم کے ہر فرد کو لگنا ضروری ہے تاکہ ان میں اپنے حقوق اور اچھے برے کی تمیز کا شعور اجاگر کرے۔ ہمارا فرض ہے کہ وطن عزیز پاکستان کو ان گھناؤنے کردار کے حامل اشخاص سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کریں۔ صمیم قلب سے دعا ہے کہ اللہ کرے اس دن ہمارے قلم ٹوٹ جائیں، اُس کی سیاہی سوکھ جائے جب ہم حق بات لکھنے سے گریز کریں۔ پاکستان زندہ باد۔۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam