Iqtedar Ka Khel
اقتدار کا کھیل
حکومت کرنا، خواہش رکھنا خطرناک کھیل ہے یہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے اس کھیل میں آ پ کسی کی جان لے بھی سکتے ہیں اور آپ کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔ بعض اوقات حکمرانی کا جنون پاگل کر دیتا ہے اور آپ ڈاکٹر فاؤ سٹس کی طرح روح کا سودا کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنے جیسے انسانوں پر ثابت کر سکیں کہ آپ کو خدا نے تمام لوگوں سے افضل بنایا ہے۔ جب انسان خود کو ناگزیر سمجھ کر دیوتا کا درجہ دے لیتا ہے پھر وہ ہر ایک سے توقع رکھتا ہے کہ اب وہ عام انسان اس خاص انسان کی پوجا کرے۔
پرویز مشرف کا وہ دبنگ بیان یاد آتا ہے کہ نواز شریف اور بینظر بھٹو اب کبھی پاکستان واپس نہیں آئیں گے اور آج موصوف کا خود کا پاکستان آنارفو چکر ہونا ہے۔ ایک وزیراعظم کو بولنے سے زیادہ خاموش رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ہر بات پر ردعمل دینا ضروری نہیں ہوتا۔ عمران خان کی حکومت کا اس طرح جانا، میں ان کی ذاتی زبان کا بڑا ہاتھ ہے۔ نہ یہ خود خاموش رہے نہ وزراء و مشیر۔ عظیم مسلم مفکر ابن خلدون نے اپنی معروف کتاب مقدمہ میں لکھا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ زبان اپ کو تخت پر لے جاتی ہے اور زبان ہی آپ کو زمین بوس کر دیتی ہے۔ لوگ اس تبدیلی کاانتظار کرتے رہے جن کے خواب انہیں دکھائے گئے تھے۔ جن کے وعدے ہزاروں بار کیے جا چکے تھے مگر عدم دلچسپی کے باعث ان کے اتحادی ان سے روٹھ گئے، مخالف سیاسی جماعتیں اکھٹی ہو گئیں، خود ان کی جماعت کے کئی سرکردہ رہنما بغاوت پر اُتر آئے جو انہیں طاقت فراہم کرنے میں لگے رہے تھے۔ وہ ان سے طاقت چھین لینے کے درپے ہوگئے۔
وزیراعظم صاحب 3سال اور 8 مہینوں میں سب کچھ بہہ گیا ہے جو کچھ 20سے 25 سال میں کمایا تھاتحریک عدم اعتماد کی تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بجائے بوکھلاہٹ کا شکار رہے۔ سپورٹس مین سپرٹ کا تقاضا یہ تھا اور ہے کہ اپنی شکست تسلیم کی جائے اور دوسرا میچ کھیلنے کی تیاری شروع کر دی جائے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے مگر پاکستان کی عوام آپ سے پوچھتی ہے کیا آپ غربت کی لکیر کو سمجھے؟ کیا کوئی اتنے سالوں میں غریب عوام بجٹ، پالیسی پیش کی؟ ایک کروڑ نوکربھرتی کیے؟
عوام پوچھتی ہے 50لاکھ گھر کس سیارے پر بنے؟ کیا قرضے ختم ہو گئے؟ کیا چین خوش تھا؟ کیا روس خوش تھا؟ کیا ترکی، ملائشیاء سے دودھ کی نہریں بہتی ہوئی آئیں؟ کیا بھارت سے تعلقات بحال کر کے کشمیر پر بات چیت شروع کر سکے؟ کیا افغانستان میں طالبان حکومت کے حوالے سے کوئی کردار ادا کر سکے؟ عوام نے صرف کرپشن کے خاتمے کے لیے ہی نہیں جن 200 بندوں کی ٹیم کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے کہ ان کے معاشی مسائل حل ہونگے اس کا مینڈیڈیٹ دیا تھا اور ملا کیا رانا ثناء اللہ پر جعلی منشیات کا کیس۔
حکومت ملنا ایک نعمت ہے۔ بشرطیکہ حکومت صالح ہو اور صالح حکومت وہی ہے جو اپنی رعایہ کی جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ اور ان کی ضروریات زندگی کی کفیل ہو، جس کے زیر سایہ ہر انسان سکون و اطمینان کی زندگی بسر کرے۔ وطن عزیز ایک ایسا انوکھا ملک ہے، جس میں عدلیہ کا سیاسی کردار اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ جب بھی کبھی معاملات عدالت میں گئے تو سیاست دان ہمیشہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔
ایک وہ تھے جو غیر آئینی اقدام کو ملک کے بقاء کے لیے ضروری سمجھتے تھے اور دوسرے وہ جو اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ اس لیے عدالت نے جب بھی کبھی کوئی فیصلہ دیا وہ آج تک مسلسل متنازعہ چلا آیا ہے۔ آج سے تقریبا 75 سال قبل 17اپریل 1953ء کو جب گورنر جنرل غلام محمد نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کی اور دستور ساز اسمبلی کو توڑا تو سپیکر مولوی تمیز الدین عدالت ِ عالیہ سندھ جا پہنچے۔ عدالت نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔
یہ فیصلہ اگرچہ ایک ماتحت عدالت عالیہ کا تھا لیکن اسے کچھ سیاست دانوں نے عدالتی خودمختاری سے تعبیر کیا۔ اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت سپریم کورٹ جاپہنچی جہاں جسٹس محمد منیر سربراہ تھے انہوں نے پہلی بار نظریہ ضرورت کا استعمال کیا اور گورنر جبرل کے اقدام کو قانونی قرار دیتے ہوئے لکھا ضرورت اس فعل کو قانونی حیثیت دیتی ہے جو عام حالات میں غیر قانونی ہوتا ہے یہ وہ فیصلہ تھا جس کے سائے آج بھی پاکستان کی تاریخ پر گہرے ہیں۔ 75 سال گزر جانے کے بعد بھی سیاست دان ایک بار پھر عدالت کے دروازے پر ہیں۔
آئین کسی بھی ملک و قوم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماراآئین برطانیہ کی طرح غیر تحریری نہیں بلکہ تحریری ہے۔ جن جمہوری ملکوں میں آئین تحریری شکل میں ہوتا ہے وہاں پارلیمنٹ سپریم نہیں ہوتی بلکہ آئین سپریم ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور مقننہ اپنی پاور ایکسرسائز کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں مگر یہ آئین کے تابع ہوتے ہیں۔ آئین کے یہ تین بڑے ستون ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں نہ عدلیہ پارلیمنٹ سے کمتر درجہ رکھتی اور نہ پارلیمنٹ عدلیہ کے نیچے آتی ہی وطن عزیز میں بارہا آئین شکنی ہوتی چلی جا رہی ہے ہے اس کا سدباب کیونکہ نہیں ہو رہا۔
جہاں نیم خواندہ سے معاشرے کو آئین انگریزی میں لکھ کر دیا گیا ہو، پھر اس ملک میں لوگوں کو آئین سے دور رکھنے کے لیے اس کا کوئی باب نصاب کی کسی کتاب میں شامل نہ کیا گیا ہو، جس ملک کے شہریوں کو یہ بھی علم نہ ہونے دیا گیا ہو کہ آئین نے انہیں کون کون سے بنیادی انسانی حقوق دے رکھے ہیں۔ ہمارے ہاں آئین کا احترام محض ایک کتابی بات ہے نہ یہاں کسی کو معلوم ہے آئین کیا کہتا ہے؟ نہ اس کے بارے میں کوئی حساس ہے۔
یہ ایک ایسا اجنبی ڈاکومنٹ ہے جو ہماری اجتماعی زندگی سے دور رکھا گیا ہے اور عملی طور پر اس کی افادیت اقوال زریں سے زیادہ نہیں رہنے دئیے گے۔ حتی کہ اہل سیاست بھی جو خود آئین ساز ہیں آئین کے احترام سے بے نیاز ہیں یہ جب آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد صرف وہ چند آرٹیکلز ہوتے ہیں جو ان کے حق اقتدار سے متعلق ہوتے ہیں۔
شہبا ز شریف وزیراعظم بننے جا رہے ہیں اور نیچے ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب۔ عوام کی ان سے بے پناہ توقعات ہیں جیسے انہوں نے جلاوطنی کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب بن کر دن رات محنت کر کے عوام کے دل موہ لیے تھے۔ وطن عزیز کی غریب عوام مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے مہنگائی ا ٓسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ عوام کا دل جیتنے کے لیے فل فور غریب عوام بجٹ پیش کرنا ہو گا ورنہ عوام اس تبدیلی کو بھی زمین تلے روند ڈالے گی۔ پاکستان زندہ باد۔