Falasteen Lahu Lahu
فلسطین لہو لہو
کب تک ہم حالات کا رونا روئیں گے؟ کب تک ہم نوحے پڑھتے رہیں گے؟ کب تک محض لعن طعن پر گزارا کریں گے؟ کب تک محض خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ کب تک ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہیں گے؟ کب تک آسائیشں ہمارا دامن تھام کر ہمیں روکتی رہیں گی؟ کب تک ہم میدان میں اترنے سے کتراتے رہیں گے؟ کب تک ہم اس دقیانوسی نظام تلے پستے رہیں گے؟ کب تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی پکارتی رہے گی؟ کیا یہ امت مسلمہ کی ذات پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟ کب تک؟ آخر کب تک؟
یہ سوالات اگر آپ کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں اور کیوں نہ ہو؟ سوچیے زرا غور فرمائیے آج ارض فلسطین کی فضائیں چیخ چیخ کر آہ و بکار کررہی ہیں جہاں لرزہ خیز داستانیں رقم ہو ر ہی ہیں۔ یہ سرزمین انبیا کی ہے انبیاء ہمارے ہیں، توحید کا جو پرچم انہوں نے لہرایا تھا وہ پرچم آج ہمارے ہاتھ میں ہے، جس نبی پاکﷺ کی بشارت موسی و عیسی علیہ اسلام نے دی تھی، اس نبیﷺ کی پیروکاری کا شرف صرف ہمیں حاصل ہوا ہے جس مسجد اقصی کی بے حرمتی کی کوشش آج کی جا رہی ہے۔
اسی مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے حضورﷺْ نے سولہ ماہ نماز پڑھی ہے یہی وہ مقام ہے جہاں سے حضور ﷺ کو معراج ہوئی، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضورﷺ نے انبیاء اکرام کی امامت فرمائی۔ مسجد نبوی کے علاوہ یہی وہ تیسرا مقام ہے جہاں ایک نماز پر پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا وعدہ ہے۔
کیا ہم اس مقدس سرزمین کو باغیان خدا، قاتلان انبیاء اور منکران محمدﷺ کے حوالہ کرنے پر راضی رہ سکتے ہیں؟ ایک فلسطینی بزرگ کی دل دہلادینے والی آوہ بکا سے نکلی آواز نے میرے جسم میں کپکپی طاری کر دی جب اس کے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سب شہید کر دئیے گئے تو اس نے ان سے مخاطب ہو کر کہا میرے بچو! جب تمہاری ملاقات رسول اللہ ﷺ سے ہو تو انہیں یہ ضرور بتانا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ پر لاکھوں کروڑوں سلام مگر جب یہودیوں کی طرف سے غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا تھا تو اس وقت آپکی امت خاموشی سے ہمارا تماشہ دیکھ رہی تھی۔
واقعی ہم حضورﷺ کو کیا منہ دیکھائے گے کہ جب آپ کے امتیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے تو ہم اپنے اپنے موبائلز پرورلڈ کپ، کرکٹ میچیز کی معلومات شئیر کرنے میں مصروف عمل تھے۔ ہماری سیاسی جماعتیں الیکشن کی رنگ رلیوں میں مصروف تھیں۔ کوئی بڑی اجتماعت نظر نہیں آ رہیں۔ ارض فلسطین پر کیا بیت رہی ہے، مصائب و الام کی برکھا برس رہی ہے لیکن اکابرین اُمت سیاسی ہوں یا مذہبی لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ گراں خواب یہ رہنما کیسی ارزاں آرزوئیں پال رہے ہیں۔ کوئی اذان انہیں بیدار کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔ فلسطین سے اُٹھنے والی دلدوز چیخیں اُن کے کانوں تک رسائی حاصل نہیں کر رہیں۔
کف افسوس! ذہن شل اور قلم کپکپا رہی ہے کہ دنیا کی مجموعی آبادی تقریبا9 ارب کے قریب ہے۔ جن میں مسلم امہ کی تعداد دنیا بھر میں تقریبا 3ارب کے قریب ہے۔ دنیا بھر میں تیل و گیس سمیت معادنیات کی دولت سے مالا مال تقریبا56 اسلامی ممالک ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلم ممالک ہونے کے باوجو د غزہ کے فلسطینی مسلمان بے یارومددگار امت مسلمہ کی جانب سے مدد کے لیے راہیں دیکھتے دیکھتے گاجر مولی کی طرح ذبح ہو رہے ہیں۔
9اکتوبر سے شروع ہونے والے ان سفاک اسرائیلی مردودوں، دجالی ٹولے کے ہاتھوں ظلم و بربریت کی بھینٹ چڑھنے والے معصوم فلسطینیوں، ننھے منے زمینی فرشتوں پر قیامت خیز بمباری سے خون کی ہولیاں بہارہا ہے۔ ابلیسوں نے ہر طرف سے رکاوٹیں لگا کر کھانے پینے اور ادوایات کی فراہمی مکمل طور پر بند کر دی ہے۔ اس وقت فلسطین کی سرزمین قیامت سے دوچار ہے۔ شہداء میں 60فیصد تعداد خواتین اور معصوم بچوں کی ہے۔ ایسے خونخواردرندوں اور ان کی پشت پر کھڑے بے ضمیروں کو مہذب تو کیا اولاد آدم بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
مذمت، افسوس اور تعزیت کے سب الفاظ بلکہ اظہار کے سبھی حربے اور تاسف کے سب انداز اپنے معنی کھوچکے ہیں۔ غزہ میں خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں ارض فلسطین خون میں بہہ رہا ہے بدترین قیامت خیز بمباری سے کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ہمارے ہاں فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کے لیے ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں۔
عملی جدوجہد چھوڑ کر مساجد میں دعاوں اور بددعاوں کے زریعے فلسطین کی مدد اور اسرائیلیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ دعاوں پر اکتفا کرنے سے ظلم ٹلتے تو غزوہ بدر، اُحد، خندق نہ ہوتے۔ عظیم فاتح مسلمانوں کی تاریخ کا عظیم سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کو اسکے ایک سپاہی نے اطلاع دی کہ شہر میں ایک واعظ (مولوی) آیا ہے اس کا بہت چرچا ہے لوگ اسکو سننے کے لیے جاتے ہیں باتیں بہت پُر اثر کرتا ہے۔ یہ سن کر صلاح الدین ایوبی بھیس بدل کر اس کے پاس پہنچ گیا اس کا بیان ختم ہونے کے بعد سلطان نے پوچھا کہ بیت المقدس مسلمانوں سے فتح کیوں نہیں ہو رہا ہے کیا وجہ ہے؟
اس عالم نے کہا کہ دعا مانگتے رہو بیت المقدس فتح ہو جائے گا۔ سلطان نے یہ سننا تھا کہ فوراً تلوار نکالی اور اسکی انگلیاں کاٹ کر پوچھا کہ بتاو کہ کون ہو تم کس نے بھیجا ہے۔ سلطان کے چہرے کی سرخی اور غضب کی تاب نہ لاتے ہوئے بولا کہ وہ یہودی جاسوس ہے جو عالم کا بھیس بدل کر آیا اور لوگوں کو جہاد کی بجائے دعا کا حکم دے رہا ہے۔ سلطان نے اسکا سر قلم کر دیا۔ آج انسانیت ورطہ حیر ت میں مبتلا ہے مسلم امہ فلسطینیوں پر ہاتھ پیر ہلائے بغیر صرف دعاوں اور بدعاوں پر اکتفا کرکے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کر رہے ہیں۔