Eid Ul Azha Sunnat e Ebrahimi
عید الضحیٰ سنت ابراہیمی
آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
ہر سال عیدالاضحیٰ مذہبی جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے جس کا مقصد ایثار و قربانی کے اُس عظیم جذبے کی یاد تازہ کرنا ہے جس نے آج سے صدیوں پہلے حضرت ابراہیمؑ کو اپنے بیٹے اور حضرت اسماعیلؑ کو اپنی جان کی قربانی کے لیے رضا مند کر دیا تھا۔
الاضحیٰ یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کی مراد "قربانی" سے ہے۔ اس کا مطلب ہے قربانی کی عید۔ یہ تہوار رمضان سے تقریباََ 70 دن بعد منایا جاتا ہے۔ یہ مسلم تہوار حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ امت مسلمہ کے موسس و مورث اعلیٰ حضرت ابراہمؑ نے اپنی دانست میں اللہ تعالیٰ کا حکم و ارشاد پا کر اپنے لخت جگر حضرت اسمائیلؑ کو اس کی رضا مندی کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کرنے کے لیے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرمائی تھی اور پھر حضرت ابراہیمؑ کے سر پر وہ امامت عالم کا تاج رکھ دیا تھا جو قیامت تک ان کی سنت بن کر جاری رہے گا۔
قربانی کرنے والا صرف جانور کے گلے پر ہی چھری نہیں پھیرتا بلکہ وہ ساری ناپسندیدہ خواہشات کے گلے پر بھی چھری پھیر کر ان کو ذبح کر ڈالتا ہے جو اس نیت کے تحت قربانی نہیں کرتا وہ قومی رسم پوری کرتا ہے۔ جس میں گوشت و پوست کی فراوانی تو ہوتی ہے لیکن وہ تقویٰ نہیں ہوتا جو قربانی کی اصل روح ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قربانی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جس کے پس منظر میں تقویٰ کے جذبات نہ ہوں۔
قرآن پاک میں اللہ پاک سورۃ الحج میں فرماتے ہیں "مجھے نہ قربانیوں کے گوشت چاہیے نہ خون، مجھے صرف دلوں کا تقویٰ چاہیے"۔ اللہ پاک صرف متقیوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے۔ عیدالاضحیٰ سنت ابراہیمیؑ کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر خلیل اللہ، حضرت ابراہیمؑ کی عظیم قربانی کا اعادہ کرتے ہوئے اور ذبیح اللہ حضرت اسماعیلؑ کی فرمانبردار و اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو رضائے الہٰی کے لیے قربان کرنے کا درس یاد کرتے ہیں۔
عید اور قربانی کے حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کے لیے خوشخبری سنا دئجیے"۔
عید قربان کے دنوں میں جو تکبیر سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے وہ تکبیر تشریق ہے۔ تکبیر کے معنی بلند کرنا ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا اعتراف اور اعلان کرنا ہے۔ تشریق کے معنی کسی چیز کو چمکا دینے کے ہیں۔ روشن کرنا اور واضح کر دکھانا۔ اس کا نام تکبیر تشریق اس لیے ہے کہ یہ سب سے پہلے اس وقت پڑھی گئی جب سورج طلوع ہو کر زمین پر چمکا تھا۔
شان ترتیب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت میں جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کے لیے چھری چلا رہے تھے۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیلؑ کو بھیجا۔ جنہوں نے اس قربانی کی قبولیت کی بشارت دی اور کہا اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ ہی بڑا ہے، اللہ ہی بڑا ہے۔ ابراہیمؑ نے کہا کہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ کے سوا کوئی بڑا نہیں اور اللہ ہی بڑا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ نے کہا کہ اللہ اکبر وللہ الحمد، اللہ ہی بڑا ہے اور اللہ کا شکر ہے جس نے میری قربانی کو قبول کیا۔
ماہ ذی الحجہ کی 9 تاریخ کی نماز فجر سے لے کر 13 تاریخ کی نماز عصر تک ہر نماز کے بعد ہر مسلمان مرد، عورت پر واجب ہے کہ یہ تکبیر قدرے بلند آواز سے پڑھے کیونکہ قرآنی آیات میں حضور اکرم ﷺ کی مبارک احادیث میں بھی یہ ارشاد ہے۔ حضرت جابرؓ سے فرماتے ہیں کہ عید گاہ جاتے اور آتے ہوئے راستہ تبدیل کرنا مسنون ہے۔ (بخاری)
عید الاضحیٰ میں سب کاموں سے زیادہ پیارا کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی ہے اور قربانی کے جانور کے سینگ خون کھر وغیرہ سب کا قیامت کے دن ترازو میں رکھ کر وزن کیا جائے گا جس سے اس کے عمل کا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور اس کی مغفرت ہو جائے گی اور اس قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اس کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔ لہٰذا تم لوگ خوشی سے قربانی کرو اِس کو تاوان ہرگز نہ سمجھو۔
قربانی کے خریدنے میں جو پیسہ خرچ ہوتا ہے وہ اللہ کے نزدیک سب پیسوں سے زیادہ محبوب ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو پیسہ قربانی کے لیے خرچ کیا جائے وہ سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک ہے۔ حضور ﷺ سے صحابہ ؓ نے عرض کیا اس میں ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہر ایک بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر قربانی کا جانور ایسا ہو جس پر اون ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا اون کا جس قدر رواں ہے ہر روئیں کے بدلے میں ایک ایک نیکی لکھی جائے گی۔ قربانی کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس سے اللہ خوش ہوتا ہے دوزخ سے نجات ملتی ہے اور گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بڑے اور فربہ جانوروں کی قربانی کرو کیوں کہ وہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گی۔
ذبح کرنے سے پہلے قربانی کے جانور کے دونوں ہاتھوں اور پیروں کو باندھ دو تاکہ ذبح کرنے میں سہولت ہو اور جانور کے چہرے کا رخ قبلہ کی طرف کر دو اور چھری کو خوب تیز کر لو لیکن جانور کے سامنے مت تیز کرو اور نہ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرو اور خون گرنے کے لیے کسی جگہ گڑھا کھودو تاکہ خون اس میں بہہ کر جمع ہو جائے اور اپنے داہنے ہاتھ سے چھری لے دعا پڑھ کر ذبح کرو اور ذبح کے بعد جانور کے ہاتھ پاؤں کھول دو۔
تاریخ انسانی میں سب سے پہلی قربانی حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اور ان کو آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی ٹھیک ٹھیک سنا دیجیے جب ان دونوں نے قربانی کی تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ دراصل ایک نے جس کا نام ہابیل تھا دل کی آمادگی سے رضائے الٰہی کی خاطر بہترین دانے کی قربانی پیش کی اور دوسرے نے جس کا نام قابیل تھا بے دلی سے ناکارہ غلے کا ایک ڈھیر پیش کر دیا۔ ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلا ڈالا اور یہ قبولیت کی علامت تھی لیکن دوسری کو آگ نے نہیں جلایا یہ قبول نہ ہونے کی علامت تھی۔
قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ایک عالمگیر چیز ہے اور ہر قوم و ملت میں اس کا رواج ہے کوئی قوم دینی یا دنیوی اعتبار سے ترقی نہیں کر سکتی ہے جب تک کہ ایثار و قربانی نہ کرے۔ جب ہم عمیق نظر سے دیکھتے ہیں تو کائنات کی ہر چیز میں قربانی کا جذبہ دیکھتے ہیں اور ہر ایک چیز دوسری چیز پر فدا اور قربان ہے۔ تمام جمادات اور نباتات و حیوانات انسان پر قربان ہیں اور انسان اپنے حقیقی ربّ پر قربان ہے۔
ہزاروں، لاکھوں درختوں کی قربانی، مکانوں کی تعمیر کے لیے کی جاتی ہے۔ بے شمار نباتات گھاس اور پودے حیوانات کی خاطر کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں سپاہی ملک و وطن کی حفاظت و نگہداشت کے لیے قربان ہو جاتے ہیں اور بے شمار فرزندان قوم و ملت و طنی و ملی آزادی میں کام آ جاتے ہیں اور بہت سے لوگ شہید ہو کر حیات جاودانی حاصل کرتے ہیں۔
ایثار جہاد قربانی اعتماد باللہ، اعتماد بالنفس اور سرفروشی و جانبازی جیسی صفتیں سرمایہ حیات ہیں جو عید قربان میں بدرجہ اتم موجود اور نمایاں ہیں ان ہی جذبات کی آبیاری کے لیے عید قربان ہر سال منائی جاتی ہے۔ عشرہ ذوالحجہ میں عبادت خدا کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ان دنوں میں روزہ و دیگر عبادات کا کرنا افضل ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو سنت نبویؐ پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کی شفاعت نصیب ہو، اور آپ کے دست مبارک سے جام کوثر عطا فرمائے۔