Jab Mere Pas Paise Khatam Ho Gaye
جب میرے پاس پیسے ختم ہو گئے

مجھ پر کرم کا ایسا خاص سلسلہ ہے کہ تنگ دستی کا سامنا کبھی نہیں رہا۔ اس کے لیے جتنا بھی شکر ادا کروں، کم ہے۔ یہ کوشش بھی رہتی ہے کہ جتنی آمدن ہو، اخراجات اسی کے اندر رہ کر کروں۔ یونیورسٹی کے زمانے میں والد صاحب پیسے بھیجا کرتے تھے۔ لیکن جب روزنامہ دی نیشن میں فری لانس کام کرکے اپنی آمدن شروع ہوئی تو والد صاحب کی بھیجی رقم محفوظ رکھ کر اپنے اخراجات میں اس آمدن کے حساب سے ترمیم کر لی۔ تب دی نیشن سے ایک اسائنمنٹ کے 750 یا 800 روپے ملا کرتے تھے۔ ٹیکس کٹ کے غالباً 727 روپے کا چیک ملا کرتا تھا۔
مہینے کے 2800 یا تین ہزار روپے بن جایا کرتے تھے۔ ایک تو وہ زمانہ سستا تھا، دوسرا پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہاسٹل میں رہنے اور کھانے پینے کے اخراجات حیران کن حد تک کم تھے، تو 2800 روپے میں بہت ہی مناسب گزارا ہو جایا کرتا تھا۔ یہ اور بات کہ بہت سے مہربان انتہائی سستے داموں فراہم کی جانے والی ان سہولیات کا بہت ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ مثلاً صرف اپنا گیلا تولیہ سکھانے کے لیے پنکھے چلتے چھوڑ جاتے تھے۔
یونیورسٹی کا سنہرا دور ختم ہوا تو مجھے کرایے پر ایک کمرے کی تلاش ہوئی۔ نجی ہاسٹلز میں کمرے دستیاب تو تھے لیکن میں انفرادی کمرہ لینا چاہتا تھا جس میں چھوٹا سا کچن بھی ہو۔ مجھے کھانا پکانا تو نہیں آتا لیکن کچن کی خواہش اس لیے تھی کہ جب جی چاہے، چائے پکا سکوں۔ بہت تلاش کے بعد جوہر ٹاؤن لاہور کے علاقے میں ایک ایسا کمرہ ملا جس میں چھوٹا سا کچن بھی تھا۔ کرایہ اس کا پانچ ہزار روپے ماہانہ تھا۔
کہاں پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں کمرے، کھانے، بجلی، گرم پانی کی سہولت کے ساتھ 2800 روپے میں بہترین گزارا ہو جاتا تھا۔ اس میں دھوبی سے کپڑے دھلوانے اور کپڑے استری کروانے کے اخراجات بھی شامل تھے اور کہاں صرف کمرے کا کرایہ پانچ ہزار روپے دینا پڑ رہا تھا۔ ہاں اس میں بجلی، پانی اور گیس کا بل بھی شامل تھا۔ خیر، تب تک میں مزید بہتر تنخواہ پر ملازمت کر رہا تھا اور خانگی ذمہ داریاں بھی نہ تھیں تو وہ پانچ ہزار روپے ادا کرنے میں زیادہ تنگی نہ تھی۔
میرے مہربان محمد جنید بھائی نے سامان ہاسٹل سے اس کمرے تک منتقل کرنے میں میری مدد کی۔ اس وقت تک میرے پاس برتن وغیرہ بھی نہ تھے کہ پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں اس کی کبھی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔ تو محمد جنید بھائی قریبی دکان سے پانی کی بوتل اور پلاسٹک کے گلاسوں کا ایک پیکٹ لے آئے۔ بعد میں جب کانچ کے گلاس لے لیے تو پلاسٹک کے اس گلاس میں ریزگاری (سکے) رکھنے لگا۔ کسی چیز کی ادائیگی کے بعد بقایا میں کوئی سکے اگر ملتے تو وہ اسی گلاس میں ڈال دیتا۔
سال بھر سے اوپر کا عرصہ اس کمرے میں گزارا، لیکن جی کسی بہتر کمرے کی تلاش میں اٹکا رہا۔ ایک روز خبر ملی کہ دفتر کے قریب فردوس مارکیٹ میں ایک گیسٹ ہاؤس ہے جہاں ماہانہ چھ ہزار روپے میں کمرا مل جائے گا۔ یہ تو یاد نہیں کہ مہینے کی کون سی تاریخ تھی لیکن یہ یاد ہے کہ مہینہ ختم میں کوئی دس بارہ دن رہتے تھے۔ تو میں فردوس مارکیٹ والے کمرے میں منتقل ہوگیا۔ انہوں نے مجھ سے موجودہ مہینے کے باقی دنوں کا اور اگلے پورے ماہ کا کرایہ پیشگی لے لیا۔ کچھ رقم سامان منتقل کرنے پر لگ گئی۔ جوہر ٹاؤن والے کمرے کے بارے میں طے کیا کہ اس کا کرایہ چوں کہ پہلے ہی دیا ہوا ہے تو مہینہ پورا ہونے پر ہی اس کی چابیاں مالک مکان کو واپس کروں گا۔
فردوس مارکیٹ والے کمرے میں رہنا شروع کیا تو بالکل بھی پسند نہ آیا۔ کچھ دن پھر بھی ٹکا رہا کہ شاید جی لگ جائے لیکن بات نہ بنی۔ آخر ایک دن پرانے ٹھکانے پر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ جب کمرا مالکان سے کہا کہ صاحب اگلے مہینے کا جو کرایہ پیشگی جمع کرا چکا ہوں وہ واپس کر دیں۔ انہوں نے انکار کر دیا کہ پیشگی کرایہ صرف تبھی واپس ہو سکتا ہے جب کمرہ چھوڑنے کا نوٹس ایک ماہ پہلے دیا گیا ہو۔ گویا وہ رقم ڈوب گئی۔ سامان واپس جوہر ٹاؤن والے کمرے میں منتقل کیا تو کچھ لاگت اس پر بھی آئی۔ پرانے کمرے میں واپس پہنچ کر بٹوے کا جائزہ لیا تو وہ بالکل ہی خالی ہو چکا تھا۔
اپنی اس وقت تک کی زندگی میں مجھے کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ میری جیب میں ضرورت کی رقم ہمیشہ ہی موجود رہی تھی۔ اگلی تنخواہ آنے میں ابھی چار سے پانچ دن باقی تھے۔ اب باقی کا مہینہ کیسے گزرے گا، یہ سوال سامنے آیا تو ہاتھ پاؤں پھولے۔ تب پلاسٹک کے اس گلاس کا خیال آیا جس میں سکے ڈال دیا کرتا تھا۔ اس گلاس میں موجود سکے گنے، تین سو روپے سے کچھ اوپر رقم بنی۔ یہ میں آج سے 15 سال پہلے، سال 2010 کے آس پاس کی بات کر رہا ہوں۔ لگ بھگ 300 روپے میں اگلی تنخواہ آنے تک کے دن بہت ہی آرام سے کٹ گئے۔