Apne He Dais Mein Ajnabi
اپنے ہی دیس میں اجنبی

دسمبر کی دھوپ میں مجھے ایک سیاہ رات یاد آتی ہے، جب ہمارا مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔ اتفاق سے کچھ ایسا معمول بن گیا ہے کہ ہر سال دسمبر میں میرے زیر مطالعہ کتابیں یا تو سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے بارے میں ہوتی ہیں، یا ان میں اس سانحے کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ اب سے کچھ دن پہلے ایک کتاب ختم کی، "پاکستان سے بنگلہ دیش، ان کہی جدوجہد۔ " اس کے لکھنے والے شریف الحق دالیم پاکستان فوج میں بنگالی افسر تھے، رینک میجر تھا اور کوئٹہ میں مقیم تھے۔ یہاں سے وہ فرار ہو کر بھارت گئے اور پھر بنگلہ دیش میں پاکستان فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ کوئٹہ سے فرار، مشرقی پاکستان کو الگ ملک بنانے کی مسلح جدوجہد اور پھر بنگلہ دیش بن جانے کے بعد کے حالات، یہ سب انہوں نے درج کیے۔ کتاب بنیادی طور پر انگریزی میں Bangladesh Untold Facts کے نام سے لکھی گئی تھی اور جمہوری پبلیکیشنز نے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا۔
پچھلے سال دسمبر میں ہی (یا دسمبر کے آس پاس) جہاں آرا امام کی کتاب پڑھی تھی، "71 کے وہ دن۔ " جہاں آرا امام بنگلہ دیشی دانش ور تھیں، مصنفہ تھی، سیاسی کارکن تھی۔ 71 میں جو کچھ ہو رہا تھا، روز کے واقعات وہ اپنی ڈائری میں درج کرتی تھیں۔ اس وقت بنگلہ دیش کے عوام سیاسی حل کے لیے کیا امیدیں رکھتے تھے، عسکری جدوجہد کے لیے کیا دلائل دیتے تھے، ان کے جذبات کیا تھے، روزانہ جو کچھ ہو رہا تھا، جہاں آرا امام وہ اپنی ڈائری میں درج کرتی جا رہی تھیں اور بعد میں اسے کتاب کی صورت شائع کیا۔ جہاں آرا امام معاملات کو سیاسی طور پر حل ہوتے دیکھنا چاہتی تھیں، لیکن جب حکمرانوں نے طاقت کا استعمال کیا تو ان کا اپنا بیٹا مکتی باہنی میں جا شامل ہوا۔ یہ کتاب بھی جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے عجیب سا دکھ قاری کو گھیر لیتا ہے۔
آج کل میں میجر جنرل (ریٹائرڈ) خادم حسین راجہ کی کتاب پڑھ رہا ہوں، "اپنے ہی دیس میں اجنبی"۔
یہ سب کتابیں الگ سے ایک پوسٹ/تبصرے کا تقاضا کرتی ہیں، لیکن آج کے زمانے میں 71 کے واقعات پڑھنے کا احساس بہت ہی تلخ ہے۔ معاملات کو سمجھنے میں ایک غلطی، ایک فیصلہ، کیسی تباہی لا سکتا ہے۔ فیصلہ ساز اس وقت کیا سوچ رہے تھے، ہر فریق جن حالات کا شکار تھا، وہ کیا کچھ مختلف کر سکتا تھا۔ طاقت کا استعمال کیسی کیسی نفرتوں کو جنم لیتا ہے۔ مفاد پرست ان نفرتوں کی بنیاد پر کیسے الجھاتے ہیں۔۔ پڑھتے ہوئے یہ سب خیالات یلغار کرتے ہیں۔ کئی سبق بھی ملتے ہیں اور ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتے ہیں کہ آج کے لوگ تاریخ سے واقف ہیں تو تاریخ سے سیکھتے کیوں نہیں ہیں؟