Youm e Jazzam
یومِ جزام
ہر سال جنوری کے آخری اتوار کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام عالمی یومِ جزام منایا جاتا ہے۔ اس سال اس دن کے لیے جس تھیم کا اجرا کیا گیا وہ ہے "Act now" یعنی ابھی عمل کرو۔ اس دن کو منانے کا مقصد جزام کے حوالے سے بیداری پیدا کرنا اور جزام سے متعلق بدنما اور امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہے۔ WHO کے مطابق دو ہزار بارہ تک دنیا بھر میں جزام کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ بیالیس ہزار تھی۔ ان مریضوں میں زیادہ تر ایشیائی اور افریقی ممالک کے باشندے شامل تھے۔
ہر سال پاکستان میں تقریبا دو سے تین سو جزام کے نئے کیسز رجسٹرڑ ہوتے ہیں اور سندھ میں جزام کے سب سے زیادہ مریض پائے جاتے ہیں۔ 2022 میں 81 کیسز رجسٹر ہوئے۔ پورے پاکستان میں اب تک مجوعی طور پر ساٹھ ہزار کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ جزام ایک ایسی بیماری ہے جسے عرف عام میں کوڑھ بھی کہا جاتا ہے اور جس کا انسانوں کو ہزاروں سال سے سامنا ہے۔ ماضی میں اس بیماری کے مریضوں کو ناپسندیدہ اور قابل نفرت قرار دے کر باقی ماندہ معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا تھا۔
جذام ایک دائمی متعدی بیماری ہے جو مائکوبیکٹیریم لیپری کی وجہ سے ہوتی ہے، یہ بیماری بنیادی طور پر جلد، پردیی اعصاب، اوپری سانس کی نالی کے میوکوسا اور آنکھوں کو متاثر کرتی ہے۔ جزام کا مرض انسانی جسم کے پٹھوں اور دیگر بافتوں میں پھیلتا ہے اور غیر محسوس انداز میں اعصابی نظام کے اہم خلیوں کی کارکردگی کی نئے سرے سے پروگرامنگ کر دیتا ہے۔ یہ بات جزام سے متعلق تازہ ریسرچ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
جزام کے مرض کی وجہ سے اکثر مریضوں کے جسم کی معمول کی ہیئت اکثر اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ اعضاء بدنما اور ٹیڑھے ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ماہرین کی ایک نئی ریسرچ کے مطابق چوہوں پر کیے جانے والے ایک بالکل نئی قسم کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ جزام یا Leprosy کا سبب بننے والا طفیلی جرثومہ انسانی جسم کے اعصابی نظام خلیوں اور ان کی کارکردگی کو بڑے نپے تلے انداز میں ہائی جیک، کر لیتا ہے، جو شوان سیلز (Schwann cells) کہلاتے ہیں۔
انسانی جسم کے نروِس سسٹم میں شوان سیلز ان خلیات کو کہتے ہیں جو بنیادی طور پر زیادہ چربی والی ایسی اکائیاں ہوتے ہیں، جنہوں نے اعصابی خلیوں کو اپنے حفاظتی حصار میں لیا ہوتا ہے۔ یہ چکنے خلیے ان اعصابی خلیات کے لیے انسولیشن کا کام کرتے ہیں، جن سے گزرنے والے برقی پیغامات کی مدد سے اعصابی ڈھانچوں کو مختلف احکامات پہنچائے جاتے ہیں۔ جزام کی بیماری کا سبب بننے والا جرثومہ مائیکو بیکٹیریم لیپروزا (مائیکو بیکٹیریم لیپروزا نامی یہ جراثیم ان خلیات کو پٹھوں کی طرح کے سیلز میں تبدیل کر دیتا ہے۔
مائیکو بیکٹیریم لیپروزا ان جینز کی کارکردگی کو متاثر کر دینے کے ذریعے کرتا ہے، جو شوان سیلز کی نشوونما میں نگرانی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہی جرثومہ ان اعصابی خلیوں میں جینز کو فعال بنا دیتا ہے، جو ابتدائی اور کمزور حالت میں nerve cells کی کارکردگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس بیماری کی وجہ بننے والا بیکٹیریا انسانی جسم میں داخل ہو کر پوری طرح فعال ہونے کے لیے اوسطاﹰ قریب پانچ سال کا عرصہ لیتا ہے اور کبھی کبھی تو متاثرہ فرد میں جزام کی علامات ظاہر ہونے میں 20 سال تک بھی لگ جاتے ہیں۔
ہینسن کی بیماری کو جلد کے دھبوں کی ظاہری شکل سے پہچانا جا سکتا ہے جو عام جلد سے ہلکے یا سیاہ نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات جلد کے متاثرہ حصے سرخی مائل ہو سکتے ہیں۔ جلد کے ان دھبوں میں احساس کم ہونا عام بات ہے۔ آپ کو سوئی سے ہلکا لمس یا چبھنا محسوس نہیں ہو سکتا۔ آنکھوں کے مسائل کا بروقت علاج نہ کرنے سے اندھے پن کا باعث بن سکتے ہیں جلد کے متاثر حصوں میں بےحسی پھٹوں کی کمزوری یا فالج کا سبب بن سکتی ہے۔
ہینسن کی بیماری کا علاج اینٹی بائیوٹکس کے امتزاج سے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر، ایک ہی وقت میں 2 یا 3 اینٹی بائیوٹکس استعمال کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ rifampicin کے ساتھ dapsone ہی اسے ملٹی ڈرگ تھراپی کہا جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی بیکٹیریا کے ذریعے اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی نشوونما کو روکنے میں مدد کرتی ہے، جو کہ علاج کی لمبائی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ علاج عام طور پر ایک سے دو سال تک رہتا ہے۔ اگر تجویز کے مطابق علاج مکمل کر لیا جائے تو بیماری ختم ہو سکتی ہے۔
اگر آپ کو جسم کے کچھ حصوں میں یا جلد کے دھبوں میں بے حسی یا احساس کم ہونے کا سامنا ہے۔ تو یہ انفیکشن اعصابی نقصان کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو بےحسی اور احساس کی کمی ہے تو، زخموں سے بچنے کے لیے اضافی احتیاط کریں، جیسے جلنا اور کٹنا۔ جب تک آپ کا ڈاکٹر یہ نہ کہے کہ آپ کا علاج مکمل ہوگیا ہے، اینٹی بائیوٹکس لیں۔ اگر آپ پہلے رک جاتے ہیں، تو بیکٹیریا دوبارہ active ہو سکتا ہے اور آپ دوبارہ بیمار ہو سکتے ہیں۔ اگر جلد کے متاثرہ دھبے سرخ اور دردناک ہو جائیں، اعصاب دردناک یا سوج جائیں کیونکہ یہ ہینسن کی بیماری کی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔ جس کے لیے ادویات کے ساتھ زیادہ گہرے علاج کی ضرورت ہو سکتی ہے جو سوزش کو کم کر سکتی ہیں۔
اگر علاج نہ کیا جائے تو اعصابی نقصان کے نتیجے میں فالج اور ہاتھ پاؤں معذور ہو سکتے ہیں۔ علاج کے دوران استعمال ہونے والی اینٹی بائیوٹکس جذام کا سبب بننے والے بیکٹیریا کو مار ڈالیں گی۔ اگرچہ علاج بیماری کا علاج کر سکتا ہے اور اسے مزید خراب ہونے سے روک سکتا ہے، لیکن یہ اعصابی نقصان یا جسمانی بگاڑ کو واپس نہیں لا سکتا یہ بہت ضروری ہے کہ اس بیماری کی جلد از جلد تشخیص کی جائے، اس سے پہلے کہ کوئی مستقل اعصابی نقصان ہو۔