Medical Ki Tareekh Aur Tanqeedi Pehlu
میڈیکل کی تاریخ اور تنقیدی پہلو
جب بھی علمی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں تو یونان سب سے آگے نظر آتا ہے۔ یونان میں علم کی ترقی کے ذمہ دار فلسفی تھے۔ ایکپیورس اور زینو نے جو اسکول قائم کئے تھے وہ علم کے بہت بڑا مرکز تھا علم کی ترقی میں سوفسطائیوں نے بھی حصہ لیا۔ ان کے تقریروں کے دوران دیے ہوۓ تاریخی، ادبی اور سائنسی جوابوں نے عوام پر بہت بڑا اثر ڈالا، سوفسطائیوں نے نوجوانوں میں علم کا شوق پیدا کیا۔ پریکلس کے عہد تک بڑا طبقہ لکھے پڑھنے سے کافی واقف ہو چکا تھا اور کچھ لوگ تحقیقات میں مصروف تھے۔ Helenestic دور میں لائبریریاں قائم کی گئی۔ جن میں سب سے زیادہ مشہور اسکندریہ کی تھیں۔ جس میں پانچ لاکھ کتابیں تھیں۔ یونانی ادبیات کی کاپیاں عوام کو مہیا کی جاتی تھیں۔ بعض حالات میں حکومت ابتدائی مدرسوں کی بھی مدد کرتی تھی۔ ان میں تعلیم پوری کرنے کے بعد امراء کے بچے پرائیوٹ اسکولوں میں فلسفہ، ریاضی اور فن خطابت پر لیکچرز میں شرکت کرنے کے لئے بھیج دیئے جاتے تھے۔ یونانی فلسفیوں نے سائنسی مطالعہ کے آغاز میں بہت بڑا حصہ لیا۔ انہوں نے فطرت کے مختلف پہلوؤں پر قیاس آرائی کی اور اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لئے ٹھوس شواہد کی تلاش کی، ان کا سب سے بڑا مقصد فلسفیانہ نظریات کی مدد کرنا تھا۔ ان کے انہی نظریات اور تفکرات نے سائنس کی ترقی میں حصہ لیا۔ ارسطو نے میڈیکل سائنس کے مطالعہ کی بنیادڈالی۔ مچھلیوں کے علم پر جو کچھ اس نے نظریات قائم کئے تھے وہ آج تک تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد موجود ہیں، Theophrastus نے جو ارسطو کا شاگردتھاعلم نباتات)botany) کو سائنس کے زمرہ میں شامل کیا Dioscorides نے درختوں کی بہت سے قسمیں اور ان کی خصوصیات گنواہیں)
ایکسی مینڈر (Auarimander) یونانیوں میں سب سے پہلا شخص تھا جس نے حیاتینی سائنس کی بنیاد ڈالی۔ اس کا یہ نظریہ تھا کہ پہلے حیوانات پانی میں رہتے تھے۔ اس کے بعد خشکی پر آگئے۔ Empodocles نے دنیا evolution ارتقا کی بابت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا Diosenese نے مغرب میں سب سے پہلےDescription of organs تشریح اعضاء کے متعلق رسالہ لکھا کر دیا (Democrites) نے جانوروں کی قسمیں مقرر کیں، جس کو بعد میں ارسطو نے ترقی دی۔ میڈیکل کے شعبہ میں یونانیوں نے سب سے زیادہ تر تی کیں۔ یونان میں طب کے تین آزاد اسکول قائم تھے (Onidus) نے مختلف بیماریوں کو معلوم کیا اور ہر ایک کا الگ الگ علاج کا پتہ لگایا۔ (Croton) کے اسکول نے جس کا پاٹھا گورس بھی ممبر تھا۔ بیماریوں کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی، کرون (Croton) کے اسکول والوں نے اپنی تحقیقات کے بعد نظریہ قائم کیا بعض بیماریاں طبعی ہوتی ہیں اور بعض کا علاج ہوسکتا ہے۔ ہیویس(Hipprocates) نے جواب تشریح اعضاء کا باوا آدم کہلاتا ہے۔ اس کی تحقیقات سے آئندہ آنے والوں کے لئے راستہ کھول دیا۔ اس اسکول والوں نے بیماروں کو روکنے کے لئے صفائی پر زور دیا۔ ہیرو کیلس (Hero Hilus) جو تیسری صدی قبل مسیح میں گزرا ہے علم تشریح کا باوا آدم کہلاتا ہے۔ اس نے انسانوں کے جسموں پر تشریح کر کے پٹھوں اورنسوں رگوں کے عمل کا پتہ چلایا۔ اس نے شریان، رگوں، جگر، ہاضمے کے خطے غدود اور تولد و تناسل کے عضو کا مطالعہ کیا۔ نبض کی رفتار کو معلوم کرنے کی تدبیر نکالی ایراس ٹرائس (Erasistratus) جو علم عضویاتorgans کا باوا آدم کہلاتا ہے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ خون رگوں کے اندر دوڑتا ہے۔ بدن کی پرورش کرتا ہے۔ اس نے دل کی مسام Pores کے نام مقرر کئے جو آج تک استعمال ہو ہیں۔ ان لوگوں نے علم طب کوانتہائی بلندیوں پر پہنچادیا۔
رومیوں نے سب سے پہلے اسپتالوں کی بنیاد ڈالی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے یونانی مناور سے جو اسپتال کا کام دیتے تھے۔ بہت کچھ حاصل کیا۔ قومی ضروریات کے لئے اسپتالوں کا قیام ضروری تھا تا کہ فوجیوں کو اعلی قسم کی طبی امداد دی جا سکے۔ اس لئے بڑے بڑے اسپتال تعمیر کئے گئے۔ عہد وسطی میں یورپ اور عربوں وغیرہ نے اسپتال کا نظریہ رومیوں سے ہی حاصل کیا۔ جڑی بوٹیوں سے تلف بیماریوں کے لئے ادویات تیار کی گئی اور ان کے نتائج اخذ کئے گئے اس سلسلہ میں علم نباتات کوترقی ہوئی Dioscorides نے جو پہلی صدی میں رومی فوج میں ڈاکٹرتھا علم نباتات پر کتاب لکھی جس کو قاموس کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کتاب میں اس نے چھ سو پوروں اور ان کی خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے زیادتر TheoPhrastus کی کتاب سے فیض حاصل کیا ہے۔ روما کی طبی تاریخ میں سب سے بڑی ہستی لیلس (Celsus) کی ہے۔ جو اگسٹس کے عہد میں گزرا تھا۔ اس نے شہنشاہ ٹی بیریوس(Tiberius) کا بھی عہد دیکھا تھا۔ گو و ہ طبیب نہیں تھا، لیکن آس میدان میں وسیع نظر رکھتا تھا۔ اس کی کتاب Onmedicine کبھی دنیا میں ایک شاہکار تصور کی جاتی ہے۔ وہ سب سے پہلا مصنف ہے جس نے بندشوں کے زریعہ خون کے بہاؤ کو روکنے کا طریقہ بتایا onmedicine طبی سائنس اور تجربات کی ایک بہت بڑی تخلیق کی کہی سکتی ہے۔ گو اس نے عہدوسطی پرکسی قسم کے اثرات نہیں ڈالے لیکن پھر بھی اس کی عظمت اپنی جگہ پر قائم ہے۔ بقراط کے بعد قدیم دنیا کی طلب کے میدان میں سب سے بڑی ہستی جالینوس(Galen) (۱۲۹- ۱۹۹ء) کی ہے۔ بقراط کے نقش قدم پر اس نے یونانی دنیا کے روائتی ملی طریقوں کو اختیار کیا لیکن اس نے گردو، کان اور ریڑھ کی ہڈی کے انسانی جسم میں عمل کی بابت اپنے مشاہدات اور نظریوں کو قلمبند کیا۔ اس نے مظاہرہ کے ذریعہ اس امر کوبھی ثابت کیا کہ رگوں کے زریعے خون جسم میں گردش کرتا ہے۔ اگر کوئی رگ کاٹ دی جائے تو تیس منٹ میں جسم سے کثیر مقدار میں خون نکل جائے گا۔ اس نے تپ کی بہت کی قسمیں بتائیں۔ جالینوس نے طب پر ایک سو پاس کتابیں لکھیں اور طب کے ہر شعبہ سے بجث کی ہے۔ یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کو تحقیقی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ زیادہ تر سابقین کے مشاہدات اور نظریات کو نئے طریقے سے پیش کیا گیاہے۔
رومیوں نے یونانی اصولوں کو اپناتے ہوئے نئے اصول متعارف نہیں کرائے جس کی وجہ سے ان کی طبعی تحقیق میں جدت نہیں ائی۔
آٹھویں صدی عیسوی میں یوحنا ابن ماسویہ اور حنین ابن اسحاق نے ترجموں اور تصنیف دونوں میں دلچسپی لی۔ ابن ماسویہ نے امراض چشم (Eye diseases) پر کتاب لکھی اور سنین نے العشر مقالات في العیں لکھی امراض چشم پرعلی الطہری نے میں فردوس الحکمت کے نام سے کتاب لکھی الرازی مسلمان طبیبوں میں سب سے اہم شخصیت ہے۔ اس نے ایک سو بارہ اور اٹھائیس چھوٹی کتابیں لکھیں اس کی کتاب کتاب الطب منصوری بہت مشہور ہے۔ اس نے خسرہ اور چیچپک. (Measles and smallpox) پر مضامین شائع کے اس کی اہم تصنیف الحادی تھی اس کتاب میں علم طب کا پورا زخیرہ تھا آس کتاب کا پہلا ترجمہ لاطینی زبان میں فراج بن سلیم ایک یہودی معالج نے کیں۔ رازی نے علم کیمیا اورعلم جرائی پر بھی کتابیں لکھیں المجوسی نے ایک کتاب الکتاب الکلکی تحریر کی جس میں علم طب کے اصولوں اور دواؤں کی فہرست پیش کی۔ ابن سینا کو اہل عرب بہت بڑا عالم مانتے ہیں ان کی تصانیف کی تعداد سو سے زیادہ ہے مگر کتاب الشقا اور القانون في الطب بہت مشہور ہیں قانوں فی الطب کا ترجمہ گیرارڑ نے کی تھیں اور یہ کتاب یورپی ممالک کے میڈیکل کے طلباء کو ایک عرصے تک پڑھائی جاتی رہی۔ جس میں علم طب کے تمام ذخائر موجود ہیں اور بیماریوں کے اسباب اور علاج درج ہیں۔ جب ہی ڈاکٹر اوسلر نےاس کتاب کی علم طب کا انجیل بتایا ہے۔ رازی اور ابن سینا کے فوٹو اج بھی پیرس یونیورسٹی کے اسکول اف میڈیسن میں لگے ہوئے ہیں۔ علی بن عیسی نے تذکرة الکحالیں نام کی کتاب لکھی اس میں ۱۳۰ امراض چشم کا ذکر کیا گیا ہے۔
برصغیر اور ایران کے حکمران کو ہوس پرستی سے فرست ہی نہیں ملی کہ وہ سائنس کی طرف زیادہ توجہ دیتے۔ گو حسن و خوبصورتی کے دلدادہ تھے مگر انہوں نے غیر ملکی فنکاروں کے ذریعے اپنے اس ذوق کو پورا کیا۔ یہ لوگ خوبصورت مکانوں میں رہا کرتے تھے۔ جن سے ملحق باغات ہوتے تھے۔ شکار کے لئے باقاعدہ چراگا ہیں ہوتی تھیں۔ مکان انتہائی نفاست سے بنائے جاتے تھے۔ فرشوں پر اعلی قسم کے قالین بچھے ہوتے تھے۔ انتہائی قیمتی فرنیچر استعمال کیا جاتا تھا۔ میزوں میں سونے یا چاندی سے منڈھی ہوئی نہیں۔ سونے کے ساغروں میں شراب پی جاتی تھی۔ میز وں کو چینی کے گلدانوں سے سجایا جاتا تھا۔ ان گلدانوں میں رنگ برگی پھول رکھے جاتے تھے۔۔ باہوں میں بانسری، ڈھول اور برابط خاص باجے تھے۔ زیورات کا بھی ایرانیوں کو خاص شوق تھا۔ جس میں پاز ہیں، کانوں کے چھلے، اور دوسری چیزیں شامل تھیں۔ مردبھی کانوں میں چھلے، بازوبند اور ہار پہنا کرتے تھے۔ عورتیں سونے کا کام کئے جوتے بھی استعمال کرتی تھیں۔۔ جڑاؤ زیورات بھی تیار کئے جاتے تھے۔ مغلیہ بادشاہوں کا تخت اور شامیانہ سونے کا ہوتا تھا۔ ان شامیانوں کے کھمبے بھی سونے کے ہوتے تھے۔)
رومیوں کو بدرحوں نہیں، ایرانیوں کو ان کے کاہنوں نے اور برصغیر والوں کو جعلی پیروں ایسے اپنے جادو میں جھگڑا ہوا ہے کہ انہیں فرست ہی نہیں کہ آس طرف متوجہ رہے اورجسے سابقہ روم علم طب میں یونانیوں ہاں میں ہاں ملا کے چلا رہے تھے آس طرح اج ہم مغرب کے ہاں میں ہاں ملا کے چل رہے ہیں و رہر بھی دیتے ہیں تو آس بھی اب شفا سمجہ کے پی رہے ہیں کیونکہ ہم ان کی تقلید میں ہیں۔
المیہ!