Fish Culturing Aur Pakistan
فش کلچرنگ اور پاکستان
ایکوکلچر کا شعبہ دنیا میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بیف ، چکن کے ساتھ مچھلی کو بھی دنیا بھر میں خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس وقت چین کا مچھلی برآمد کرنے والے ممالک میں پہلا اور ہندوستان کا دوسرا نمبر ہے۔ اس کے علاوہ ایشیا کے دیگر ممالک میں انڈونیشیا، ملائیشیا اور بنگلہ دیش بھی سر ِفہرست ہے۔ پاکستان اس صنعت میں آشیاء کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ پاکستان میں یوں تو ہزاروں ماہی گیری اس صنعت سے منسلک ہیں پر اس کی اہمیت سے بہت کم لوگ ہی آگاہ ہیں۔
خصوصاََ کراچی اور بلوچستان کے ساحلی پٹی پر ہزاروں ماہی گیر اپنے قلیل اوزار کے ساتھ مچھلیاں پکڑتے ہیں اور اس سے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ کم وسائل کی وجہ سے ان کے پاس چند دنوں کے لیے بھی مچھلی preservedطریقہ کار موجود نہیں ہے۔ جبکہ اشیاء کے دوسرے ترقی پزیر ممالک میں بھی اس کو محفوظ رکھنے کے لیے مختلف تکنیک استعمال کی جاتیں ہیں مثلا سالٹنگ، ڈی ہاڈیریشن اور فریذنگ وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان نے 2017 میں سمندر کی برآمدات 27 فیصد سے بڑھ کر 1.98 ٹن ہو گئیں تھیں، جس سے قومی خزانے کو چار سو اٹھاون ملین ڈالر حاصل ہوئے تھے۔ تاہم جولائی کے وسط میں سات اعشاریہ پینتیس فیصد کمی ہوئی تھی، اس کی بنیادی وجہ خوراک کا صحیح ہونا تھا۔ صنعت و اسٹیک ہولڈرز شکایت کرتے ہیں کہ ناقص خوراک کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی مچھلی کی قیمت بہت کم ہے۔ پاکستان ایکسپورٹر ایسوسی ا یشن کے سابق صدر کے مطابق، بین الاقوامی مارکیٹ میں مچھلی کی فی کلو قیمت $7 جبکہ پاکستانی مچھلی کی قیمت $59. 2 فی روپے کلو ہے۔
اس کی وجہ سے ایکسپورٹرز اور اسٹیک ہولڈر ناخوش دکھائی دیتے ہیں اور بین الاقوامی مارکیٹ میں چین کے علاوہ کوئی بھی ملک پاکستان سے مچھلی خریدنے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ پاکستان سب سے زیادہ چین کو $59. 2 فی روپے کلو کے حساب سے مچھلی فروخت کرتا ہے اور اسی ریٹ پہ یورپی ممالک کو فروخت کرتا ہے۔ جبکہ ہندوستان کے دو سو کارخانے بین الاقوامی قیمت پر یورپی ممالک کو مچھلی فروخت کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں پاکستان میں زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی سٹینڈر کے کارخانے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے پاس موجودہ دور میں صرف 150، fisheries fromموجود ہیں۔ ان میں سے 35 کراچی ہاربر کے احاطے میں ہیں۔ ان فارمز کے لیے کیٹی بندرگاہ سے مچھلیاں سپلائی کی جاتی ہیں اور منتقل کرنے کا عمل غیر شفاف ہے، اس کی وجہ سے کوالٹی خراب ہوتی ہے اور مونوکلچرنگ اور پولی کلچرنگ کے قابل ہی نہیں رہتے ہیں۔ جیسا کہ فش کلچرنگ ایک بہترین طریقہ ہے، ہندوستان میں ہر سال labeorohita، Chinese carpاور Tolapiaجیسے فشرز کی کثرت سے کلچرنگ کی جاتی ہے۔
اس میں ہوا، مٹی اور درجہ حرارت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اس وقت دنیا کی کل مچھلی کی پیداوار 178 ملین ٹن ہے جب کہ چین 58 ملین ٹن یعنی ایک تہائی، ہندوستان 9 ملین ٹن کے ساتھ دنیا کی چھ فیصد ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ پاکستان کے پاس سمندر کا ایک بہت بڑا حصہ کراچی اور گوادر میں موجود ہے، اگر تحقیق کریں تو ہم بھی دنیا کے صفِ اول کے مچھلی ایکسپورٹرز میں شامل ہو سکتے ہیں۔ خیر!اقوام ِمتحدہ کے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں وسائل کا فقدان ہے، افزائش کے مہینے جون اور جولائی میں پابندی کے باوجود ماہی گیر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ جس سے نایاب سمندری انواع معدوم ہورہے ہیں۔ اور کلچرنگ کوالٹی کے فقدان کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہو رہی ہے۔
پاکستان میرین فشریز ڈپارٹمنٹ ان تمام صورتِ حال سے بے خبر ہے اس کی بنیادی وجہ اس شعبہ میں تحقیق کا نا ہونا ہے، یوں تو پاکستان خصوصاََ سندھ کے جامعات میں اس شعبہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بھی تفویض کی جاتی ہیں پر اس شعبہ میں ڈاکٹریٹ کرنے والے بھی فشریز فارمز سے لاعلم دکھائی دیتے ہیں۔ اصل میں، انہیں محض میوزیم میں موجود مچھلیوں کے ڈھانچے دکھائے جاتے ہیں اور غلطی سے بھی انہیں فشریز فارمز نہیں لے جایا جاتا۔ کراچی میں 35 فارمز ہونے کے باوجود طلباء کی آؤٹ ڈور سرگرمیاں صفر ہیں۔ اس صورِتحال میں بہتری کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اور اس صنعت میں ترقی بھی ممکن نہیں ہے۔