Apni Soch Badlain (3)
اپنی سوچ بدلیں (3)
مصاحب یعنی ساتھ رہنے والاصحبتی یا آسان الفاظ میں دوست یاساتھی۔ اچھا مصاحب بنانا ضروریات زندگی میں سے ہے، کیونکہ انسان ہمیشہ اپنے ساتھی(مصاحب) سے پہچانا جا تا ہے۔ اگر کسی آدمی کے باطن کو درک کرناممکن نہ ہوتوا کے مصاحب پر نظر دوڑ اۓ تاکہ آپ کو باطن غیر سمجھے میں آسانی ہو (اس سے مراد ہرگز باطن غیر کے افعال میں تجسس کے معنی میں نہیں) دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا اور دوسروں سے تعلقات قائم کرنا ایک ایسی صلاحیت ہے جو ہر انسان میں خود ہی نہیں پائی جاتی، وہ لوگ جو معاشرے میں اعلی رتبوں پر فائز ے ہوتے ہیں ان میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے خدا نے دنیامیں اربوں انسانوں کوخلق کیا ہے لیکن انسان ان میں سے چند ایک کے ساتھ اٹھنا بیٹھناپسند کرتا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کا مزاج ایک جیسا نہیں ہوتا، عاداتیں بھی ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔
ہم خیال مصاحب سے روابط استوار کر نا عاقل انسان کی نشانی ہے، دنیا میں جہاں تمام رشتے خصوصا خونی رشتے بنانے میں انسان آزاد نہیں بلکہ یہ تمام خونی رشتے حالات کے پیداور ہوتے ہیں قریبی رشتوں کے حوالے سے ہماراحق انتخاب معدوم ہے، حالات خودکار طریقے سے یہ رشتے ہم سے منسلک کرتے ہیں وہ وہ جگہیں جہاں ہم کام کرتے ہیں مسئلہ اسکول، کالج، آفس و بینک وغیرہ وہ رشتے بھی ہمارے حقیقی انتخاب نہیں ہوتے بلکہ ضرورت کے مطابق یہ تعلقات بنانے پڑھتے ہیں اس بند دنیا میں انسان دو رشتے خود سے بناتا ہے، ایک جیوں ساتھی اور دوسرا دوست پر کچھ معاشروں میں جیون ساتھی بنانے میں بھی انسان آزا نہیں، اس کے علاوہ انسان صرف ایک ہی رشتہ خود بنتتا ہے، وہ ہے مصاحب یعنی مرشد، رہنما و رہبر وغیرہ ہیں۔
بہترین دوست کا انتخاب ضروری ہے کیونکہ آپ کوصراط مستقیم و صراط ظالین کی طرف لے جان والا یہی دوست ہوتا ہے۔ سورہ القمان میں ارشاد ہوتا ہے " قیامت کے دن لوگ کہنے لگیں گے کاش! میں فلان کو اپنا (مصاحب)خلیل نہ بناتا "۔ آپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو کیسے مصاحب کا انتخاب کر نا چاہیے، مصاحب کے حوالے سے لوگ عقلی نقلی دلائل دیتے ہیں پرحقیقت میں انسان کو درجہ ذیل صفات والے مصاحب کو تلاش کرنا چا ہے۔۔۔
ا۔ ہم خیال ہونا (ہم خیال ہونے سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کی طرف سے سوچیں بلکہ انتخاب ہدف یکساں ہوں)۔ ۲۔ان سے بات کرنے کا دل چاہے (جب بھی آپ ان سے ملے ان سے بات کرنے میں خوشی محسوس ہو۔ اظہار خیال میں اختلاف ہونے کے باوجو تکلم عالمانہ ہو)۔ ۳۔ آپ کے منفی خیالات کومثبت میں تبدیل کرتا ہوں (مسئلہ آپ کسی معاملہ میں نا امیدی، تذبذت اور احساس کمتری کا شکار نہیں تو وہ آپ میں حوصلہ، عزم وخوداعتمادی بحال کراتا ہو)۔
درجہ بالا خصوصیات ایک بہترین مصاحب میں پاۓ جاتے ہیں۔ انسان کو کاہل اور بیوقوف دوست سے دور رہنا چا ہئے کیونکہ یہ دونوں ہدف کی راہ میں سب سے بڑے رکاوٹ ہیں۔
اس دور جدید میں جہاں انسان کو ہر طرح کے آسائشیں میسر ہے کھانے پینے چلنے سے لیکر رابطہ تک سہولیات گھر میں بیٹھ کے آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ ان تمام لوازمات کا ہم ضرورت سے پڑھ کر استعمال کرتے ہیں جس سے سستی کابلی آجاتی ہے اور ہمارے سوچنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آسائشوں کے ساتھ انسان کی فکری نشونما ممکن نہیں ہے، چند وجوہات جن طرف غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ا۔ کھیل کود: کہتے ہیں جس ملک کے میدان آبادی میں وہاں کے میدان ویران ہے کیونکہ جسم کی فٹنس کیلئے کھیل کو ضروری ہے، جدید سائنس کے مطابق جسم کوفٹ رکھنے کیلئے کم از کم دن ہی ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ورزش لازمی ہے ہمارے معاشرے میں جب سے موبائل کا استعمال کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے میدان خالی نظر آنے لگے ہیں، بچے کھیل کود کیلئے باہر نہیں جاتے بلکہ وہ موبائل میں ہی upload کر کے کھیلتےہیں جس سے ان کی قوت بینائی اورقوت فکری متاثر ہوتی ہے۔
ایک جگہ بیٹھہ رہنے سے جسم میں سستی اور کاہلی جنم لیتی جس سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔ والدین چاہے کہ اس طرف توجہ دے، یا جب بچہ کھیلنے کیلئے جاتا ہے تو دو چیزوں کو ذھن میں رکھ کے کھیلتا ہے ایک جیت دوسرا ہار بچہ، ہمیشہ جیتنے کے لیے کھیلتا ہے۔ کھیلنے سے جسمانی ورزش ہوتی ہی ہے پر جب مخالف ٹیم مضبوط ہوتی ہے تو وہ حکمت عملی بناتا ہے ایک ایک منٹ وہ خوداعتمادی کے ساتھ صرف کرتا ہے جس سے جسمانی نشونما کے ساتھ فکری نشونما بھی ہوتی ہے اس لیئے والدین کو چاہئے کہ ہزاروں روپے کے آسائش مہیا کرنے کے بجاۓ چند سوروپوں میں کھیل کے سامان خرید کے دے تا کہ بچہ مشکلات سے مقابلہ کرنے کا گر سیکھے۔
۲۔ذھنی سازی و تدبیر ہے جس کے ذریعہ سے انسان ایک فرد سے پوری قوم میں تبدیلی لاسکتا ہے۔ صد راسلام کا مطالعہ کرے، رسول اکرم کے پاس نا وسائل تھے اور ناہی ظاہری دولت ۲۳ سال ذھنی سازی کی وہ رسول جن کے پاس شعبہ ابوطالب میں کھانے کے اخراجات تک موجود نہیں تھیں نے ۲۳ سالوں میں ذھن سازی کی جس کے نتیجے میں ناصرف حکومت اسلامیہ کا قیام ممکن ہوا بلکہ روم اور فارس کی عظیم سلطنتوں کے مقابلے میں کھڑے ہوۓ۔ یہ کیسے ممکن! عزیز نوجوان یہ ذھنی سازی سے ہی ممکن ہوا ملکۃ العرب خدیکۃ الکبری جن کے سامنے بڑے بڑے عرب کے تاجر مالی تجارت خریدنے آتے تھے دولت اتنی زیادہ تھیں کی تجارت کے لئے مال تجارت لوگوں کو کرایہ پر دیتی تھی آپ نے انکی ذھن سازی کیں، وہ شعبہ ابوطالب میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ پیتے، کھانے پہ آمادہ ہوئی۔ زھن سازی باتوں کی بھر مار سے نہیں بلکہ مصدق دل سے اور اظہار بدن سے ممکن ہوتا یادرہیں !
آسائش طلب انسان معاشرے کی طرف غورنہیں کرتا یہ حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ غربت کی چھکی میں پینے کیلئے ان کی ذھنی سازی نہیں ہوتی۔آسائش طلبی سے نکلنے کا آسان راستہ میانہ روی اور سادگی ہے نفس کو بے جا خواہشات سے روکنے اور کم از کم سامان زیست سے جسم کو گزارنے کا نام سادگی ہے۔ سادگی کا مطلب ہرگر یہ نہیں کہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے بلکہ یہ خواہش نہ کرے، کاش یہ یہ بھی ہوتا وہ بھی ہوتا جب آپ میاندروی اختیار کرتے ہیں تو آپ میں باطل قوتوں سے مقابلہ کرنے کا جذبہ پیداہوتا ہے اور مصائب برداشت کرنے کا عزم پیدا ہوتا ہے اور یہ قوت بلندی ہمتی، جہدمسلسل اورسعی کے ذریعہ ہی ممکن ہے جیسے ہی قوت برداشت انسان میں پیدا ہوتی ہے تو وہ اس ذھنی میں ریفائن کرتا ہے اورخودکو بلندمقاصد کیلئے منظم وآمادہ کرتا ہے اورزندگی کی راہ میں اپنا سب سے بڑامقابل نفس کو مار دیتا ہے اورنوراطمینان (ایمان)قلب میں بسالیتا ہے۔۔ حدیث نبوی بھی یہی ہے: "سادہ طرز زندگی ایمان کی علامت ہے"۔ (ابوداؤد)
اب اس حدیث سے یہ بات روشن ہوتی ہے کہ سادگی میں ہی اصل ایمان ہے۔
جاری ہے۔۔