Apni Soch Badlain (2)
اپنی سوچ بدلیں (2)
ہدف کیا ہے؟ ہدف مستقبل کی منصوبہ بندی کی طرف پہلا قدم ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں مہارت کی نشونما میں بنیادی کر دار ادا کرتا ہے۔ کام سے لیکر تعلقات ان سب میں اہداف کا ہونا ضروری ہے۔ پابلو پکاسو کہتے ہیں: ہدف ایک گاڑی کی طرح ہے جو ہمیں منزل تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اگر ہمیں منزل تک پہنچنا ہے تو سواری پر یقین رکھنا ہوگا کیونکہ یہ منزل تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔۔ لیستھم اینڈلاک کہتے ہیں: ہدف مقرر وقت میں ایک مخصوص شے میں مہارت حاصل کرنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دینے کا نام ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کچھ لوگ بہت جلدی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں ایسا کیوں ہے؟
کیونکہ وہ اپنے اہداف کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں وقت مقررہ میں کامیابی کواپنے لیے فرض سمجھتے ہیں سابق امریکی صدرٹرمپ جو کہ بہت بڑے بزنس مین ہے ان کے حوالے سے مشہور ہے کروہ روزانہ کے بنیاد پر اپنے آفس میں کارکر دگی چارٹ کا جائزہ لیتے۔ کیونکہ کارکردگی کا جائزہ لینا خود ہدف کی طرف متوجہ ہونے کی نشانی ہے۔۔ مسلط شدہ اہداف کے نتائج: دنیا میں کوئی بھی انسان بے ہدف زندگی نہیں گزارتا وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتا ہے اکثر اوقات وہ کچھ اور چاہ رہا ہوتا ہے مالی تنگدستی، ماں و باپ، دوست احباب اور دیگر اسباب انہیں وہ کام کرنے نہیں دیتے بلکہ یہ ان پر ایک ہدف مسلط کرتے ہیں۔ اور معمول کو مجبوراقبول کرنا پڑتا ہے اور یہ انسان ہدف کے تعین میں خودمختارنہیں ہوتا جب بھی ایسے موقع ملتا ہے۔ وہ مسلط شدہ ہدف کو چھوڑ کے باغی ہونا چاہتا ہے اور ہوتا ہے پوری کریئر داؤ پہ لگا دیتا ہے جبکہ اس کا الٹرنیٹ طریقہ ہے جس سے معمول لاعلم ہوتا ہے انہیں چاہئے کہ درجہ ذیل چیزوں پرغور کریں۔
مسلط شدہ اہداف سے نکلنے کا فارمولہ: ا۔ انہیں چاہئے کہ اچھے برے میں تمیز رکھنےے کے فورابعد سے ہی اپنے اہداف کے بارے میں اپنے والدین کو بتاۓ اور اس کام میں اپنی اہلیت ان کے سامنے رکھے۔ ۲۔ اگر بالفرض اسکے باوجودبھی والدین نہیں مانے تو اب انہیں چاہتے کہ مسلط شدہ ہدف کو قبول کریں اور اس میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کریں ۳۔ اگر اس میں دلچسپی پیدا نہ ہور ہی ہوتو اب صرف مسلط شدہ ہدف کو ضرورت کے حد تک قبول کرے۔ مثلا: آپ کے والد ین آپ سے تقاضا کریں کہ آپ فزکس، کیمسٹری میں MSC کریں آپ نہیں چاہتے۔ تو آپ نے چار سال پر محیط عرصے کو بالکل اس طرح لینا ہے جیسے آپ کے سامنے ایک ریگستان ہے اس ریگستان سے گزرنے کے بعد آپ کو ایک عالی شان عمارت ملنے والی ہے بس بالکل اس طرح جس طرح ریگستان سے نکل کے لئے اسباب سفر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح مسلط شدہ ہدف کو اسباب سفر سمجھے، عالی شان عمارت جو اس کے بعد ملنے والی ہے اسے ہدف سجھے کیونکہ ریگستان میں آپ نے چند دن گزارنے ہیں اور عالی شان عمارت میں پوری زندگی تو مسلط شدہ ہدف کوقبول کرو بھی تو اسباب سفر کی طرح اورحقیقی ہدف ہمیشہ اپنارکھو! لیکن خیال رکھنا کہ یہ عقل سے متصادم نہ ہو جس دن یہ فکر کی مخالفت پہ آۓ تو آپ عالی شان عمارت کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہو۔
تجسس کیا ہے؟ تجسس ایک فطری صلاحیت ہے جو تمام جانوروں میں پایا جا تا ہے، پر یہ حسن انسانوں میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کی تجسس کے بعد انسان کو قابل قبول نتیجہ حاصل ہو۔ ایک بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو دنیا کے تمام چیزوں سے عاری نظرآ تا ہے یہاں تک کہ ان کے تن پرلباس نہیں ہوتے اور وہ لباس سے بھی بے خبر ہوتا ہے لیکن تجسس کے تحفہ کے ساتھ دنیا میں آ تا ہے اور سیکھنے کی تجسس کے ساتھ وہ چیزوں پرنظر کرتا ہے اور ان چیزوں کوسمجھنے میں دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ الفاظ سیکھ جاتا ہے اور جتنے زیادہ لوگوں سے ان کا ملنا ہوتا ہے اتنا ہی اپنے اند رتجسس پیدا کرتا یہ کہا جا سکتا ہے کہ زبان بنیادی طور پر ایک سہارا نہیں لیکن بچے کے اظہار کی پہلی منزل ہے جس کے ذریعہ سے ان کی تجسس میں اضافہ ہوتا ہے ہمیشہ تجسس کو پروان چڑانے اور برقراررکھنے کیلئے سیکھنے کی سہولت فراہم کرے اور سیکھنے کی حوصلہ افزائی کر یں۔
تعلیم نظام اور سیکھنے کاعمل: اگرچہ افسوس کی بات ہے یہ ہے کہ مر وجہ تعلیمی نظام میں جہاں ہمارے بچے سیکھتے ہیں وہاں ہماری فطری تجسس کا نہ تو خیر مقدم کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی پرورش کی جاتی ہے تعلیم کی دائروی منطق غیر متعلقہ چیز جمع کرنے کا باعث بنی اور اسی نے تعلیمی عمل کو انحطاط کا شکار بنادیا۔ یہاں اصل ستم ظرفی یہ ہے۔ کہ ہم جیسے فطری طور پر متجسس نوع کے لیے ہمارا نصاب نوجوان دماغوں کواسے مواد سے بھر دیتا ہے جو ہمارے اندر چھین ہوئی متجسس شخصیت سے ضد کرادیتا ہے اور اسکول میں پڑھاۓ جانے والے اسباق محض روز گار کے حصول کیلئے افراد تیار کرتے ہیں۔ پھر بھی اکثر سیکھنے کا عمل کا نہ ہونا، خوتجسس کو جنم دیتا ہے اورزندگی کے تمام شعبوں میں اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
سیکھنے کے عمل میں تبدیلی کیسے ممکن ہے؟ انسان ماں کی رحم سے لیکر ملک الموت کے آنے تک یا جسم میں روح داخل ہونے سے لیکر جسم سے روح کا پرواز کرنے تک مسلسل طلب میں رہتا ہے اسلئے کہتے ہیں کہ طالب علم اور طالب دنیا کبھی سیر نہیں ہوتا، ہمیشہ طالب علم سیکھنے کے عمل کو ترک نہیں کرتا پر چند خامیاں نصابی تعلیم حاصل کرنے والوں میں ہے جن کو تبد یل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ نصابی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کسی بھی ادارے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سیکھنے کا عمل بھی روک دیتے ہیں فارغ تحصیل ہونے کا مطلب ہر گز علم سے فارغ ہو نانہیں بلکہ اصول عمل سیکھنے کے بعد فارغ ہوتے ہیں تا کہ ان اصولوں کی روشنی میں علم کی گہرائیوں کا مطالعہ کریں۔
ایک فارغ اتحصیل طالب علم چار یا پانچ سالوں میں صرف رموز علم کے قوانیں سیکھتا ہے جن کے ذریعے سے انہیں اگلے پچاس سے ساٹھ سال تحقیق کرنی ہوتی ہے، پر یہاں معاملہ بالکل اسکے برعکس ہے۔ طالب علم پانچ سال لگا کے کسی بھی شعبہ میں ڈگری حاصل کرتا ہے اوراگلے پچاس سال (ڈلیور) کرتا ہے، جس کی وجہ سے تحقیق معدوم ہو چکی ہے۔ آپ خودسو چیں ! ہم دنیا سے کیوں پیچھے ہیں؟ ایجادات کیوں نہیں کر سکتے، آخر کیا وجہ ہے؟ کیونکہ ہم میں تحقیقانہ روش نہیں ایک ڈگری ہولڈراورایک محقق میں یہی تو فرق ہے کہ ڈگری ہولڈر چند اصولوں کورٹ لیتا ہے جب کہ محقق ان اصولوں کو غلط اور صحیح ہونے پہ بحث کرتا ہے، جہاں تحقیق کا دائرہ کار وسیع نہ ہو وہاں ایجادات اور علوم میں تفکر کیسے ممکن ہیں، زارنہیں عقل سے سوچیں !
(جاری ہے)